• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دھویں کے پردے میں معاملات کو طے کرنے سے ما سوائے چیزوں کو مشتبہ ہونے کے اور کچھ حاصل نہیں ہوتا اور بعض اوقات چالبازی سے چالباز کی حقیقت عیاں ہونا مقدر ہوتا ہے۔ ایک گائوں میں ایک دیہاتی شکل و شباہت کا بوڑھا ڈاکٹر کے پاس گیا جب ڈاکٹر نے معائنہ کر لیا تو 2 گولیاں دی۔ اور کہا کہ ان کو صبح و شام کھا لینا۔ بوڑھے نے پوچھا کہ گولی پانی سے کھانی ہے کہ دودھ سے ڈاکٹر نے جواب دیا کہ دودھ سے بوڑھے نے پھر استفسار کیا کہ دودھ گائے کا ہو یا بھینس کا ڈاکٹر بولا دونوں میں سے جس کابھی ہو بوڑھا بولا جب جانور علیحدہ ہو ان کے دودھ کی تاثیر بھی علیحدہ ڈاکٹر جھنجلا گیا بولا بھینس کے دودھ سے پی لو بوڑھا بولا پر میرے پاس تو نہ گائے ہے نہ بھینس میرے پاس تو بکری ہے کیا اس کا دودھ نہیں چلے گا ڈاکٹر بولا بابا جی پی لو پی لو پی لو بابا نے مزید پوچھا کہ دودھ گرم ہو کہ ٹھنڈا اب تک ڈاکٹر کا دماغ گرم ہو چکا تھا غصے سے بولا گنگنا ہو بابا نے اگلا سوال جڑ دیا تانبے کے برتن میں پیوں یا مٹی کے ڈاکٹر نے کہا بابا جی مجھ کو اور بھی مریض دیکھنے ہیں آپ کو اور کوئی کام نہیں دیہاتی نے لجاجت سے کہا ڈاکٹر غصے مت ہو جب تک دوائی کا نہ پوچھ لوں تو درست استعمال کیسے کرونگا ڈاکٹر جو تنگ آ چکا تھا بولا اچھا مٹی کے برتن میں پی لو بوڑھے نے جھٹ سے اگلا سوال داغ دیا میرے ہاتھ میں درد رہتا ہے کیا منے کی ماں کے ہاتھ سے پی لوں ڈاکٹر نے گھورتے ہوئے بابا جی پی لو کچھ نہیں ہوتا بوڑھا اٹھا تو ڈاکٹر کے چہرے پر اطمینان پھیلنے لگا مگر دیہاتی کچھ قدم کے بعد دوبارہ ٹھہر گیا ڈاکٹر سے پھر مخاطب ہوا ڈاکٹر گھر پیدل جائوں یا رکشہ میں ڈاکٹر نے سر پکڑ لیا بولا تم بوڑھے آدمی ہو پیدل تھک جائوگے رکشہ پر چلے جائو دیہاتی بزرگ نے جیسے ہی ڈاکٹر کے کمرے سے باہر قدم نکالا ڈاکٹر نے خود کو پر سکون انداز میں کرسی پر ڈھیر کر دیا کہ بلا ٹلی مگر کوئی آدھے گھنٹے بعد دیہاتی دوبارہ آ دھمکا ڈاکٹر کی بھنویں تن گئیں بوڑھا بولا ڈاکٹر تم نے سارا وقت ضائع کیا یہ تو بتایا ہی نہیں کہ کونسی گولی صبح کھانی ہے اور کونسی شام کو کھانی ہے ڈاکٹر نے ایک گولی کی جانب اشارہ کرکے کہا کہ یہ صبح کو کھا لو اور دوسری شام کو بوڑھا بولا وہ تو ٹھیک ہے پر تمہاری غلطی سے مجھے دوبارہ رکشے میں آنا پڑا کرایہ دوبارہ ادا کرنا پڑا اس کا کیا پھر مجھے گولی کے ساتھ پرہیز بھی تو بتائو بوڑھا ابھی مزید سوال کرنا چاہتا تھا کہ ڈاکٹر نے اپنی میز کی دراز میں ہاتھ ڈالا اور زچ ہوتے ہوئے بولا بابا تمہارا علاج میرے بس کی بات نہیں یہ لو اپنی فیس واپس۔ پر صرف فیس کیوں واپس لوں رکشہ کا کرایہ بھی تو ادا کرو بوڑھا چیختے ہوئے بولا ڈاکٹر نے غصے سے رکشہ کا کرایہ بھی پھینک دیا بوڑھا جھکا اپنی فیس کی رقم اور رکشہ کا کرایہ زمین سے اٹھایا دروازہ کھولا اور مریضوں کی انتظار گاہ میں آ گیا وہاں ایک بڑی بی اٹھی اور مسکراتے ہوئے بولی آج کتنے کی دیہاڑی لگی ۔ میں تو یہاں بیٹھے بیٹھے سوکھ گئی بابا ہنسا اور بولا بیٹھی رہی تو کیا ہوا۔ اپنی فیس اور رکشہ کے نام پر پیسے بٹور لئے ہیں۔ آخر ڈاکٹر کو زچ بھی تو کرنا تھا۔ بس اسی لمحے بوڑھے کے کالر پر کسی کا ہاتھ دھرا تھا مڑ کے دیکھا تو ڈاکٹر کھڑا مسکرا رہا تھا۔ دھوکہ کہیں بھی دینا ہو بس زچ کرنا ہوتا ہے اب یہ دھوکہ دینے والے اور متاثرہ فریق کی مہارت کا کھیل ہوتا ہے کہ کون گول کرتا ہے اور کون دفاع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے نواز شریف اور ان کے احباب کے ساتھ جو سلوک روا رکھا جا رہا ہے وہ صاف طور پر وضاحت کر رہا ہے کہ نواز شریف کو زچ کرنے کی خاطر ہر حربہ بروئے کار لایا جا رہا ہے۔ 7 جنوری 2017 کو اس خاکسار نے انہی صفحات پر تحریر کیا تھا کہ " 2014کے دھرنے کے ہدایت کاروں نے یقین دلایا تھا کہ 17 اگست 2014 تک قانونی درخو است پر فیصلہ لے لیا جائیگا قانونی درخواست پر جن کو فیصلہ کرنا تھا وہ اس فریم میں موجود ہے یا نہیں اس کا علم کئے بنا " چند ماہ قبل تحریر کردہ کالم میں جو حقیقت بیان کی تھی اس میں واضح تھا کہ قانون کا قتل قانون کے نام پر کرنے کا پورا اسکرپٹ تیار تھا اب صرف دھرنے کو اسکرپٹ سے نکالا گیا ہے کیوں کہ ڈرامے کا یہ حصہ ناکام ہو چکا ہے۔ لہٰذا نئی بوتل میں پرانی شراب سے عوام کو مدہوش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تحقیقات کے نام پر جو رویہ اختیار کیا جا رہا ہے وہ واضح طور پر وضاحت کرتا ہے احتساب نہیں بلکہ ہر صورت میں مقبول قومی قیادت سے جان چھڑا کہ کٹھ پتلی قیادت کو مسلط کرنے کی سازش کی جا رہی ہے تا کہ صرف جمہوریت کا لیبل ہی رہنے دیا جائے اور عوام سے یہ حق چھین لیا جائے کہ وہ انتخابات کے تحت اپنی قیادت منتخب کریں اور انتخابات کے تحت ہی ان کا احتساب کریں ورنہ میں کسی سے ڈرتا ورتا نہیں فیم کی شخصیت کو عدالت سے بھاگتے بھاگتے بیرون ملک تک بھاگ جانے کی اور کسی بھی نوعیت کے احتساب سے مفرور رہنے کی طاقت نہیں تھی۔ دادا سے پوتے تک کے احتساب حالانکہ دادا کا کاروبار بھی وطن عزیز کے قیام سے قبل کا تھا ایسا احتساب صرف ایک ہی جانب اشارہ کرتا ہے کہ سازشیوں کو یہ غم کھائے جا رہا ہے کہ اگلے انتخابات تک معاملات اگر پہنچ گئے تو عوام کے ذہن میں یہ تصور پختہ ہو جائیگا کہ حکومت ایک نظام کے تحت قائم ہوتی ہے اور اسی کے تحت تبدیل کی جا سکتی ہے ایسے تصور کا پنپنا پاکستان میں جمہوریت کی مضبوطی اور غیر جمہوری عناصر کی کمزوری کا باعث ہو گا۔ اس وقت نوازشریف کے حامی بجا طور پر یہ محسوس کر رہے ہیں کہ نواز شریف کو زچ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اسی لئے ان کے حامی ان کے لئے مزید محبت کے احساسات محسوس کر رہے ہیں کیوں کہ منظر صاف ہوتا جا رہا ہے بوڑھا جتنی مرضی چالبازی کر لے عوام نے کالر پکڑ کر گریبان تک پہنچ ہی جانا ہے۔

تازہ ترین