• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وکی لیکس کے ایک حالیہ انکشاف کے مطابق ابوظہبی کے ولی عہد نے2003 میں امریکہ کے عراق پر حملے سے پہلے امریکیوں کو صلاح دی تھی کہ وہ مشہور عرب ٹی وی نیٹ ورک الجزیرہ پر بمباری کرے۔ بن زیاد نے یہ مطالبہ امریکی ڈپلومیٹ رچرڈ ہاس سے ملاقات کے دوران کیا تھا۔ اماراتی شہزادے نے امریکہ کو یہ صلاح بھی دی تھی کہ ممکنہ جنگ کے دوران میڈیا کوریج کو ضبط میں رکھنے کیلئے الجزیرہ کو قابو میں رکھنا بہت ضروری ہے۔ بن زیاد نے امریکیوں کو یہ مشورہ بھی دیا تھا کہ جنگ کے دوران صحافیوں پر قدغنیں لگائی جائیں تاکہ شہری آبادی کی ہلاکتوں کی صورت میں اسکی رپورٹنگ پر روک لگائی جاسکے کیونکہ ’’ٹی وی پر سویلین ہلاکتوں کی ترسیل نقصان رساں ہوگی‘‘۔ وکی لیکس کی فاش کردہ دستاویز میں یہ انکشاف بھی کیا گیا کہ بن زیاد کے والد شیخ زیاد بن سلطان نے امریکہ کے افغانستان پر حملے کے وقت بھی کچھ ایسا ہی مطالبہ کیا تھا ۔ انہوں نے افغانستان پر جارحیت سے قبل امریکی فوجی کمانڈر جنرل فرینکس سے مطالبہ کیا تھا کہ امریکہ الجزیرہ ہیڈکوارٹر پر بمباری کرکے اسے تباہ کردے۔ انہوں نے اپنے بیٹے اور ولی عہد بن زیاد کی طرح یہ مطالبہ بھی کیا تھا کہ امریکہ قطر پر دباؤ ڈال کر الجزیرہ کی رپورٹنگ کو کنٹرول کرے۔
ان تازہ انکشافات سے قطر کیخلاف سعودی قیادت میں برپا کئے جانیوالے موجودہ بحران کے اصلی مقاصد واضح ہونے میں مدد ملی ہے کہ اصل مدّعا تو الجزیرہ کی رسائی اور اثر ورسوخ کو ختم کرنا ہے جس نے پچھلی دو دہائیوں سے لاکھوں عرب گھرانوں کو سیاسی شعور اور بصیرت فراہم کرنے میں اہم رول ادا کیا ہےجو اسکی عدم موجودگی میں آمریتوں اور کہنہ اور فرسودہ عقائد کے چنگل میں رہ کر اندھیروں میں بھٹکے رہنے پر مجبور تھے۔
1996ء سے شروع ہونیوالے الجزیرہ نے مشرق وسطیٰ میں صحافت اور خبروں کے تجزیوں اور ترسیل کا ایک اعلیٰ معیار قائم کیا ۔ اسکے مکالمے اور مباحثے عرب نوجوانوں کو اصلاح احوال کی ترغیب کے ساتھ ساتھ ایک بہتر مستقبل کی جانب کام کرنے کی تحریک بھی دیتے رہے ہیں۔ الجزیرہ کے اسی اپروچ اور کھلی فکر کی وجہ سے یہ چشم زدن میں عرب دنیا کا مقبول ترین چینل بن گیا کیونکہ اسکی آمد سے پہلے خبروں کے نام پر عوام کو سرکاری یاوہ گوئی یا ’’پروٹوکول نیوز‘‘ پر ہی ٹرخایا جاتا رہا ہے۔ اس ناکارہ اور بے وقعت مواد کا مقصد ناظرین کو کسی قسم کی آگاہی دینے کے بجائے ان سے ہر قسم کی معلومات کو مخفی رکھنا مقصود تھا تاکہ ان کو کسی بھی قسم کے مثبت سوچ و بچار اور انقلابی خیالات سے محروم رکھا جاسکے۔ یہی وجہ ہے کہ الجزیرہ روز اول سے ہی علاقائی آمروں اور حکمران خاندانوں کی آنکھوں میں کھٹکتا رہا ۔ اس تناظر میں شہزادہ بن زیاد کی جانب سے امریکیوں کو الجزیرہ پر بمباری کا مشورہ کوئی اچھنبے کی بات نہیں لگتی ۔ یہ بات بھی حیران کن نہیں کہ امریکہ نے عرب آمروں کے مطالبے پر الجزیرہ کے کابل اور بغداد میں واقع دفاتر پر بمباری کرکے نہ صرف انکو تباہ کردیا بلکہ بغداد حملے میں عملے کا ایک شخص جاں بحق بھی ہوگیا۔ قطر کا موجودہ محاصرہ اور الجزیرہ کو بند کرنے کا مطالبہ اصل میں ان ہی کوششوں کا تسلسل ہے جسکا مقصد خطے کے عوام میں کسی بھی قسم کی سیاسی اور سماجی بیداری پر روک لگانا مقصود ہے۔ وکی لیکس کے حالیہ انکشافات کی روشنی میں اس امر کی خصوصیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ قطر کے گرد گھیرا تنگ کرنے کا عمل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے فوراََ بعد عمل میں آیا۔ یہ بات عیاں ہے کہ امریکی انتظامیہ خطے میں رجعت پسند قوتوں کو نہ صرف بچانا چاہتی ہے بلکہ مستحکم بھی کررہی ہے کیونکہ مغربی طاقتوں کی جانب سے لگ بھگ ایک صدی پہلے خطے میں جو علاقائی ضابطہ ترتیب دیا گیا تھا اسکو بدلتے دیکھنے سے انکے اثر و نفوذ اور مفادات کیلئے خطرہ پیدا ہوگیا تھا ۔ اگرچہ خطے میں ایک نئی عرب بہار کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے مگر الجزیرہ پر جاری خبروں کی ترسیل اور مباحثے ایک بہتر مستقبل کیلئے کوشاں لاکھوں عرب نوجوانوں کی امیدوں اور خوابوں کو زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ کچھ بڑے ملک، اسرائیل اور مصر دیگر ممالک کے ساتھ ملکر پرانے اور پھپھوند زدہ نظام کو بچانے کیلئے الجزیرہ کے خلاف مل گئے ہیں تاکہ اسکو ختم کیا جاسکے اور یوں خطے میں کسی بھی قسم کے عوامی ارتعاش کو روکا جاسکے۔ الجزیرہ نیٹ ورک نے مشرق وسطیٰ کے علاوہ پوری دنیا میں پچھڑے طبقات کے کروڑوں عوام کو ایک مؤثر آواز اور تجسیم بخشی ۔ ان میں مسلمانوں کے علاوہ افریقی، سینٹرل امریکی اور خود مغرب میں بسنے والی اقلیتیں شامل ہیں۔ الجزیرہ کے انگریزی چینل نے دنیا کے کئی خطوں اور قومیتوں کے بارے میں نئے زاویوں سے رپورٹیں اور تجزیئےپیش کئے۔ مثال کے طور پر الجزیرہ کی افریقہ کے بارے میں رپورٹنگ نہایت ہی متوازن اور معتدل رہی ہے اور یہ مغربی میڈیا کے عین برعکس ہے جس میں عمومی طور افریقہ کو باہمی فسادات، بیماریوں، فوجی بغاوتوں، سماجی ابتری اور بد اعمالی کا مظہر اور منبع دکھایا جاتا رہا ہے۔ عالمی سطح پر الجزیرہ نے عربوں اور اسلام کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ کرنے کے ساتھ ساتھ مغرب اور عالم عرب میں مفاہمت کی انتھک کوششیں کی ہیں۔ موجودہ حالات میں جب مغرب میں اسلام دشمنی کی بڑھتی ہوئی فضا اور اسلام مخالف شدت پسند قوتوں کی طاقت بڑھ رہی ہے الجزیرہ کی مصالحت آمیز کوششیں امن عالم اور تہذیبوں کے مابین مکالمے اور مفاہمت کیلئے اور بھی اہمیت اختیار کرچکی ہیں۔ عالمی خبروں کی ترسیل میں توازن کیلئے بھی الجزیرہ کا وجود نہایت ہی اہم ہے کیونکہ ایک عالمی خبر رساں ادارے کے طور الجزیرہ کی اہمیت محکم اور مسلم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے اظہار آزادی ڈیوڈ کیے نے الجزیرہ کے خلاف ہونے والی کوششوں کو میڈیا کی تکثیریت کے خلاف گردانتے ہوئےاسکو میڈیا کی آزادی کیلئے ایک بہت بڑا خطرہ قرار دیا۔ انہوں نے خطے کی حکومتوں پر زور دیا کہ وہ میڈیا پر قدغنیں لگانے کے بجائے مشرق وسطیٰ میں آزاد ذرائع ابلاغ کی حوصلہ افزائی کریں۔
پس نوشت:روایتی طور پر سعودی عرب خطے کا لیڈر رہا ہے جسکی دو بنیادی وجوہات ہیں: ایک بے پناہ دولت اور دوم اسلام کی مقدس ترین زیارتوں کی نگہبانی۔ الجزیرہ سے پہلے علاقائی یا بین الاقوامی عرب میڈیا کا کنٹرول برادر ملک کے ہاتھ میں تھا مگر الجزیرہ کی آمد کے بعد خطے میں اس کا تذویری اختیار بہت کم ہوگیا۔ اس سے قطر کے تئیں سعودیوں کا حسدقدرتی طور پر بڑھ گیا۔
انہوں نے الجزیرہ کا اثرونفوذ کم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور اس کیلئے انہوں نے خبروں کے ساتھ ساتھ بالی وڈ اور ہالی وڈ کے درجن بھر چینلز لانچ کئے لیکن ان کو عوامی پذیرائی نہیں مل سکی۔ ان حالات میں ایک ہی آپشن بچتا ہے کہ وہ الجزیرہ اور اس سے وابستہ تمام خبر رساں اداروں پر مکمل پابندی کی کوشش کرے تاکہ میڈیا کے محاذ پر وہ اپنا کھویا ہوا اثر ونفوذ دوبارہ حاصل کرسکے۔

 

.

تازہ ترین