• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کالم کے عنوان کو منتخب کرتے ہوئے مجھے مجیب الرحمٰن شامی بہت یاد آئے۔شامی صاحب کمال کے آدمی ہیں انہیں برسوں سے دیکھ رہا ہوں وہ شاندار صحافی کے ساتھ ساتھ شاندار مقرر ہیں، انہوں نے ہمیشہ عوامی نبض پر ہاتھ رکھ کر تقریریں کیں مگر آٹھ دس مہینے پہلے انہوں نے لاہور میں ایک تقریر ایسی کی جو حالات کا درست تجزیہ نہیں کر رہی تھی، اسی لئے وہاں تھوڑی سی بدمزگی ہوئی۔ ہر ایک کو بات کہنے کا حق حاصل ہے، آپ کی سوچ کے خلاف بھی ہو تو تب بھی بات سنی جانی چاہئے۔
آج کل میں سیاستدانوں کے جھوٹ خوب سن رہا ہوں، جھوٹ سن کر ہنستا ہوں، سوچتا ہوں کہ پاکستانی سیاستدان بھی کیا ہیں، ان کے سامنے پانی ہوتا ہے تو کہتے ہیں پانی تو نہیں ہے۔ ان کے سامنے آگ لگی ہوتی ہے مگر یہ کہتےہیں کہ آگ تو بالکل نہیں لگی ہوئی۔ یہ سیاستدانوں کا جھوٹ ہی تو ہے جس کے باعث پاکستان کا سیاسی نظام زوال پذیر ہے، آلودہ ہے، خود سیاستدان دشمن کے ہاتھوں میں کھیلتے ہیں اور پھر شکوہ کرتے ہیں کہ ہمارے خلاف سازشیں ہو رہی ہیں۔ پاکستان پر حکومتیں کرنے والے اپنے ملک کا کم اور اپنا زیادہ سوچتے ہیں یہی وجہ ہے کہ آج ان کے پیچھے لوگ نہیں نکلتے۔ اس کی تازہ ترین مثال مریم نواز کی پیشی ہے جہاں اقتدار اور کوششوں کے باوجود چار سو سے زیادہ افراد جمع نہ ہو سکے۔ اتنی کم تعداد میں لوگوں کا آنا یہ بتا رہا ہے کہ پاکستان کے لوگ اپنے ملک میں رائج عجیب و غریب سیاسی نظام سے تنگ آ چکے ہیں، میں نے اسے عجیب و غریب کیوں کہا ہے؟ یہ آگے چل کر بتائوں گا۔ پہلے ذرا جے آئی ٹی کے بیرونی منظر پر غور کر لوں۔ آپ اندازہ لگائیں کہ وفاق اور پنجاب پر مسلم لیگ ن کی حکومت ہے۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے میئر بھی مسلم لیگ ن کے ہیں، کئی دنوں کی تیاری کے باوجود صرف چار سو لوگ جمع ہوئے۔ اس بات کو چھوڑ دیں کہ ان میں کتنے ملازم تھے، کتنی خواتین ارسلہ سلیم جیسی تھیں۔ راولپنڈی کے ایک شادی ہال میں روزانہ کی بنیاد پر میٹنگیں ہو رہی تھیں مگر رزلٹ صرف چار سو۔ ان چار سو میں لاہوری گروپ بھی شامل تھا کیونکہ عظمیٰ بخاری، مریم نواز کے لئے گیت گا رہی تھیں۔ ایک زمانے میں عظمیٰ بخاری پیپلز پارٹی میں ہوا کرتی تھیں، آج کل ن لیگ کی ایم پی اے ہیں۔ چھ سات سال پہلے جب عظمیٰ بخاری پیپلز پارٹی چھوڑ کر ن لیگ میں شامل ہوئیں تو میں نے انہیں مبارکباد دی۔ عظمیٰ بخاری کو یقین نہیں آ رہا تھا کہ میں انہیں اس فیصلے پر مبارکباد دے سکتا ہوں، شاید اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ عظمیٰ بخاری کو پیپلز پارٹی کی مرکزی قیادت سے میرے مراسم کا علم تھا مگر میں نے پھر بھی انہیں یقین دلایا اور انہیں کہا کہ آپ کا فیصلہ درست ہے کیونکہ آپ لاہور میں رہتی ہیں، آپ پنجاب میں رہتی ہیں اور میرے خیال میں اگلے چند برسوں میں پنجاب میں پیپلز پارٹی کمزور ہوتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے۔ آج سے چھ سات برس پہلے میں نے ایسا کیوں کہا تھا کیونکہ حالات آپ کو بتا دیتے ہیں، موسم آپ کو بہت سی خبریں دے دیتا ہے۔ تازہ حالات یہی ہیں کہ پاکستان میں سیاسی موسم بدل رہا ہے، اس موسم کے بعد جو سیاسی چہرے نظر آئیں گے وہ یہ نہیں ہوں گے بلکہ کم از کم 80فیصد چہرے اور ہوں گے۔ اس کی بڑی وجہ پاکستان کے سیاسی نظام کا عجیب و غریب ہونا ہے۔ اب پاکستان کے لوگ موروثی سیاست سے دور ہوتے جا رہے ہیں جو بھارت میں نہرو اور پھر نہرو سے ہوتا ہوا گاندھی خاندان کے ساتھ ہوا ہے ویسا ہی بھٹو سے ہوتا ہوا زرداری خاندان کے ساتھ ہو رہا ہے، بالکل ایسا ہی شریف خاندان کیساتھ ہو گا۔ چارسدہ کے خاندان کی تصویر بھی مختلف نہیں ہو گی، اب نسلی سیاست ناپسندیدہ بنتی جا رہی ہے اور ہمارے سیاستدان قوم پر اپنے بچے مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ اب ایسا نہیں ہو گا، اب منظر اور ہو گا، پہلے سے بہت مختلف ہو گا۔ موسم تو دنیا میں بھی بدل رہا ہے، دنیا کی سیاست بھی تبدیل ہو رہی ہے، طاقت کا توازن بدل رہا ہے، پہلے جیسا نہیں رہا۔
امریکہ میں موجود بھارتی لابی پاکستان کے موجودہ حالات کو برقرار رکھنے کے لئے سرگرم ہے جب ایک انڈین وزیر نے امریکی سینیٹرز سے پاکستانی سیاستدانوں کے لئے مدد مانگی تو ان میں سے ایک سینیٹر جن کا تعلق شکاگو سے ہے انہوں نے کچھ پاکستانی دوستوں سے پوچھا کہ انڈیا اور پاکستان تو ایک دوسرے کے دشمن ہیں، کیوں انڈین پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لئے بے تاب ہیں شاید اس امریکی سینیٹر کو اس بات کا علم نہ ہو کہ راجستھان میں ایک بڑی شوگر مل کون لگا رہا ہے؟
امریکی کسی کی کیا مدد کریں گے کیونکہ امریکہ میں خود پریشانیوں کا راج ہے۔ امریکہ کی موجودہ حکومت کو کئی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ سب سے بڑی پریشانی خود ٹرمپ ہیں کیونکہ جس طرح پاکستان میں ایک سیاسی جماعت تھرو آر اوز اقتدار میں آئی اسی طرح ٹرمپ تھرو کمپیوٹر اقتدار میں آئے۔ انہوں نے اقتدار میں آتے ہی ایف بی آئی کے جیمز کومی کو برطرف کیا، جیمز کومی صرف ٹرمپ کے پیوٹن سے رابطے پکڑ رہا تھا، جب یہ معاملہ سینیٹ کی کمیٹی میں گیا تو وہاں بھی جیمز کومی کی باتیں درست دکھائی دینے لگیں۔ ٹرمپ نے چھ مسلمان ملکوں کے باشندوں کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگائی تھی جو برقرار نہ رہ سکی۔ ٹرمپ نے اوباما کی ہیلتھ انشورنس پالیسی ختم کی جس کے باعث امریکیوں نے اسے ہدف تنقید بنایا۔ ٹرمپ ہر چوتھے دن کوئی نہ کوئی متنازع ٹویٹ کر دیتا ہے جو ری پبلکن کے لئے بھی شرمندگی کا باعث بنتا ہے، اس سلسلے میں آخری ٹویٹ ایک خاتون صحافی کے بارے میں ہے۔ یہ اس قدر شرمناک ہے کہ امریکیوں کو شرم آ گئی ہے۔ ری پبلکن سنجیدگی سے سوچ رہے ہیں کہ وہ ٹرمپ سے کس طرح جان چھڑوائیں۔ اس سلسلے میں امریکی کانگریس کے اسپیکر پال رائن کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے، ہو سکتا ہے کہ اگلے امریکی صدر پال رائن ہوں۔
اقتدار میں رہنے والے لوگوں کو کچھ سمجھ نہیں آتی، وہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہمیشہ اسی طرح طاقتور رہیں گے حالانکہ تاریخ کا سبق ہے کہ ؎
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے

تازہ ترین