• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جے آئی ٹی نے مریم نواز شریف کو بھی طلب کر لیا ہے۔ امید کی جا رہی تھی کہ وزیر اعظم نواز شریف ، انکے بیٹوں، کزن اور انکے بھائی ، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے پوچھ گچھ کرنے کے بعد ، جے آئی ٹی شریف خاندان کی خواتین کو حاضری سے مستثنیٰ رکھے گی۔ اس خوش گمانی کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے سماج میں لاکھ خرابیاں سہی، مگر آج بھی ہمارے ہاں خواتین کا، گھر کی بہو بیٹیوں کا لحاظ اور احترام ملحوظ رہتا ہے۔ مریم نواز باقاعدہ عملی سیاست کا حصہ نہیں ہیں۔ وہ غیر رسمی طور پر میڈیا سے متعلق معاملات دیکھتی ہیں یا پارٹی میٹنگز میں بیٹھی دکھائی دیتی ہیں ۔ مگر یہ ایسا ہی ہے جیسے بینظیر بھٹو اپنے والد ذولفقار علی بھٹو ، کے ہمراہ ہوا کرتی تھیں۔ خود بی بی اپنی خود نوشت (daughter of the east) میں ایسے کئی واقعات تفصیلاً بیان کر چکیں۔اسی طرح زرداری صاحب کی بیٹیاں بھی اکثر و بیشترپارٹی میٹنگز میں شامل ہوتی ہیں۔ دھرنے کے ہنگام، عمران خان کے دونوں بیٹے بھی پورے پروٹوکول کیساتھ، کنٹینر پر سوارہوا کرتے تھے۔ بہتر ہوتا اگر شریف خاندان کی غیر سیاسی خواتین کو اس احتسابی عمل(جو قانونی سے زیادہ سیاسی بن چکاہے) سے دور رکھا جاتا۔ مریم نواز سے پوچھ گچھ یا تحقیقات درکار تھیں، تو انکے شوہر کیپٹن(ر) صفدر سے معلومات لے لی جاتیں۔ ایسا ممکن نہیں تھا تو مریم نواز کا تحریری موقف طلب کیا جا سکتا تھا۔ اس سے بھی تسلی نہیں ہوتی تھی تو ایوان و زیر اعظم جا کر انکا بیان ریکارڈ کر لیا جاتا۔ اگر ایسا کرنا بھی جے آئی ٹی کی "ساکھ " اور" انصاف" کے تقاضوںکے منافی تھا تو اچھا ہوتا کہ مریم نواز کو کیپٹن(ر) صفدر کیساتھ طلب کیا جاتا۔ مگر جے آئی ٹی ان میں سے کوئی آپشن زیرغور نہ لائی۔
اس سمن کو دیکھ کر مجھے ایس ایم ظفر کی کتاب" میرے مشہور مقدمات" یاد آگئی۔ کتاب میں وہ پچاس کی دہائی میں اپنی وکالت کے ابتدائی ایام کا ذکر کرتے ہیں۔ جب وہ ایک جونیئر وکیل تھے ۔ انکے سینئر وکیل کے پاس ملکہ ترنم نور جہاں کا کیس آیا۔ کسی خاتون نے مقدمہ کیا تھا کہ نور جہاں نے اسکے ساتھ مار پیٹ کی ہے۔ ایس ایم ظفربے حد خوش تھے کہ وہ اس زمانے کی مشہور و معروف اداکارہ اور گلوکارہ کو دیکھ سکیں گے۔ انکے سینئر وکیل سردار محمد اقبال نے ضابطہ فوجداری کی دفعہ 205 کے تحت نور جہاں کو " پردہ نشین" خاتون ثابت کرتے ہوئے، عدالت کے روبرو حاضری سے استثنیٰ دلوا دیا۔ یوں مقدمے کے اختتام تک، ایس ایم ظفر نور جہاں سے ملاقات کیے بغیر عدالت میں انکی نمائندگی کرتے رہے۔ یعنی ایک گلیمرس فلمی اداکارہ کو تو مقدمے میں حاضری سے استثنیٰ مل سکتا ہے، مگر شریف خاندان جیسے مذہبی اور روایتی خاندان سے تعلق رکھنے والی مریم نوا ز کو حاضری سے استثنیٰ نہیں ۔ اسی پر اکتفا نہیں جے آئی ٹی بیگم کلثوم نواز کو بھی اپنے حضور طلب کرنے پر غور و خوض کر رہی ہے۔ یہ صورتحال نہایت افسوسناک ہے۔
