• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیخ سعدی شیرازی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے خواب میں دیکھا کہ اس کا بادشاہ جنت میں ہے اور شہر کاایک پارسا آدمی دوزخ کی آگ میں جل رہا ہے۔اس نے ایک دانا سے خواب کی تعبیر پوچھی تو جواب ملا کہ یہ بادشاہ فقیروں سے عقیدت رکھتا تھا اس لئے جنت میں جا پہنچا اور پارسا آدمی بادشاہ کے درباریوںکا گرویدہ تھا اس لئے دوزخ میں جلتا نظر آیا۔ آج کل کےبادشاہ فقیروں سے نہیں بلکہ صرف اپنے اقتدار سے محبت رکھتے ہیں اور یہ محبت انہیں اس دنیا میں ہی د وزخ جیسے حالات سے دوچار کردیتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں ایک بادشاہ نہیں کئی بادشاہ ہوتے ہیں۔ ایک دربار نہیں بلکہ کئی دربار ہوتے ہیں۔ ایک ریاست کے اندر کئی ریاستیں اور ہر ریاست کی اپنی اپنی سیاست ہوتی ہے۔ کبھی کبھی ایک ریاست دوسری ریاست پرحملہ کردیتی ہے اور نعرہ لگاتی ہے۔ ’’سیاست نہیں ریاست کو بچائو۔‘‘ ہر ریاست کا دربار دوسری ریاست کے دربار سے مخاصمت رکھتا ہے۔ سیاست و صحافت کے پارسا لوگ کسی نہ کسی دربار سے وابستگی کو اپنے لئے باعث ِ اعزاز سمجھتے ہیں۔ جو سیاستدان اور صحافی کسی دربار سے وابستہ نہ ہو تو اہل دربار اسے خطاکار قرار دے کر سزا کا حقدار بنا ڈالتے ہیں۔ نوجوان صحافی اعزاز سید بھی ایسے ہی خطاکاروں میں سے ایک ہے جسے ایک ہی ریاست کے اندر کئی ریاستوں کے دربار خطاکار قرار دے چکے ہیں اور اسے سزا دینے کی تاک میں رہتےہیں۔ یہ وہی اعزاز سید ہے جس نے پاناما کیس کی جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد وزیرخزانہ اسحاق ڈار سے یہ پوچھا تھا کہ کیا آپ نے 17سال قبل نواز شریف کے خلاف اعترافی بیان اپنے ہاتھ سے لکھا تھا تو ڈار صاحب نے نفی میں جواب دیا۔ اعزاز نے فوراً دوسرا سوال پوچھا کہ پھر آپ نے اس بیان میں بقلم خود کا لفظ کیوں شامل کیا جس کے بعد ڈار صاحب شکریہ ادا کرکے چل دیئے۔ اعزاز سید صرف سیاستدانوں سے نہیں بلکہ جرنیلوں سے بھی بڑے خطرناک سوالات پوچھتا ہے۔ جنرل اسلم بیگ اور جنرل عزیز خان سے اس نے جو سوالات پوچھے وہ آج بھی سوشل میڈیا پر موجود ہیں۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل احمد شجاع پاشا سے ایک دفعہ اعزاز نے یہ پوچھ لیا کہ کیا یہ درست ہےکہ آپ نے تحریک ِ انصاف کو سیاسی طاقت مہیا کرنے میںاہم کردار ادا کیا؟ پاشا صاحب نے اس سوال کا کوئی جواب نہیںدیا تھا۔
یہ سوال پوچھنےکے کچھ عرصہ بعد اعزاز سید کو ایک کتاب لکھنےکا شوق چرایا اور اسی کتاب کے سلسلے میں وہ جنرل پاشا کے پاس جا پہنچا۔ جنرل صاحب نے اسے بتایا کہ وہ تین صحافیوں سے بہت نفرت کرتے ہیں۔ ایک حامد میر، دوسرا نجم سیٹھی اور تیسرے آپ ہیں۔ اعزاز سید نے جنرل پاشا کے ساتھ اپنی ملاقات کا یہ قصہ اپنی کتاب ’’دی سیکرٹس آف پاکستان وار آن القاعدہ‘‘ میں لکھ ڈالا۔ اعزاز کا کمال یہ ہے کہ اس نے ایک ایسے شخص کو ملاقات کے لئے راضی کرلیا جو اعزاز سے شدید نفرت کرتا تھا۔ میں نے اعزاز سید کی کتاب پڑھ کر سوچا کہ پاشا صاحب مجھ سے اتنی نفرت کیوں کرتے ہیں؟ شاید اس کی وجہ چوہدری نثار علی خان ہیں۔ جس زمانے میں جنرل پاشا آئی ایس آئی کے سربراہ تھے تو چوہدری نثار علی خان قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر تھے۔ چوہدری صاحب جب بھی جیو نیوز پر کیپٹل ٹاک میں آتے تو جنرل پاشا پر ضرور تنقید کرتے تھے۔ اس زمانے میں لاپتہ افراد کا معاملہ بڑا سنگین ہو گیا تھا اور چوہدری نثار علی خان لاپتہ افراد کے احتجاجی کیمپوں میں میرے ساتھ پروگرام کیا کرتے تھے۔ یقیناً یہ سب جنرل پاشا کو پسند نہیںآتا ہوگا لیکن اب چوہدری صاحب وفاقی وزیر داخلہ ہیں۔
