• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قصباتی بچوں کی دنیا بہت مختصر سی ہوتی ہے لیکن اس کے رنگ بہت گہرے ہوتے ہیں۔ کتاب کی دنیا کا ابتدائی ہیولہ پرائمری اسکول میں رکھی ایک الماری سے وابستہ ہے جس تک رسائی بہت مشکل تھی۔ اس میں ایک کتاب برف پوش سائبیریا میں رہنے والے اسکیمو بچوں کے بارے میں تھی۔ سعید لخت کی کہانیوں کا ایک مجموعہ تھا۔ زبان ایسی سادہ کہ آج بھی آنکھیں بند کر لوں تو برما کے جنگلوں میں لکڑی کے بھاری بھر کم لٹھے ڈھوتے ہاتھی اور بے رحم مہاوت دیکھ سکتا ہوں۔ نامعلوم کیسے اس الماری میں لیل و نہار کا جنگ آزادی نمبر بھی رکھا تھا۔ ظاہر ہے کئی برس قبل کسی استاد یا طالب علم نے لا کر رکھ دیا ہو گا۔ ہمیں کیا خبر تھی کہ لیل و نہار کس بلا کا نام ہے، سید سبط حسن کون ہیں؟ یہ تو گردش لیل و نہار سے واسطہ پڑا تو کھیڑا صاحب بہادر کی جے، نانا صاحب پیشوا، میرٹھ کا پادری، کلکتہ کا بلیک ہول، جھانسی کی رانی، تانتیا ٹوپے اور جنرل بخت خان جیسے اجنبی لفظوں میں چھپے جادو سے آشنائی ہوئی۔ کل ملا کے ہمارے مطالعے کی یہی دنیا تھی۔ سات آٹھ برس کے بچے پر ایسی وطن دوست تحریروں کا اثر ہونا لازم تھا۔ بہت بعد میں جب لاہور کے دانشوروں کو اس نکتے پر سر پھٹول کرتے دیکھا کہ 1857 جنگ آزادی تھی یا بغاوت یا محض غدر، تو باقاعدہ صدمہ ہوا۔ فرحت اللہ بیگ کی تحریروں میں ڈپٹی نذیر کی زبانی اس ہنگامے کی حقیقت پسندانہ تصویر کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی۔ ہم نے تو سنہ ستاون کو غالب کے خطوط میں پڑھا تھا جیسے کوئی بزرگ گھر پر ٹوٹنے والی افتاد کو بیان کرتا ہے۔ دہلی کا مسمار ہونا، محمد حسین آزاد کا دیوان ذوق سر پر اٹھا کر نکلنا، ایک تہذیب کا اجڑنا۔ اپنے جذبوں کی معصومیت یاد آتی ہے تو مجھے نوجوان سیاسی کارکنوں پر پیار آنے لگتا ہے۔ فاختہ کے ہونکتے ہوئے سینے جیسی گرم جوشی سے لبریز آرزو مند نسلوں کو کیسے معلوم ہو کہ تاریخ، سیاست اور معیشت کے دیوتا سنگین ہی نہیں، سنگ دل بھی ہوتے ہیں۔ فیض صاحب نے بھی تو کچھ ایسی ہی کیفیت بیان کی تھی۔ دو ہاتھ لگے اور بیڑی پورم پار ہوئی۔ بس بیچ میں حکیم الٰہی بخش نہ ہوتا تو جنگ آزادی ہم نے جیت لی ہوتی۔ میر صادق نہ ہوتا تو ٹیپو سلطان شہید نہ ہوتے، میر جعفر نہ ہوتا تو کسی کی مجال تھی کہ سراج الدولہ سے بنگال چھین سکے۔ تمہید طولانی ہو گئی مگر یہ تو بتایا ہی نہیں کہ جنگ آزادی کا ذکر کدھر سے چلا آیا۔ ٹھیک 160 برس پہلے جولائی 1857 کے پہلے ہفتے میں دہلی کا محاصرہ شروع ہوا تھا۔ جو 21 ستمبر 1857 تک چلا۔ ٹھیک 120 برس بعد 5 جولائی 1977 کو پاکستان کی پہلی منتخب حکومت ختم کر دی گئی تھی۔ یہ محاصرہ گیارہ برس تک جاری رہا۔ ٹھہریئے، کیا یہ محاصرہ واقعی ختم ہو گیا؟ اور یہ بھی کہ کیا ہم نے 1947ء میں آزادی کی لڑائی جیت لی تھی۔ جولائی کے یہ حبس آلود ابتدائی دن ہر برس لوٹتے ہیں تو فیض صاحب کی داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر کی پیش بینی یاد آتی ہے۔ مگر فیض سے بہت پہلے مرزا دبیر گزرے ہیں۔ لکھتے کیا تھے، دلوں کے قتلے کرتے تھے۔
کبوتر غرق خوں دیوار صغرا پہ جو آ بیٹھا
پکاری ان دنوں لوگو مرے بابا وطن میں تھے
