• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوری معاشروں میں پُر امن انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لئے انتخابی عمل میں اصلاحات ایک مسلسل عمل ہے مگر ہمارے ہاں انتخابی اصلاحات کو یکسر نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ 100کے قریب پارلیمانی کمیٹیاں اور ذیلی کمیٹیاں بنانے کے باوجود انتخابی قوانین میں اصلاحات کا خیال اب بھی ایک فسانہ بنا ہوا ہے، کروڑوں روپے خرچ کرنے کے باوجود اب تک کوئی ٹھوس نتیجہ سامنے نہیں آسکا ہے۔ 25جولائی 2014ء کو قومی اسمبلی کے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق انتخابی اصلاحات کیلئے پارلیمنٹ کی خصوصی کمیٹی تشکیل دی گئی تھی جس میں سینیٹ اور قومی اسمبلی کے 33اراکین شامل تھے۔ اس کمیٹی نے تین ماہ کے عرصہ میں انتخابی اصلاحات پیش کرنا تھا تاہم تین سال سے زائد عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی اب تک کوئی قانون سامنے نہیں آسکا۔ الیکشن ایکٹ 2017ء کے مسودے میں نئی ٹیکنالوجی کے استعمال کی تجویز پیش کی گئی ہے لیکن ان تمام اقدامات کیلئے بروقت قانون سازی اور فنڈز ضروری ہیں۔ اگرچہ الیکشن کمیشن آف پاکستان کی جانب سے اصلاحات پر عملدرآمد کیلئے تمام قانونی ذرائع استعمال کئے جا رہے ہیں لیکن اعداد و شمار کی تجدید اور نئے قوانین کی منظوری کیلئے کمیشن کو پارلیمنٹ اور متعلقہ حکومتی اداروں سے بروقت معاونت نہیں مل رہی جس پر الیکشن کمیشن نے خبردار کیا ہے کہ اب واضح طور پر معیاری اور شفاف انتخابات کے انعقاد کا انحصار حکومت اور پارلیمنٹ کے بروقت قانون اور انتظامی اقدامات پر ہے۔ انتخابی نظام میں اصلاحات کی راہ میں حائل رکاوٹیں بروقت دور نہ کی گئیں تو آزاد، شفاف اور معیاری الیکشن کا انعقاد ممکن نہیں ہو گا یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اس سے ایسے سنگین انتخابی مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جو سیاسی افراتفری پر منتج ہو ں گے۔ اس لئے ضروری ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومتیں، ادارۂ شماریات اور نادراجیسے ادارے انتخابی اصلاحات کے نفاذ کے لئے الیکشن کمیشن کی معاونت کریں تاکہ بروقت انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جا سکے.

تازہ ترین