• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مودی ٹرمپ ملاقات میںسید صلاح الدین کو دہشت گرد قرار دے کر ایٹمی مسلم ریاست پاکستان کو بھی دیوارکے ساتھ لگانے کا بگل بج چکا ہے۔ مغربی شیطانی طاقتیںایشیااوروسط ایشیائی ریاستوں کے وسائل پر عملی قبضے کیلئے مجوزہ گرینڈ گیم کوگریٹ گیم میں تبدیل کرچکی ہیںجس کے بعد اس شیطانی کھیل سے منسلک تمام خباثتوں اور سازشوں کی پرتیں کھل کر سامنے آتی جارہی ہیں۔افغانستان پر دودہائیوں تک جنگ مسلط کرنے کے بعدامریکی کیمپ کی مزاحمت کیلئے روسی کیمپ ایک بار پھر اس خطہ میںسر گرم عمل دکھائی دے رہا ہے۔امریکی کیمپ میں اسرائیل اور بھارت شامل ہیں جبکہ روسی کیمپ میں ایران ترکی اور قطر شامل ہیں۔ایک عظیم ترین خوفناک سازش کے تحت سعودی عرب نے قطر پر بوجوہ الزام عائد کیا تھا کہ وہ دہشت گردی کی حمایت کررہا ہے ۔حیران کن امر تو یہ بھی ہے کہ اس الزام کی حمایت ٹرمپ نے بھی کرڈالی تھی شاید وہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ قطرمشرق وسطیٰ کا وہ واحد عرب ملک ہے جہاں امریکہ کی سب سے بڑی ملٹری بیس موجود ہے۔5 جون کو جب سعودی عرب، عرب امارات، بحرین اور مصر نے قطر کے ساتھ سفارتی تعلقات توڑنے کا اعلان کیا تھا تو اس کے بعدخطے کی سیاسی صورتحال میں بھونچال پیدا ہوگیا تھا۔معاملات کو نمٹنانے کیلئے بہت سےممالک میدان میں آئےجس کے بعد قطر کو 13 نکاتی مطالبات کی فہرست بھی تھمائی گئی جسے غیر حقیقی قرار دیکر قطر نےمسترد کردیا۔سعودی عرب کا خیال تھا کہ وہ امریکہ کی مدد سے نہ صرف قطر بلکہ پور ے علاقے میںاپنا سکہ قائم کرلے گا اور یمن سے بھی جنگ کی سی صورتحال پرقابو پا لے گا لیکن اس کا خیال باطل ثابت ہوااور مجوزہ خارجہ پالیسی کے نتائج خواہشات کے برعکس ہی نکلے۔5 جون کو قطر کے بائیکاٹ کا اعلان ہوتا ہے تو اگلے روز ہی 6 جون کو ٹرمپ کا سعودی اقدام کی حمایت میں ٹویٹ پر قطر کو دہشت گردی کاا سپانسر قرار دینا کسی طے شدہ اسکرپٹ کا حصہ معلوم ہوتا ہے ۔ اس کے بعدحیران کن طور پر24 گھنٹے بعد ہی 7 جون کو ٹرمپ قطری امیرکو امریکہ بھی بلوا لیتے ہیں اور ون آن ون ملاقات میں اس کے مسائل کو حل کروانے کا یقین دلا تے ہیں جس میں پس منظر میں جزوی معاملات طے پاجاتے ہیں ۔بعد ازاں9 جون کو امریکی وزیر ریکس ٹلر سن نے سعودی وفد سے ملاقات کرکے قطر پر پابندیوں میں ڈھیل دی تاکہ خوراک کی کمی پر قابو پایا جائے اور داعش کے خلاف جنگ لڑی جاسکے۔اس تمام تر قضیے کے پس منظر میں14 جون کو امریکہ کا کردار اس وقت واضح ہوگیا جب امریکہ نے قطر کے ساتھ 12 ارب ڈالر معاہد ہ کر ڈالا جس کے تحت امریکہ قطر کو ایک درجن ایف 15 جیٹ طیاروں کی فروخت کر ے گا۔پولیٹکل سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کنفیوز ڈ امریکی پالیسی ہر گز نہیں ہے بلکہ طے شدہ ٹارگٹڈ منصوبہ سازی ہے جس کے تحت اس خطے سے جڑے امریکی معاشی مفادات سامنے آتے جارہے ہیں۔