• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کی عوامی حکومت کی جانب سے مستحق افراد کے لیے عید کے تحفے کے طور پر فی کس دو ہزار روپے بطور خصوصی راشن الائونس دئیے جانے کا اعلان عام کیاگیا۔ ’’سندھ کی عوامی حکومت کا ایک اور عوام دوست قدم‘‘ یہ راشن الائونس تقریباً اٹھارہ لاکھ سے زائد افراد کو دیا جائے گا یعنی سندھ کی عوامی حکومت جس کے پاس بلدیات کو دینے کے لیے فنڈز نہیں جو شہروں کی بگڑتی ہوئی حالت نہ سنبھال سکی وہ مستحق افراد میں فی کس دو ہزار روپے تقسیم کر رہی ہے یعنی تین ارب ساٹھ کروڑ کی رقم تقسیم ہو رہی ہے دیکھنا یہ ہے کہ یہ رقم کب اور کیسے تقسیم کی جاتی ہے اور وہ مستحق افراد کون ہوں گے اور انہیں ملنے والی رقم کیا واقعی وہ ان کی ہی ہوگی یا صرف انہیں سو دو سو پر ہی ٹرخا دیا جائے گا باقی رقم حسب سابق حسب معمول متعلقہ سردار یا وڈیرے کو ملے گی کہنے کو تو یہ رقم بینک کے ذریعے وہ بھی بائیو میٹرک تصدیق سے دی جانی ہے یہ رقم بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت رجسٹرد افراد کو ہی دی جانی ہے اس کا حشر بھی وہی ہونا ہے جو بے نظیر انکم سپورٹ کا ہو رہا ہے متعلقہ مستحق افراد جو رجسٹرڈ کیے گئے ہیں وہ سب کے سب تو نہیں لیکن اکثریت ان ناموں کی ایسی ہے جو علاقے کے سردار یا وڈیرے نے لکھوائے ہیں وہ سب پارٹی کے ارکان کے ہیں مصدقہ اطلاعات کے مطابق بی آئی ایس پی میں رجسٹرڈ افراد کو دس سے چالیس فیصد ہی وہ رقوم ملتی ہے باقی کہیںاورچلی جاتی ہےمتعلقہ افراد کا داد فریاد کرنے کا کوئی جواز ہی نہیں بنتا کیونکہ انہیں کچھ نہ کچھ تو مل ہی رہا ہے اگر وہ کسی قسم کا احتجاج یا مزاحمت کریں تو اس ملنے والی رقم سے بھی محروم ہوجائیںگے،کچھ مخالفین تو یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ یہ خصوصی راشن الائونس دراصل الیکشن کی تیاری کا حصہ ہے اس سے ایسے تمام امیدوار جو آنے والے انتخابات میں حصہ لیں گے انہیں الیکشن اخراجات کی مد میں اس اسکیم کے ذریعے معقول رقم مل جائے گی اور ان کے ووٹروں کا بھی کچھ نہ کچھ دال دلیے کا بندوبست ہوجائے گا۔
عوامی حکومت سندھ نے بڑی مشکل سے مجبوراً سپریم کورٹ کے حکم سے مجبور ہو کر سندھ میں بلدیاتی الیکشن تو کرا دئیے لیکن تمام تر کوشش اور خواہش کے باوجود پارٹی کو وہ کامیابی میسر نہیں آسکی جس کی وہ خواہش مند تھی جب بلدیاتی انتظام ہی اس کے ہاتھ نہیں لگ سکا تو پھر فنڈ جس میں طے شدہ معمول کے مطابق چالیس سے پچاس فیصد کا حصہ بلدیاتی نمائندوں کا ہوتا ہے باقی پچاس فیصد اگر متعلقہ کام پر لگا بھی دیا جائے تو اس کام کی تکمیل کا فائدہ اس متعلقہ رکن بلدیہ کو ملے گا جو پارٹی کا نہیں ہے اس طرح بلدیاتی نظام کے ذریعے خرچ ہونے والی رقم اس کے نقطہ نظر سے ضائع ہی جائے گی اس لیے بلدیاتی نظام کو ایک طرف رکھتے ہوئے خصوصاً کراچی شہر میں تمام ترقیاتی کام جو بلدیہ عظمیٰ یا اس کے ملحق اداروں سے سر انجام دینے تھے خود اپنی نگرانی میں حکومت سندھ کرا رہی ہے اگر بلدیاتی اداروں کو یا بلدیہ عظمیٰ کراچی کو ان کے مطلوبہ فنڈز فراہم کردئیے جاتے تو پھر سارے مسائل یعنی کام کی تکمیل