اس معاملے پر کچھ لوگ بے نظیر بھٹو کا حوالہ دیتے ہیں۔ اول تو بے نظیر بھٹو کیساتھ جو کچھ ہوا وہ ایک فوجی ڈکٹیٹر کا زمانہ تھا ۔ آمرانہ دور حکومت کا جمہوری دور حکومت سے کوئی تقابل نہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ بے نظیر بھٹونے ، نواز شریف کے دور حکومت میںسیاسی مقدمات اور پیشیاں بھگتیں۔ بات یہ ہے کہ مریم نواز کے قطعی بر عکس ، بے نظیر خالصتا ایک سیاسی شخصیت تھیں۔ یوں بھی نوے کی دہائی میں انتقامی سیاست اپنے عروج پر تھی۔ خود بینظیر بھٹو کے دور حکومت میں ، میاں نواز شریف کے والد میا ں محمد شریف کو (جنکا سیاست سے کوئی واسطہ نہ تھا) ہتھکڑیاں لگا کر گرفتار کیا گیا، تھانے کچہریوںمیں گھسیٹا گیا۔ وہ کوئی قابل فخر روایات نہیں تھیں کہ انکا حوالہ دیا جائے، اعادہ کیا جائے یا وہ و اقعات اس بات کی سند ٹھہریں کہ آج جو کچھ ہو رہا ہے وہ قابل جواز ہے۔ ماضی کی بری روایات کو ماضی میں دفن ہو جانا چاہیے۔جہاں تک احتساب کا تعلق ہے تو صرف ایک خاندان کی طرف توپوں کا رخ موڑ دینا سراسر بے انصافی ہے۔ پاناما لیکس میں شامل ساڑھے چار سو افراد کس قانون کے تحت احتساب سے مبرا ہیں؟ وزیر اعظم جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے تو ہم نے خوشی کے شادیانے بجائے کہ حاکم وقت اپنے ماتحت اداروں کے ملازمین کے سامنے جواب دہ ہے۔ تضاد مگر یہ ہے کہ سنگین غداری کا مرتکب ایک آدمی ہر طرح کے آئین و قانون سے ماورا گھومتا پھرتا ہے۔ ادھرہم نے قطری شہزادے سے حاصل ہونے والی رقم کی تفتیش پر طوفان بپا کر رکھا ہے۔دوسری طرف جنرل مشرف کھلے عام کہہ چکے کہ سعودی حکمرانوں نے اربوں ڈالر انکے ذاتی اکائونٹ میں منتقل کیے۔ اس معاملے پر ہمیں انکوائری کی جرات کیوں نہیں ہوتی؟ ۔
صاف نظر آتا ہے کہ اس سارے قضیے کا منتہائے مقصود وزیر اعظم نواز شریف کو حکومت سے بے دخل کر نا ہے۔ کوئی مانے یا نہ مانے سچ مگر یہی ہے کہ حکومت سے محروم ہو کر بھی نواز شریف کے سیاسی قد کاٹھ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ نواز شریف کی طاقت اور مقبولیت کسی وزارت عظمیٰ کی محتاج نہیں ہے۔کسی بے ساکھ اور جانبدار جے آئی ٹی کے ذریعے نوازشریف کو بے اختیار یا سیاسی طور پر بے وزن نہیں کیا جا سکتا۔ بالکل ایسے ہی جیسے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے چالیس سال بعد بھی ختم نہیں کیا جا سکا۔ سب سے بڑھ کر تشویش کی بات یہ کہ اس سیاسی کھیل میں ہمارے اداروں کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ واٹس ایپ کالز ، جے آئی ٹی میں مخصوص افراد کی شمولیت ،جناتی قسم کی میڈیاما نیٹرنگ جیسے متنازع معاملات تحقیقات کے متقاضی ہیں۔ مزید مذاق یہ ہے کہ اب رحمان ملک جیسے لوگوں کی گواہی کو معتبر سمجھا جا رہا ہے ۔ پھر جنرل (ر) امجد کوشہادت کے لئے طلب کیا جا رہا ہے، جنکی مبینہ ناجائز زمینوں کی الاٹمنٹ پر جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد سراپا احتجاج رہے۔ امید ہے کہ ایسے شخص کی گواہی پر جماعت اسلامی ضرور اعتراض کرے گی۔

تازہ ترین