کون بھول سکتا ہے کہ ایران عراق طویل جنگ کس ملک نے کروائی تھی ؟ ایران عراق دونوں کو ہتھیار کن ممالک نے بیچے تھے ؟کس ملک نے اپنی خوبصورت ترین سفیر کے ذریعے عراقی صدر کو اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا ؟عراق نے کس ملک کی ایما پر کویت پر حملہ کیا تھا؟کیمیائی ہتھیاروں کا الزام لگا کر کس نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجائی تھی؟ عراقی صدام کو نشان عبرت کس نے بنایا تھا؟ان تمام سوالوں کے جواب اب نوشتہ دیوار بن چکے ہیں۔
حقیقی بیانیہ تو یہ ہے کہ عملی طور پر عراق، شام کی تباہی کے بعد مصر، تیونس، مراکش ،یمن اورلیبیا میں اپنے پنجے گاڑنے کے بعد امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ نےکمال مکاری سے پہلے سعودی عرب میںجاکرتمام سر کردہ عرب ممالک کا کپتان ہونے کے تاثر کو نہ صرف تقویت دی بلکہ سعودی عرب ودیگر عرب ریاستوں کو قطر کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا ہونے پر مجبور کیا ۔اس کا مقصد حقیقی تو یہ ہے کہ کسی طرح اسرائیل کو تسلیم کروایا اور علاقہ میں اس کی دھاک بٹھانے کی خاطر گریٹ گیم کے آخری ایکٹ پر عمل شروع کیا جائے ۔علاقے کی سب سے امیرمسلم طاقت سعودی عرب اور ایٹمی طاقت پاکستان دونوںامریکہ ، اسرائیل اور بھارت پر مشتمل تین ملکی شیطانی اتحادکے ریڈار پرآچکے ہیں۔
اس ضمن میں چاروں بڑے اسلامی ممالک پاکستان ، سعودی عرب، ترکی اور ایران کو ہمہ وقت ہوشیار رہنا پڑے گا۔مغربی طاقتوں بشمول اسرائیل کا ٹارگٹ ہے کہ کسی طرح ان ممالک کو آپس میں لڑا دیا جائے اور انکے وسائل پر قبضہ کر لیا جائے اور پاکستان کی ایٹمی طاقت اور حیثیت کو ختم کردیا جائے۔کویت اور اومان نے ایران ، ترکی اور روس کی کھلی حمایت کے بعدسعودی عرب کی حمایت کرنے سے انکار کر تے ہوئے قطر کا ساتھ دینے کا اعلان کیا ہے ۔سعودی عرب اور دیگر عرب ممالک کےتیرہ نکات کے استرداد کے بعد قطر ، ترکی اور ایران کے اتحاد کی سنجیدگی اور ٹھوس لائحہ عمل کےبعد ایک طرف سعودی حکومت بیک فٹ پر جاتی دکھائی دیتی ہے تو دوسری طرف امریکی مفادات کی بھی قلعی کھلتی دکھائی دے رہی ہے۔ماضی میںبھی مملکت خداداد پاکستان کے ایٹمی اثاثے مغربی قوتوں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے ہیں جنکی تباہی کیلئے کی گئی بفضل منصوبہ بندی ناکام ہو گئی تھی اورآج بھی دشمن ان پر قبضے کی خاطر سب کچھ کرنے کی تیاری میں مصروف ہیں۔
حالات اتنے سادہ نہیں ہیں کہ ہم ریت میں سر دبا کر اس سے محفوظ ہوجائیں۔دشمن کو شکست فاش دینے اور انکی سازشوں کی ناکامی کیلئے سیاستدانوں سمیت تمام پاکستانی قوتوں کا خود سےحیلہ سازی کرنا ضروری ہے۔ماہرین سیاسیات کا ماننا ہے اگر حالات شدید ترین ہوگئے تو دنیا کو ایک بار پھر نئی جنگ کا سامنا کرنا پڑے گاتاہم اس بار امریکہ اقوام متحدہ کو کس طرح اس جنگ میں گھسیٹ پائیگااس پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے؟

تازہ ترین