یعنی سڑکوں کی تعمیر و توسیع ہو یا کچرے کی صفائی یا پانی کی فراہمی ہو یا نکاسی کا مسئلہ اگر بلدیہ اسے حل کردے گی تو ایک تو ان کو فائدہ نہیں ہوگا ہاتھ نہیں ہوگا دوسرے ان علاقوں کے ووٹرز بھی ہاتھ سے نکل سکتے ہیں وہ تو اللہ کا شکر ہے کہ اب متحدہ کی وہ پہلی سی پوزیشن نہیں رہی اس کی ٹوٹ پھوٹ کا سارا فائدہ حکومتی پارٹی حاصل کرنا چاہ رہی ہے شاید پارٹی اکابرین کا خیال ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ میں حالیہ دنوں میں اس قدر ڈینٹ پڑے ہیں کہ اب اس کا اپنے پیروں پر کھڑا ہونا مشکل ہے اگر الیکشن میں وہ حصہ بھی لے گی تو متحدہ کے ووٹ تین جگہ تقسیم ہوجائیں گے اس طرح اس کو میدان مارنے کا سنہرا موقع مل جائے گا کیونکہ متحدہ ووٹر یا تو نکلے گا نہیں یا اگر نکلا بھی تو اس کے ووٹ چونکہ تقسیم ہوجائے گا اس لیے اس بار بھرپور کامیابی حاصل کرنا مشکل ہوگا شاید یہی سوچ ہے حکومت کی جو وہ بلدیاتی اداروں کو بائی پاس کر رہی ہے حالانکہ اس طرح خود حکومت ہی انہیں مظلوم بنا کر سپورٹ فراہم کر رہی ہے خود ظالم بن کر ووٹر کے غضب کے نشانے پر کھڑی ہو رہی ہے ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ پارٹی اکابرین جانے کس خوش فہمی میں ہیں ایسا نہ ہو کہ پیپلز پارٹی جس طرح پنجاب میں بکھر رہی ہے سندھ میں بھی اپنی موجودہ حیثیت سے ہاتھ دھو بیٹھے نہ گھر کی رہے نہ گھاٹ کی ۔ اگر حکومتی پارٹی ذرا بھی سوچ و فکر سے کام لیتی اور تمام بڑے شہروں کے مسائل جو متحدہ کی کامیابی کے باعث نظر انداز کیے جا رہے ہیں اگر انہیں سمجھا جاتا اور سیاسی بالغ نظری کا ثبوت دیتے ہوئے تمام بلدیاتی کام بلدیاتی اداروں کے ذریعے ہی پایہ تکمیل ہونے دئیے جاتے تو اس کا براہ راست فائدہ حکومت سندھ کو ہوتا اس کے ووٹرز اور تمام تر اختلافات کے باوجود متحدہ کا غیر جانبدار ووٹر بھی اس بات کو سمجھتا اور حکومت سندھ کو اس کا فائدہ ہوتا عوام کے مسائل حل ہوتے عوام کا اعتماد حکومت پر بڑھتا پارٹی کا بکھرتا سمٹتا وقار یوں نہ بکھرتا بلکہ عوام کا اعتماد پارٹی کو حاصل ہوتا ۔ پارٹی ویسے ہی سکڑتے سکڑتے سندھ کے دیہی علاقوں تک محدود ہو کر رہ گئی ہے پنجاب جو کچھ تھوڑا بہت ہاتھ میں رہ گیا تھا وہ بھی ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے اس کا اثر لازماً سندھ کے شہری اور کچھ دیہی علاقوں پر بھی پڑ سکتا ہے کیونکہ سندھ اور پنجاب کی سیاست میں زمین و آسمان کا فرق ہے سندھ میں قوم پرستوں کا ایک بڑا اہم رول ہے جو فی الحال حکومتی پارٹی سے ناراض اور اس کے مد مقابل ہیں اس کے علاوہ مہاجر عنصر اپنی جگہ خاصہ اہم ہے خصوصاً شہری علاقوں میں حکومتی پارٹی کی اگر یہی روش رہی تو وہ دن دور نہیں کہ پارٹی کے ناراض ارکان جو یہ کہتے ہیں کہ زرداری سب پر بھاری ہے ان کا تو مقصد ہی پارٹی کو ختم کرنا ہے اب جبکہ پنجاب کے سینئر ارکان زرداری کی پالیسیوں کے باعث پارٹی چھوڑ چھوڑ کر جا رہے ہیں تو پارٹی سیاسی طور پر مزیدکمزور تر ہوتی جا رہی ہے آگے آگے دیکھیں ہوتا ہے کیا؟ اللہ پاکستان کی پاکستان کے عوام کی حفاظت فرمائے اور ہر آفت و بلا سے محفوظ رکھے، آمین۔

تازہ ترین