• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں میڈیا مبصرین اور سیاسی پنڈتوں کی آرا کو دیکھا جائے تو یہ تاثر ملتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کا جانا ٹھہر گیا ہے ۔ ان کی طویل عرصے کی حکمرانی کے خاتمے کے بارے میں بہت سے مبصرین خوش ہیں : ان کے خیال میں نواز شریف اور مسلم لیگ (ن) کا زوال ایک بد عنوانی سے عبارت عہد کا خاتمہ ہے۔ گویا کہ اب پاکستان کی ریاست اور اس کے ادارے اس مقام پر پہنچ چکے ہیں جہاں لوٹ کھسوٹ اور ظلم و زیادتی کا نظام مزید نہیں چل سکتا۔ جب اس خوش خیالی پر یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ آئندہ آنے والے حکمران بھی دودھ کے دھلے نہیں ہیں تو اس کے جواب میں کہا جاتا ہے کہ آخر احتساب کا عمل کہیں سے تو شروع ہونا ہے۔ اس نقطہ نظر کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ نواز شریف کا احتساب ایک ایسی روایت قائم کرے گا کہ آنے والے حکمران صاف اور شفاف ہونے پر مجبور ہو جائیں گے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ نوے کی دہائی میں محترمہ بینظیر بھٹو اور جناب نواز شریف کی حکومتوں کا دو دو مرتبہ خاتمہ اسی طرح کے حالات میں کیا گیا۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس مرتبہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت کا خاتمہ کسی نئے دور کا آغاز ہو گا یا نوے کی دہائی کی طرح پھر سے دو پارٹیوں میں باریاں لگ جائیں گی؟ یعنی پہلے یہ باریاں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے درمیان گھومتی تھیں تو اب یہ پاکستان تحریک انصاف اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان لگ جائیں گی۔
شریف خاندان کی حکمرانی کے خاتمے کو نئے دور سے تعبیر کرنے والے یہ فرض کرتے ہیں کہ پاکستان کا مثبت انداز میں سیاسی ارتقا ہوا ہے۔ اس طرح کے نظریات کے حامی یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں ریاست کے ادارے تعمیری انداز میں اپنی ترتیب نو کر چکے ہیں۔ عدلیہ آزاد ہو چکی ہے اور اب وہ اپنے فیصلوں میں کسی طرح کا دباؤ برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اسی طرح اسٹیبلشمنٹ اور سیکورٹی ادارے اپنی نئی حدود کے اندر رہنے کا فیصلہ کر چکے ہیں جس کی وجہ سے جمہوریت کے تسلسل کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اگر اداروں کی تعمیر نو کا مفروضہ درست ہے تو یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ ملک کے نظام کو چلانے والی نوکر شاہی اور انتظامیہ کے دوسرے حصے بہت حد تک مثبت انداز میں بدل چکے ہیں۔ یہ بھی فرض کرنا پڑے گا کہ ایک نئی سیاسی قیادت پیدا ہو چکی ہے جو اپنے پیشروئوں سے یکسر مختلف ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ ہے کہ ملک میں نظریاتی بیانیہ تبدیل ہو چکا ہے۔ اس سیاق و سباق میں اگر اداروں کی ترتیب کا معائنہ کیا جائے تو یوں لگتا ہے جیسے کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ نوے کی دہائی کی طرح اب بھی اشرافیہ کے مختلف گروہوں کے درمیان اقتدار کی جنگ جاری ہے: سیاسی چہروں کے علاوہ کچھ بھی نہیں بدلا۔
