• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناممکن نہیں تو میاں نوازشریف کی پسند ناپسند کے معیارات کو سمجھنا مشکل ضرور ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کیا خوبیاں دیکھ کر انہوں نے آرمی چیف کے منصب کے لئے جنرل قمر باجوہ کا انتخاب کیا۔ شاید دھرنا ون کے موقع پر بطور کورکمانڈر ان کی جمہوریت کے ساتھ کمٹمنٹ پر مبنی رویہ وجہ بنی ہو، شاید ان کی ٹیم کے ایک اہم رکن کے ساتھ جنرل صاحب کی پرانی شناسائی اور قربت محرک بنی ہو، شاید ماضی میں انٹیلی جنس ایجنسیوں سے عدم وابستگی کی بنا پر میاں صاحب ان پر مہربان ہوئے ہوں۔ بہرحال وجہ جو بھی ہو لیکن حقیقت یہ ہے کہ وزیراعظم بننے کے بعد یہ ان کا شاید پہلا اورآخری مبنی بر میرٹ انتخاب تھا۔ دلیل اس کی یہ ہے کہ جنرل قمر باجوہ تادم تحریر جمہوریت کی بالادستی پر یقین رکھنے والے جرنیلوں میں سے ایک ہیں۔ آرمی چیف بننے تک وہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں کی طرف سے ہر قسم کی سیاسی مہم جوئی کے مخالف تھے۔ مذہبی جنوبی ہیں اور نہ لبرل فاشسٹ بلکہ وہ معتدل نظریات کے حامل فوجی ہیں جو مذہبی انتہاپسندی اور دہشت گردی کو ہی اس قوم کا دشمن نمبر ون سمجھتے ہیں۔ جہاں تک میں سمجھا ہوں وہ جنون کی حد تک پاکستان کو ایک پرامن ملک بنانے کے آرزو مند یا پھر اس کے حصول کے لئے فکر مند ہیں اور اس مقصد کے لئے قومی سلامتی اور خارجہ پالیسی کے فرسودہ تصورات سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ قد اور جثہ اللہ نے انہیں بلند اور کشادہ عطا کیا ہے اور پاکستان کی سب سے طاقتور چھڑی انہیں میاں نوازشریف نے ہاتھ میں تھما دی لیکن اس کے باوجود ان کی شخصیت میں تکبر، اکھڑ اور غرور دیکھنے کو نہیں ملتے۔ وہ قول سے زیادہ عمل پر یقین رکھنے والے انسان ہیں اور اپنے پیش رو کے برعکس ہر کامیابی کو اپنی ذات کے گرد گھمانا نہیں چاہتے۔ وہ صاف انداز میں سیدھی اور کھری بات کرنے والے انسان ہیں لیکن جس قدر خوبیاں زیادہ ہیں، اس قدر ان کے لئے چیلنجز بھی زیادہ ہیں۔ وہ ایسے وقت میں آرمی چیف بنے کہ جب امریکہ برہم، افغانستان مشتعل، ایران ناراض، ہندوستان آمادہ بہ جنگ جبکہ برادرعرب ملک دوسرا امریکہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ کی طرح ان دنوں اس کا بھی کہنا یہی ہوتا ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا پھر دوسری طرف ہیں۔ دوسری طرف ملک کے اندر فوج کراچی سے لے کر فاٹا تک اور گوادر سے لے کر گلگت تک پولیسنگ اور آپریشنوں سمیت غیرمعمولی کاموں میں الجھی ہوئی ہے۔ ان کا کام مزید یوں مشکل تھا کہ چار چیزیں جو سول ملٹری تنائو کی موجب تھیں، جنرل قمر باجوہ کے لئے جنرل راحیل شریف نے ورثے میں چھوڑیں۔ ایک آپریشن ضرب عضب کی حد سے زیادہ گلوریفکیشن (Glorification)۔ دوسرا ڈان لیکس۔ تیسرامنقسم میڈیا اور چوتھا دہشت گردی اور کرپشن کو ایک دوسرے سے نتھی ہونا۔ فو ج کی کمانڈ سنبھالتے ہی جنر ل قمر باجوہ نے ان چاروں غیرضروری مگر ملک کے لئے نہایت مہلک چیزوں سے جان چھڑانے کی کوششوں کا آغاز کردیا۔ اس حوالے سے فوجی اور عوامی حلقوں میں غیرمقبول لیکن نہایت جراتمندانہ بھی اقدامات اٹھائے۔ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کو ملنے والا ریلیف،پاناما کیس سے متعلق سپریم کورٹ کی کارروائی اور فیصلے سے متعلق غیرجانبدار رہنا، عمران خان سمیت سب سیاسی قوتوں کو یہ پیغام دینا کہ فوج سپریم کورٹ کے فیصلے کو تسلیم کرے گی اور سیاسی لیڈروں سے بھی توقع کرتی ہے کہ وہ ہر صورت فیصلہ تسلیم کریں گے، جنگ گروپ کے صحافیوں اور اینکرز کو جی ایچ کیو کی تقریب میں بطور خاص مدعو کرنا، ڈان لیکس کے معاملے کو آسمان سے زمین پر لانا، احسان اللہ احسان اور کئی دیگر طالبان رہنمائوں کا سرنڈر اس نئی روش کی زندہ مثالیں ہیں لیکن افسوس کہ وزیراعظم میاں نوازشریف اپنے ہاتھوں سے اپنی مرضی کے نئے آرمی چیف کے تقرر کے بعد بھی فوج سے متعلق نئی سوچ اپنا نہیں سکے۔ وہ جنرل پرویز مشرف کے دور کو بھلا سکے اور نہ جنرل راحیل شریف کے دور سے ذہنی طور پر باہرآ سکے۔ بلکہ بعض نقاد تو یہ رائے رکھتے ہیں کہ انہوں نے جنرل قمر باجوہ کی اس نئی اپروچ کا غلط فائدہ اٹھانا شروع کیا اور پہلے دن سے جنرل راحیل شریف کے دور کا حساب برابر کرنا چاہا۔ مثلاً تقرری کے بعد حسب روایت جب جنرل قمر باجوہ وزیراعظم کے ساتھ ملاقات کے لئے گئے تو انہوں نے مروتاً یا عادتاً اسمارٹ سیلوٹ کیا لیکن اس عمل کو وزیراعظم کی ٹیم کے بعض لوگوں نے اپنی انا کی تسکین کے لئے یوں استعمال کیا کہ اس کی تصویر لیک یا جاری کی گئی۔ اسی طرح انہیں ٹیبل کی دوسری طرف بٹھا کر اہتمام کےساتھ اس ملاقات کی ویڈیو بھی میڈیا کو ریلیز کردی۔ خودجنرل قمر باجوہ نے اپنے مزاج کے مطابق ان دونوں اقدامات کا برا نہیں منایا لیکن پوری فوج میں اس کا نہایت غلط پیغام چلا گیا اور وہاں یہ سمجھا گیا کہ جیسے جان بوجھ کر حکومت کی طرف سے ان کے چیف کی وقعت کو کم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اسی طرح نئی آرمی لیڈر شپ کی طرف سے ڈان لیکس کے بارے میں مجموعی طور پر وزیراعظم کے بیانیے کو تسلیم کیا گیا لیکن ساتھ ہی ساتھ ان پر واضح کردیا گیا کہ چونکہ جنرل راحیل شریف کے دور میں یہ مسئلہ کورکمانڈرز میٹنگ کے ایجنڈے پر آکر پوری آرمی کے وقار کا مسئلہ بن گیا ہے، اس لئے اس سے متعلق مٹی پائو والی پالیسی نہیں اپنائی جاسکتی۔ چنانچہ یہ طے پایا کہ پرویز رشید کے ساتھ ساتھ فاطمی اوررائو تحسین کے خلاف کارروائی ہوگی۔ اب اگر حکومت کو فیصلہ قبول نہیں تھا تو اسی وقت انکار کردینا چاہئے تھا لیکن اس پر عمل درآمد میں ایک ماہ کی تاخیر کی گئی اور سپریم کورٹ سے پاناما کیس کے فیصلے کے بعد نوٹیفکیشن جاری کردیا گیا۔ اس تاخیر کو بھی فوجی حلقوں میں ایسے لیا گیا کہ جیسے حکومت اس معاملے کو پاناما کیس کے سلسلے میں ایک بارگیننگ چپ کے طور پر استعمال کررہی ہے۔ پھر جب نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تو وہ اس وعدے کے عین مطابق نہیں تھا جو عسکری قیاد ت کے ساتھ کیا گیا تھا چنانچہ طیش میں آکر فوج کی طرف سے مشہور زمانہ ٹوئٹ جاری کیا گیا جو بہر حال تجاوز کے زمرے میں آتا تھا اور اسے کسی صورت مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا تھا۔ اُن الفاظ کے ساتھ اُس ٹوئٹ کا جاری کیا جانا یقیناً غلطی تھی لیکن اس سے متعلق کوئی درمیانہ راستہ بھی تلاش کیا جاسکتا تھا۔ تاہم درمیانہ راستہ نکالنے کی بجائے وزیراعظم نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور ایسی فضا بنا دی کہ فوجی قیادت کے پاس اس ٹوئٹ کو واپس لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہا۔ اب ایسے عالم میں کہ جب پاناما کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کے بعض کارندوں کی طرف سے سوشل میڈیا میں ان خرافات کی بھرمار تھی کہ جیسے آرمی چیف نے ہی وزیراعظم کو بچا لیا، الٹا چوہدری اعتزاز احسن بھی ڈی جی آئی ایس آئی سے متعلق سوالات اٹھانے لگے۔
اس فضا کی وجہ یقینا فوج کے رینکس ایند فائلز میں تشویش تو تھی ہی لیکن رہی سہی کسر ٹوئٹ کے واپس لینے نے پوری کردی ۔ جنرل قمر باجوہ کے اپنے الفاظ کے مطابق ٹوئٹ واپس لینا درست لیکن ایک غیرمقبول فیصلہ تھا ۔ تاہم اس عاقلانہ اور جراتمندانہ لیکن غیرمقبول اقدام کی وجہ سے عسکری حلقوں میں اپنے ادارے اور اس کے سربراہ کے وقار سے متعلق تشویش مزید بڑھ گئی ۔ جنرل قمر باجوہ پورے پاکستان کے محافظ اعلیٰ ہیں لیکن وہ سب سے پہلے افواج پاکستان کے سربراہ ہیں ۔ پہلی فرصت میں انہیں اپنی فوج کی توقعات پر پورا اترنا ہے اور میرے خیال میں وہ اس وقت اسی کے لئے کوشاں ہیں ۔ ہر چیف یہی سمجھتا ہے کہ وہ اپنی فوج کی توقعات پر پورا اتریں گے تو تب قوم کی توقعات پر پورا اتر سکیں گے ۔ دیکھنا یہ ہے کہ وزیراعظم صاحب اپنی ضد پر قائم رہتے ہیں یا پھر ہونے والی غلطیوں کی تلافی کی صورت نکال کر اپنی حکومت اور جمہوریت کو بچاتے ہیں ۔اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم فوج کے ساتھ ڈیلنگ کرنے والی اپنی ٹیم کو تو بدل دیں ۔ ماضی میں یہ کام چوہدری نثار علی خان اور میاں شہباز شریف کے سپرد تھا ۔ وہ دونوں سالوں سے وزیراعظم کے لئے یہی کام کرتے رہے ۔ اس معاملے میں ان دونوں کا تجربہ بھی زیادہ ہے لیکن گزشتہ چند ماہ سے انہوں نے یہ کام اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کے سپرد کیا ہے ۔ اب اگر آصف علی زرداری فوج کے ساتھ ڈیلنگ کی ڈیوٹی پر حسین حقانی کو مامور کردیں تو انجام کیا ہوگالیکن میاں محمد نوازشریف، اسحاق ڈار اور خواجہ آصف کو یہ ذمہ داری دے کر یہی تو کررہے ہیں اور تبھی تو یہ نتیجہ سامنے آرہا ہے۔

 

.

تازہ ترین