• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اتفاق سے آج کل لندن میں ہوں۔ جہاں کچھ دن پہلے کرکٹ چیمپئنز ٹرافی کا فائنل پاکستان اور بھارت کے درمیان کھیلا گیا ہے ۔ اس فائنل کی ٹکٹیں بلیک میں بکتی رہیں اور اتنے اونچے ریٹس پر کہ جس کا تصّور بھی نہیں کیا جا سکتا ۔ یعنی 50اور 100پونڈ والی ٹکٹیں ہزار پونڈ سے بھی تجاوز کر گئیں۔ یوں تو کرکٹ کو روایتی طور پر جنٹل مینز (Gentlmen's)اسپورٹس قرار دیا جاتا ہے یعنی شریف لوگوں کا کھیل ۔ لیکن جب یہ کھیل پاکستان اور بھارت کے درمیان ہوتا ہے تو نہ یہ کھیل رہتا ہے اور نہ ہی اس میں شرافت رہتی ہے۔ بلکہ ایک جنگ کی صورت اختیار کر لیتا ہے جس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ جنگ اور محبت میں ہر حربہ جائز ہے۔ لیکن آج کی مہذب دنیا میں ’’جنگ ‘‘ کو بھی شتر بے مہار کی طرح چھوڑنااور کسی ضابطے یا قاعدے سے بے نیاز کر دینے کی حمایت نہیں کی جاتی اور اسے قواعد و ضوابط کا پابند بنانے پر زور دیا جاتا ہے لیکن ہمارے برّصغیر کے یہ دو ممالک شاید مہذّب دنیا کے کسی قانون اور قاعدے کے پابند نہیں۔ کیونکہ پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والے ہر کرکٹ میچ میں دونوں اطراف سے جو زبان بولی جاتی ہے اور جو رویّے روا رکھے جاتے ہیں،انہیں کسی طرح بھی’’ مہذّب رویے‘‘ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یوں تو کرکٹ میں آسٹریلیا اور انگلینڈ بھی روایتی حریف ہیں۔ جن کے درمیان Ashesکے تحت کرکٹ کے مقابلے ایک صدی سے بھی زیادہ عرصے سے جاری ہیں۔ اسی طرح لا طینی امریکہ کے ممالک برازیل اور ارجنٹائن اور یورپ کے جرمنی ، اٹلی اور فرانس بھی فٹ بال کے کھیل میں روایتی حریف ہیں۔ وہ اپنی اپنی ٹیموں کی حوصلہ افزائی بھی کرتے ہیں۔ لیکن وہ کھیل کے جنون کو دشمنی میں تبدیل نہیں کرتے۔
کھیل کا بنیادی مقصد ہی دشمنی کو ختم کرنا اور دوستی کو فروغ دینا ہوتا ہے۔ کیونکہ کھیل جیت کی خوشی کو عاجزی کے ساتھ منانا اور شکست کو خوشدلی اور وقار کے ساتھ قبول کرنا سکھاتا ہے۔ لیکن ہمارے دونوں ملکوں کے عوام کے ’’ خوفناک جارحانہ ‘‘ رویئے جہاںکھیل کی ’’ اسپرٹ ‘‘ کے خلاف ہیں وہیں اس تلخ حقیقت کے غماّز بھی ہیںکہ گزشتہ 70سال کے دوران دونوں طرف کے مذہبی جنونی انتہا پسند سیاسی لیڈروں اور میڈیا کے غیر ذمہ دار افراد نے ’’ نفرت‘‘ کی جو فصل بوئی تھی وہ اب تیسری نسل کو بھی کاٹنا پڑ رہی ہے کھیل میں کوئی جیتتا ہے اور کوئی ہارتا ہے لیکن یہاں جیتنے والے کا جشن ِ فتح بھی ’’ کہرام‘‘ کی طرح ہوتاہے جبکہ ہارنے والے کا رویہّ بھی ’’ خود انتقامی ‘‘ سے کم نہیں ہوتا۔ جیتنے والے ہوائی فائرنگ سے بیشمار ہم وطنوں کو زخمی یا ہلاک کر دیتے ہیں تو دوسری طرف ہارنے والے بھی ٹی وی سمیت اپنے قیمتی سامان کی توڑ پھوڑ شروع کر دیتے ہیں ۔ اور منظر یوں بنتا ہے کہ