1857 کا ہندوستان ان گنت مقامی رجواڑوں، ریاستوں اور جنگجو گروہوں کی آماجگاہ تھا۔ 1857 کی لڑائی میں حب وطن کے رنگ تو دادا بھائی نورو جی اور کرشن گوپال گوکھلے سے حریت کا سبق پڑھنے والوں نے شامل کئے۔ تانتیا ٹوپے کا اعترافی بیان پڑھ لیجئے۔ بہادر شاہ ظفر کا بیان صفائی تاریخ کا حصہ ہے۔ یہ آزادی کی لڑائی تھوڑا تھی، دو وقت مل رہے تھے، ایک دور کی آخری رسومات ادا کی جا رہی تھیں، ایک نئے عہد کا آغاز تھا۔ آزادی کا مطالبہ تو ہم نے 31دسمبر 1929کی شام دریائے راوی کے دائیں کنارے پر کیا تھا۔ ٹھیک دس برس بعد دریائے راوی کے بائیں کنارے پر مسلم لیگ نے ہندوستان کی تقسیم اور آزادی کا مطالبہ کیا۔ لارڈ لنلتھگو ہندوستان کے لئے نئے دستور کا مطالبہ تسلیم کر چکا تھا، آزادی کا اصول مانا جا چکا تھا۔ سوال صرف یہ تھا کہ آزادی متحدہ ہندوستان کو ملے گی یا اسے تقسیم کیا جائے گا۔ 22 جنوری 1947 کو ہندوستان کی دستور ساز اسمبلی نے قرار داد مقاصد منظور کر لی۔ ہندوستان کے عوام کو اپنے دیس کا مالک اور حاکم اعلیٰ تسلیم کر لیا گیا۔ مسلم لیگ کے 73ارکان دستوریہ نے بائیکاٹ کر رکھا تھا۔ قائد اعظم کے انتقال کے ٹھیک چھ ماہ بعد پاکستان کی دستور ساز اسمبلی نے بھی قرار داد مقاصد منظور کی۔ صرف ایک نکتے کا فرق تھا۔ حاکمیت اعلیٰ اللہ تعالیٰ کو سونپ دی گئی۔ خدائے بزرگ و برتر کی قدرت اور طاقت سے انکار مقصود نہیں۔ نکتہ اختلاف یہ تھا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ تو کل کائنات کا مالک ہے، مغربی اور مشرقی پاکستان کے دو مختصر قطعہ ہائے ارضی کے فانی باشندے حاکمیت کے معاملات خدائے لم یزل کے حضور کیسے پیش کریں گے۔ قرار داد مقاصد میں حاکمیت اعلیٰ کا تصور خدا سے منسوب کر کے دراصل عوام کو حق حکمرانی سے محروم کیا جا رہا تھا۔ اگر کسی نے خدا کے نام پر آمریت قائم کر لی تو اس کا ہاتھ کون پکڑ سکے گا؟ اگر کسی نے بندوق اٹھا کر نیابت الٰہی کا دعویٰ کر دیا تو کس آئین اور قانون کی مدد سے جمہور کے حق حکمرانی کا مطالبہ کیا جا سکے گا۔ مذہبی عقائد پر بحث نہیں کرنی چاہئے۔ مذہبی آزادی کا مفہوم ہی ہر شہری کے حق عقیدہ کا غیر مشروط احترام ہے۔ تاہم غور فرمائیے کہ سیاسی بندوبست تو وسائل کی تقسیم سے تعلق رکھتا ہے۔ اس میں تو اختیارات کا ٹھیک ٹھیک تعین کرنا پڑتا ہے، دریائی پانی، بندرگاہ، معدنیات اور محصولات پر استحقاق کے پیچیدہ معاملات درپیش ہوتے ہیں۔ حقوق اور احتساب کی متعین حد بندی ہوتی ہے۔ یہ معاملات اس سادہ لوح ذہن کے سپرد نہیں کئے جا سکتے جو عشرہ در عشرہ رویت ہلال جیسے سادہ معاملے پر بھی اتفاق رائے قائم نہیں کر سکتا۔ ایک آزاد مملکت میں شہریوں کے حقوق معروضی پیمانوں کا تقاضا کرتے ہیں۔ کسی فرد واحد یا چنیدہ گروہ کے اخلاص پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ اسی بنیادی لغزش نے ون یونٹ تشکیل دے کر مغربی پاکستان کی اکائیوں کی نفی کی اور مشرقی پاکستان کو برگشتہ کیا۔ اس ابہام سے ہمارے اداروں کا وقار مجروح ہوا۔ صحافت، عدالت، سیاست اور انتظامیہ کا کونسا شعبہ ہے جس کا قرطاس عمل داغدار نہیں ہوا۔ یہ جو ہم آنکھیں بند کر کے ایک دوسرے پر کرپشن، نااہلی اور غداری کے الزامات عائد کرتے ہیں، اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم نے کاروبار مملکت کے معروضی پیمانے طے کرنے کی بجائے موضوعی مفروضے گھڑ لئے۔ جو قومیں زمینی حقائق کو نظر انداز کر کے مثالیت پسندی کی پہاڑیوں پر جا بیٹھتی ہیں، ان کی وادیوں میں مستقل کٹاؤ، سیم اور تھور کے بحران جنم لیتے ہیں۔ ہمارے ایک شہید وزیر اعظم نے ’’آزادی موہوم‘‘کے نام سے ایک کتاب لکھی تھی۔ اگر آپ کو یورپ کے شہر پراگ جانے کا موقع ملے تو وہاں "فرد کی گمشدگی" نامی مجسمہ ضرور دیکھئے گا۔ آزادی، مساوات اور حقوق مستقل محاصرے میں رہیں تو انسان ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو کر معدوم ہونے لگتا ہے۔ آزادی کے زیاں کا احساس جاتا رہتا ہے۔ کرپشن کا شکوہ اور تشدد کی خواہش باقی رہ جاتی ہے۔ عرض ہے کہ جولائی کے یہی دن تھے جب دہلی کا محاصرہ شروع ہوا اور جنرل ضیاءالحق نے نوے روز میں انتخابات کا وعدہ کیا تھا۔

تازہ ترین