• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قومی اسمبلی کی ذیلی کمیٹی برائے ریلوے کے اجلاس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ راولپنڈی میں واقع ایک کارخانے، حکومتی اداروں اور بااثر افراد نے ریلوے کی سیکڑوں ایکڑ قیمتی اراضی پر قبضہ جما رکھا ہے جبکہ علاقہ پٹواری نے بھی ریلوے کی زمین ہتھیا رکھی ہے۔ کمیٹی نے ان تمام تجاوزات کے بارے میں تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ ریلوے حکام کا کہنا ہے کہ پٹواری نے ریونیو ریکارڈ میں ہیرا پھیری بھی کی ہے اور قبرستان پر بھی قبضہ کر رکھا ہے جو کہ ریلوے کی زمین کا حصہ ہے۔ حکام کا یہ بھی کہنا تھا کہ کراچی میں ریلوے کی 43ایکڑ زمین پر کچی آبادیاں قائم ہو گئی ہیں جبکہ حکومتی اداروں کا بھی یہاں22ایکڑ زمین پر قبضہ ہے۔ پاکستان ریلوے کے پاس نہ صرف لنڈی کوتل سے کراچی تک مین لائن کے ساتھ لاکھوں کنال قیمتی اراضی ہے جبکہ برانچ لائنوں اور کوئٹہ تا کراچی سیکشن اس کے علاوہ ہے۔ یہ بات نہایت غور طلب ہے کہ ملک بھر میں واقع ریلوے سٹیشنوں کی حدود میں ریلوے کے بڑے بڑے رقبے جو 1960 کی دہائی تک خالی پڑے تھے وہاں آج خالی زمین دکھائی نہیں دیتی بلکہ اس پر بڑے بڑے پلازے، دکانیں اور مارکیٹیں قائم ہیں۔ اس قبضے میں بااثر لوگوں کے ساتھ ساتھ ریلوے اہلکاروں کا عمل دخل بھی ہے بیشتر برانچ لائنیں دور دراز ہونے کے باعث ریلوے حکام کی نظروں سے اوجھل ہیں اور قبضہ گروپ ریلوے اہلکاروں کی ملی بھگت سے ریلوے کی اراضی اپنے تجارتی یا رہائشی تصرف میں لے چکا ہے۔ پاکستان ریلوے لائن کی مجموعی لمبائی 11881کلو میٹر جبکہ اس پر ریلوے سٹیشنوں کی تعداد 1286ہے۔ حکام اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ اتنے ریلوے سٹیشنوں کا کل رقبہ کتنا ہے اور اس میں سے ریلوے کے تصرف میں کس قدر ہے۔ ریلوے کے رقبے کا ملک گیر آڈٹ ہونا چاہئے اور پتا لگایا جانا چاہئے کہ قبضہ گروپ کے تصرف میں کتنا رقبہ ہے ان لوگوں سے یہ زمین واگزار کرانے کے علاوہ اس پر ناجائز قبضے کے جرم میں انہیں قید اورجرمانے کی سزائیں بھی عدالتوں سے دلوانی چاہئیں۔

تازہ ترین