• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لاجواب لوگ ہیں جو بات کرنے سے پہلے سوچتے بھی نہیں کہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ایک ن لیگئے نابغے کا یہ بیان اسحاق ڈار کے اعترافی بیان سے کم نہیں کہ..... ’’جے آئی ٹی فیصلہ پاپولر نہیں درست ہونا چاہئے‘‘ یعنی ’’فیصلہ‘‘ ان کے خلاف آیا تو وہ پاپولر یقیناً ہوگا، اسے عوامی پذیرائی تو بہت ملے گی لیکن وہ درست نہیں ہوگا‘‘ اسے کہتے ہیں اپنے پائوں پر کلہاڑی یا کلہاڑی پر پائوں مارنا۔ جینوئن احتساب نے ان کے اعصاب کو اس بری طرح متاثر کیا ہے کہ یہ خود اپنی غیرمقبولیت کااعتراف کررہےہیں اور انہیں یہ سادہ سی بات بھی سمجھ نہیں آرہی کہ ’’فیصلہ‘‘ جے آئی ٹی نے ہرگز نہیں کرنا کہ اس کا کام انویسٹی گیشن تک محدود ہے اور انہوں نے صرف فیکٹ شیٹ عدالت کے سامنے رکھنی ہے۔حقیقت یہ کہ ’’پاپولر‘‘ اور ’’درست‘‘ والی بحث ہی بودی اور بیکار ہے کیونکہ جس کے بارے میں فیصلہ ہوگا وہ کوئی پٹواری نہیں، ہماری بدقسمتی سے تیسری بار کا پرائم منسٹر ہے اور فیصلہ پر پوری دنیا کی نظریں ہوں گی۔ اس لئے خاطر جمع رکھیں کہ فیصلہ حق میں آئے یا خلاف، فول پروف اور ناقابل تردید ترین دلائل، شواہد اور ثبوتوں سے لیس ہوگا۔ نواز شریف تمام تر تضادات اور بری طرح مجروح ساکھ کے باوجود ملک کے مقبول سیاستدانوں میں سے ایک ہیں، سو باوقار طریقے سے اس تاریخی فیصلہ کا انتظار کرنا ہی مثبت اورمیچور رویہ ہوگا۔ ہر فریق کو اسے قبول کرنا ہی بہتر ہوگا کہ مزاحمت ممکن نہ ہوگی اور اگر کسی ایک فریق نے ایسی حماقت کا ارتکاب کیا تو اس کی قیمت چکانا مشکل ہوگا۔ یہ نہ ان میں سے کسی کے لئے بہتر ہوگا، نہ ملک کے لئے نہ اس منحوس نام نہادجعلی جمہوریت کے لئے جسے میں تو جمہوریت ہی نہیں سمجھتا لیکن ان لوگوں کو یہ پچھل پیری ڈائن بہرحال بہت پیاری ہے۔زیادہ امکان اس بات کا ہے کہ یہ مشورہ ن لیگ کے ہاضمہ پر بہت گراں گزرے گا۔ اول یہ کہ ان لوگوں کا ریکارڈ ہی ایساہے اوربقول شخصے ن لیگی قیادت ’’چلتی پھرتی ٹکر‘‘ ہے۔ دوسرے یہ خبر بھی خاصی عام ہے کہ وزیراعظم کی زیرصدارت اجلاس میں ن لیگ نے پاناما کیس پر ’’عوام کی عدالت‘‘ میں جانے کا خودکش فیصلہ کرلیا ہے۔ وزرا کو جلسوں کا ٹاسک دے دیا گیا ہے۔ نتیجہ نوشتہ ٔ دیوار ہے لیکن کیا کریں کہ پرانے سیانے سو فیصد صحیح کہا کرتے تھے کہ اللہ اوپر سے ڈانگ نہیں مارتا، صرف بندوں کی مت مارتا ہے جو انہیں منطقی انجام تک پہنچانے کے لئے کافی ہوتی ہے۔ن لیگ جانےاور ان کی نوحہ گری لیکن ملک بھر میں جو صف ِ ماتم ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتل کی رہائی اور کتاب پر بچھی ہے، وہ میری عقل میں کسی طرح بھی فٹ نہیں بیٹھ رہی۔ ریمنڈ ڈیوس باعزت طور پر واپس نہ جاتا تو کیا خیال ہے آپ کا اس کمزور ملک کی طاقتور اشرافیہ اسے پھانسی چڑھا دیتی؟ ایسا سوچنا بھی قیامت کی حماقت ہے۔کون ہے جو اقبالؒ کا یہ مصرع پڑھے بغیر جوان ہوا ہو کہ ’’ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات‘‘ لیکن مصرعے پڑھنا اورسمجھنا دو مختلف باتیں ہیں۔ سمجھنےکے لئے ریمنڈ ڈیوس کے ایک آدھے ہم نام گورے ریمنڈ ہیکر کی وہ کتاب بھی پڑھ لیں جس میںاس نے پاکستان کی مقبول ترین سیاسی جمہوری قیادتوں کے بارے میں خاصی تفصیل سے لکھا ہے کہ یہ لوگ کتنی بے حیائی اور ڈھٹائی کے ساتھ پنے ملک کو نوچ نوچ کر کھوکھلاکرتے ہیں ۔سو کھوکھلا بیچارہ، توانا ترین کے سامنے کیا کرے؟ کہ یہی انسانی تاریخ کالافانی سبق ہے۔ عزت، آبرو، غیرت وغیرہ کا بہت شور بھی ہے اورشوق بھی تو یہ شوق ضرور پورا کریں لیکن..... ’’پہلے اپنے پیکر خاکی و خالی میںجاں پیدا کریں‘‘ اور یہ کام آسان نہیں بہت مشکل ہے اور اس منزل کے حصول والے سفر میں کوئی شارٹ کٹ بھی نہیں۔ ریمنڈ ڈیوس تو وہ سانپ تھا جو کب کا نکل چکا، لکیر پیٹتے پیٹتے تھک جائیں تو کچھ دیر سستانے کے بعد تازہ دم ہو کر اس ’’نوید ِ مسرت‘‘ کا انتظار فرمائیں کہ اُسامہ بن لادن فیم شکیل آفریدی بھی نکل گیا۔ ہمارے کرتوتوں نےہمارے مقدروں میں عافیہ صدیقی کے لئے سینہ کوبی لکھی ہے۔ کس کس’’محمد بن قاسم‘‘ نے عافیہ صدیقی پر قلم زنی نہیں کی؟’’میں ہنس دیا اورچپ رہا مقصود تھا پردہ ترا‘‘ معاشرے جب عجب خان آفریدی کی جگہ شکیل آفریدی پیداکرنے لگیں تو یہی کچھ ہوتاہے سو ’’ہونے دو، رونے دو‘‘ کی ’’حکمت ِ عملی‘‘ ہی بہترین ہے "Relex and Enjoy"والی مجبوری ہے۔جن کا ’’داخلہ‘‘ نہیں ہوتا، ان کا ’’خارجہ‘‘ بھی نہیں ہوتا اور غیرت کی حفاظت کے لئے متحد اور منظم ہو کرجان توڑ محنت سے ناقابل شکست فصیل اٹھانی پڑتی ہے۔ ’’ساورنٹی‘‘ کوئی چیونگم یا چاکلیٹ ہے کہ کینڈی شاپ سے مل جائے گی؟

تازہ ترین