سب سے پہلے تو عدلیہ کے نظام کو دیکھا جانا چاہیے کیونکہ سب کو نئے دور کے آغاز کی انہی سے امیدیں وابستہ ہیں۔ بظاہر پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ میں معاملات پہلے سے بہت بہتر ہوئے ہیں اور اب عدلیہ حکمران طبقے کے احتساب بھی اجتناب نہیں کر رہی۔ آزاد عدلیہ کے نئے دور کا آغاز چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے دور سے شروع ہوا۔ جب چیف جسٹس افتخار چوہدری نے معاشرے میں انصاف کا نظام قائم کرنے کے لئے بہت فعال کردار ادا کیا۔ بلکہ بہت سے ناقدین کا خیال ہے کہ وہ اپنی اس دھن میں عدالتی روایتوں اور آداب کی حدیں پار کر گئے۔ عالمی ماہرین قانون میں سے اکثر کی رائے ہے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو عہدے سے ہٹانا ان کے احاطہ اختیار میں نہیں تھا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری کے بعد آنے والوں نے مختلف رویہ اختیار کیا اور سپریم کورٹ کی روایتی حدود کے اندر رہنے کی کوشش کی ۔ اب اعلیٰ عدلیہ پھر اس امتحان سے گزر رہی ہے اور دیکھنا یہ ہے کہ کیا وہ خود منتخب وزیر اعظم کو فارغ کردے گی یا کوئی اور آئینی طریقہ استعمال کیا جائے گا۔ اگر ہم سپریم کورٹ سے نیچے عدلیہ کے نظام پر نظر دوڑائیں تو کچھ بھی بدلا ہوا نظر نہیں آتا۔ مقامی کے علاوہ ہائی کورٹ کی سطح پر بھی انصاف کے ادارے مفلوج اور بے بس دکھائی دیتے ہیں۔ عدالتوں کی صورت حال یہ ہے کہ وکلاگردی کے باعث عاصمہ جہانگیر جیسی نامور وکیل اپنے موکلوں کو انصاف دلانے میں ناکام دکھائی دیتی ہیں۔ غرضیکہ انصاف کے ادارے میں کوئی بنیادی تبدیلی نظر نہیں آتی: سپریم کورٹ کی سطح پر جو کچھ نظر آرہا ہے وہ بھی عارضی نظر آتا ہے ۔
عدلیہ کے علاوہ ریاست کے دوسرے اداروں میں بھی کوئی بہتری نہیں آئی۔ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ پہلے سے بھی زیادہ غالب نظر آتی ہے۔ وقتی تاثر یہ ہے کہ اب اسٹیبلشمنٹ سیاسی اداروں میں دخل اندازی سے اجتناب کرتی ہے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اب بھی ریاست کی بہت سی بنیادی پالیسیاں سیاسی اداروں یا منتخب حکومت کے ہاتھ میں نہیں ہیں۔ پاکستان کی خارجہ اور دفاعی پالیسیاں منتخب حکمرانوں کے دائرہ اختیار سے باہر نظر آتی ہیں۔ باوجود خارجہ پالیسی کی ناکامی کے اور پاکستان کی علاقے میں تنہائی کے خارجہ پالیسی کی بنیادوں میں کسی قسم کی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ اگر غور سے دیکھا جائے تو سیاسی ادارے نوے کی دہائی سے بھی کم تر حیثیت میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر اس سیاق و سباق میں دیکھا جائے تو آزاد عدلیہ ایک خوشنما جزیرے کی طرح ہے جس کو چاروں جانب سے بڑے بڑے غیر جمہوری طوفانوں نے گھیر رکھا ہے۔
اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ پاکستان میں نظریاتی بیانیہ میں کوئی بڑی تبدیلی نظر نہیں آتی۔ باوجود حکمرانوں کے دعوئوں کے اب بھی نظریاتی بیانیہ مذہبی قدامت پرستوں کے ہاتھ میں ہے۔ اسی بیانیے کا نتیجہ ہے کہ ملک میں مذہبی رسم پرستی میں اضافہ ہوا ہے اقلیتوں کے حقوق کا کوئی تحفظ نہیں ہے اور ریاست کی جہت عقلی اور منطقی بنیادوں کی بجائے مسلکی توہمات کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔غرضیکہ کہ کسی بھی ادارے میں کوئی بہتری نظر نہیں آتی۔ ان حالات میں نواز شریف دور کا خاتمہ کسی نئے روشن مستقبل کی نوید دیتا ہوا نظر نہیں آرہا۔

تازہ ترین