لاپتہ افراد کا مسئلہ بدستور حل طلب ہے اورشاید اسی لئے وہ میرا سامنا کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ کبھی مل جائیں تو گفتگو کا آغاز شکوے شکایتوں سے ہوتاہے۔ میرے اکثر سیاستدان دوست اقتدار میں آ کر مجھ سے ناراض ہو جاتے ہیں لہٰذا میں ان کی اپوزیشن میں واپسی کا انتظار کرتاہوں تاکہ انہیں منا سکوں۔ آج کل حالات کچھ مختلف ہیں۔ جو دوست اقتدار میں ہیں وہ اپوزیشن جیسے لب و لہجے میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیںاور جو اپوزیشن میں ہیں وہ اہل اقتدار کی طرح حاکمانہ انداز اختیار کئے ہوئے ہیں۔ کوئی مانے یا نہ مانے وزیراعظم نوازشریف مشکل میں ہیں۔ اس مشکل میں ان کے کچھ اپنے ناراض ہیں لیکن چوہدری نثار علی خان ان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ جن لوگوں کا خیال ہےکہ چوہدری نثار علی خان کچھ ناراض ساتھیوں کی مدد سے وزیراعظم بننا چاہتے ہیں، وہ غلطی پر ہیں۔ چوہدری صاحب اس مشکل وقت میں نوازشریف کو دھوکہ نہیںدیں گے اور اگر کوئی عہدہ حاصل کریں گے تو نواز شریف کی مرضی و تائید سے حاصل کریںگے۔ وزارت ِ عظمیٰ کے ایک اور امیدوار اسحاق ڈار ہیں۔ انہیں بھی نواز شریف کی مرضی کے بغیر یہ عہدہ نہیں مل سکتا۔ بوقت ِ ضرورت وہ نواز شریف کے کچھ سیاسی مخالفین سے بھی اپنے لئے حمایت حاصل کرسکتے ہیں تاہم وزیراعظم بننے کے لئے انہیں ایک عدد ضمنی الیکشن کے ذریعے قومی اسمبلی میں پہنچنا ہوگا۔ اقتدار کے ایوانوں میں ایاز صادق، احسن اقبال، شاہد خاقان عباسی اور خرم دستگیر کے نام بھی گردش میں ہیں۔ یہ سب نواز شریف کے وفادار ساتھی ہیں اور نواز شریف کےبغیرکچھ نہیں۔ نواز شریف اقتدار سے باہر نکل کر بھی کنگ میکر کا کردار ادا کرتے رہیں گے لیکن وہ پوری ریاست کے کنگ میکر کبھی نہ بن پائیں گے۔ ریاست کے اندر کئی ریاستیں اور کئی دربار قائم رہیں گے۔ ریاست کے اندر یہ ریاستیں اس وقت تک ختم نہیں ہوسکتیں جب تک جمہوری نظام مضبوط نہیں ہوتا اور سیاسی جماعتوں کے اندر جمہوری روایات مستحکم نہیںہوتیں۔ نواز شریف کا اصل امتحان 2018کے انتخابات کےبعد شروع ہوگا۔ ان انتخابات میں کسی ایک جماعت کے لئے سادہ اکثریت حاصل کرنا کافی مشکل ہوگا۔ اگر مسلم لیگ (ن) نے اکثریت حاصل کرلی تو مریم نواز وزارت ِ عظمیٰ کی امیدوارہوں گی جبکہ ن لیگ کے کچھ سینئر رہنمائوں نے ابھی سے اپنی قیادت پر واضح کردیا ہے کہ وہ نواز شریف کے تو وفاداررہیں گے لیکن ان کی سیاسی وفاداری کو پورے خاندان کی غلامی نہ سمجھا جائے۔ مسلم لیگ (ن) کی قیادت آج کل جے آئی ٹی پر حملہ آور ہے۔ مریم نواز نے بھی جے آئی ٹی میں پیشی کے بعدکہا کہ جے آئی ٹی ان کے اس سوال کا جواب نہ دے سکی کہ مجھ پر الزام کیا ہے؟ بات مکمل کرکے انہوں نے وہاں میڈیا کے کسی سوال کا جواب نہیں دیا کیونکہ سامنے اعزاز سید بھی موجود تھا جس کے سوالوں کا جواب دینا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن کچھ صحافی ایسے بھی تھے جنہوں نے ٹی وی پر مریم نواز کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیئے اور ثابت کیا کہ وہ یہ اصولوں کی نہیں بلکہ درباروں اور درباریوں کی لڑائی ہے۔

 

.

تازہ ترین