خوش تو بہت ہوئے ہو مجھ کو ہرا کے تم
جشن ِ فتح منائو گے کہرام کی طرح
گویا ہماری خوشی اور غم منانے کاایک ہی نتیجہ نکلتا ہے اور وہ ہے ’’ تباہی ‘‘ توڑ پھوڑ اور گالی گلوچ۔ انڈیا کے مذہبی جنونی اور تنگ نظر سیاسی لیڈروں نے کم ظرف اینکر پرسنز کے ساتھ مل کر پاکستان کی کرکٹ ٹیم کی لگا تار شکست پر جو تضحیک آمیز رویہّ اختیار کیا ہوا تھا۔ اس کا بہترین جواب پاکستانی ٹیم نے اپنے شاندار کھیل کے ذریعے انڈیا کو شکست ِ فاش دے کر بخوبی دے دیا تھا۔ اگر ہمارے مخصوص حلقوں کی جانب سے اسی طرح کی کم ظرفی کا مظاہرہ نہ کیا جاتا جو انڈیا کی طرف سے کیا جاتارہا ہے تو یہ انڈیا کے لئے زیادہ ’’ شرمناک‘‘ ہوتا۔ کیونکہ طعنوں اور بدزبانی سے بدلہ لینے کی بجائے بہتر روئیے کا مظاہرہ حریف کے اوپر آپ کی اخلاقی برتری کا ثبوت ہوتا ہے۔ کیونکہ اپنے حریف کو کھیل میں شکست دے کر آپ نے اپنی شکست کا بدلہ تو لے ہی لیا ہوتا ہے ۔۔۔ لیکن اخلاقی برتری کا موقع ضائع کر کے ایک ’’اضافی فتح ‘‘ سے محروم ہو جاتے ہیں۔
اوول کے میدان میں جب پاکستانی ٹیم نے بھارت کی بظاہر نہایت مضبوط ٹیم کو واضح شکست سے دوچار کر دیا جس سے وہ چند دن پہلے ہار چکی تھی تو کچھ اچھے مناظر بھی دیکھنے کو ملے ۔ جب بھارت کی ٹیم کے کپتان ویرات کوہلی نے کُھلے دل سے شکست تسلیم کی اور پاکستانی ٹیم کے کھیل کو سراہا ۔ اسی طرح دھونی نے اظہر علی کے بچوں کو اٹھا کر تصویر یں بنائیں اور اظہر علی نے دھونی اور کوہلی کو لیجنڈ کھلاڑی قرار دیا۔ اسی طرح اوول کے میدان میں بھی جہاں بھارتی شائقین کی تعداد زیادہ تھی ۔ کوئی نا شگوار واقعہ دیکھنے میں نہیں آیا بلکہ میچ کے بعد لندن میں رات گئے تک مختلف ٹیوب اسٹیشنوں پر پاکستانی اور بھارتی مل کر فائنل کی فتح کا جشن مناتے اور ایک دوسرے کو مبارک بادیں دیتے رہے ۔ لیکن ان تمام حوصلہ افزا مناظر کو بھارت اور پاکستان میں ہونے والے ناشگوار واقعات نے گہنا کر رکھ دیا ۔ سوشل میڈیا پر دونوں طرف سے ایسی پوسٹیں دیکھنے میں آئیں جو ناقابل ِ بیان اور شرمناک ہیں۔ جو لوگ بھی مذہب اور حب الوطنی کے نام پر ایسی ’’ غیر اخلاقی ‘‘ حرکات کے مرتکب ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اپنے مذہب اور ملک کی کوئی خدمت نہیں کی بلکہ اسے خود ہی تضحیک کا نشانہ بنایا ہے۔ دونوں ممالک کے ذمہ دار ارباب اقتدار سیاسی لیڈروں اور دانشوروں کو اس موقع پر مل کر ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ اس ’’نفرت‘‘ کا سدّ ِ باب کیا جاسکے کیونکہ نفرت دشمن سے پہلے خود کو نشانہ بناتی ہے۔

تازہ ترین