• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایسا محسوس ہورہا ہے کہ مرکزی حکومت جے آئی ٹی کے چکر میں اتنی پھنس گئی ہے کہ ان کو معلوم ہی نہیں کہ مختلف محکموں کے افسران ان محکموں کے معاملات حل کرنے کے لئے الٹے سیدھے اقدامات کررہے ہیں مگر شاید کابینہ کے وزیروں کو ان کی نگرانی کرنے کی مہلت ہی نہیں مل رہی ہے‘ اس کی تازہ ترین مثال انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) ہے۔ اس سلسلے میں کچھ ایسے فیصلے کیے جارہے ہیں جو ایک طرف ارسا کے قوانین کے خلاف ہیں۔ مثال کے طور پر اخباری اطلاعات کے مطابق ارسا کی انتظامیہ نے ارسا میں سندھ کے ممبر سید مظہر علی شاہ کی ممبر شپ اس بنیاد پر مسترد کردی ہے کہ ان کی عمر 65 سال سے دو سال زیادہ ہوگئی ہے‘ ارسا نے سید مظہر علی شاہ جو اب تک تین بار ارسا کے ممبر رہ چکے ہیں کی ممبر شپ ختم کرکے سندھ کے سیکرٹری آبپاشی کو سید مظہر علی شاہ کی جگہ ارسا کا چیئرمین مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا ہے حالانکہ سندھ کے صوبائی آبپاشی سیکرٹری ایک ہی وقت صوبے کے سیکرٹری آبپاشی اور ارسا کے چیئرمین کے فرائض سرانجام نہیں دے سکتے۔ اطلاعات کے مطابق اس اقدام کے بعد سندھ کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کو ایک ڈی او لیٹر لکھ کر یہ ایشو اٹھایا ہے‘ اس ڈی او لیٹر میں سندھ کے وزیر اعلیٰ نے موقف اختیار کیا ہے کہ ارسا میں کے پی کے رقیب علی خان جو 76 سال کے ہیں انہیں تیسری بار ارسا کا ممبر مقرر کیا گیا ہے۔ ذرائع کے مطابق ارسا میں سندھ کے ممبر کی ریٹائرمنٹ یا میرٹ ختم ہونے کی وجہ سے اپنی ذمہ داریوں سے الگ ہونے کے نتیجے میں اب ارسا میں ایڈہاک ممبران کی تعداد 3 ہوگئی ہے کیونکہ سندھ اور پنجاب کے ممبران فارغ ہونے کے بعد ارسا ایکٹ کے تحت ان صوبوں کے آبپاشی سیکرٹری اتھارٹی کے ایڈہاک ممبر ہیں۔ دریں اثنا امجد امتیاز ملھی نے کچھ دن پہلے فیڈرل فلڈ کمیشن کے چیئرمین کے عہدے سے ریٹائرمنٹ کے بعد یہ چارج چھوڑ دیا ہے جبکہ اس عہدے پر کام کرنے والے ارسا کے چیئرمین کی پوزیشن خالی ہونے کی صورت میں ارسا میں تین ماہ کے لئے ایڈہاک ممبر کے طور پر فرائض انجام دیتے ہیں۔ ارسا کے ذرائع کا خیال ہے کہ ایک ہی وقت ارسا میں تین ایڈہاک ممبران کی وجہ سے ارسا کی کارکردگی پر منفی اثر پڑسکتا ہے۔ ارسا کے بارے میں شروع دن سے سندھ کتنا حساس رہا ہے اس کا اندازہ ان لوگوں کو ہوگا جو ارسا کے وجود میں آنے کے پس منظر سے واقف ہیں۔ دراصل ارسا کی تشکیل سندھ کی تجویز کے نتیجے میں عمل آئی‘ میں اس وجہ سے یہ بات کرتا ہوں کہ میں اس پس منظر سے ذاتی طور پر آگاہ ہوں۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے عوام کو اس پس منظر کے بارے میں مکمل معلومات فراہم کی جائیں۔ ارسا کی تجویز پی پی کے ایک اہم رہنما پی کے شاہانی نے سندھ کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ جام صادق علی کے کہنے پر تیار کرکے اس کے حوالے کی تھی۔ پی کے شاہانی سندھ کے چند بڑے دماغوں میں سے ایک تھے‘ ایک دن میں حیدرآباد سے کراچی آرہا تھا کہ راستے میں مجھے پی کے شاہانی کی رفاقت نصیب ہوئی اور کراچی کے لئے باقی سفر میں نے ان کے ساتھ ان کی کار میں کیا‘ سفر کراچی کی طرف رواں دواں تھا‘ اس دوران ہم مختلف ایشوز پر تبادلہ خیال کررہے تھے۔ سفر کے دوران اچانک میں نے پی کے شاہانی سے پوچھا کہ جام صادق سے ملاقات ہوتی ہے تو انہوں نے یہ انکشاف کیا۔ انہوں نے بتایا کہ ایک دو ہفتے پہلے وزیر اعلیٰ جام صادق کا ٹیلی فون آیا اور بات چیت سے محسوس ہوا کہ جام صادق کافی مایوس ہیں بقول پی کے شاہانی‘ جام صادق نے کہا کہ میں جلد آپ سے مل کرکچھ اہم ایشوز پر مشورہ کرنا چاہتا ہوں لہٰذا بقول پی کے شاہانی دوسرے دن جام صادق سے مقرر کیے گئے وقت پر وہ سی ایم ہائوس پہنچ گئے اور جیسے ہی ان سے ملاقات ہوئی وہ انہیں بازو سے پکڑ کر دوسرے کمرے میں لے آئے اور ہدایات دیں کہ فی الحال کوئی بھی اس کمرے میں نہ آئے۔ پی کے شاہانی نے بتایا کہ دونوں ایک دوسرے کے سامنے صوفوں پر جاکر بیٹھے اور جب انہوں نے جام صادق کی طرف دیکھا تو ظاہر ہورہا تھا کہ وہ خاصے پریشان ہیں۔ بہرحال جام صادق نے فوری طور پر اپنی پریشانی کے اسباب بیان کیے۔ بقول پی کے شاہانی جام صادق کا کہنا ہے کہ صوبوں کے درمیان پانی کے معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے کافی کام ہوچکا ہے‘ سمجھ لیں کہ کسی بھی وقت اس پر دستخط ہوسکتے ہیں‘ یہ کہہ کر جام صادق نے بڑی سنجیدگی سے پی کے شاہانی کی طرف دیکھا اور کہنے لگے کہ میں نے متفقہ طور پر پانی کے معاہدے کو آخری شکل دینے کیلئے وزیر اعظم کی ہر بات مانی ہے مگر مجھے اندیشہ ہے کہ سندھ کے عوام اسے قبول نہیں کریں گے۔ پانی کے معاہدے پر دستخط ہونے کے بعد میں ہوسکتا ہے کہ زمینداروں کے دو اہم اداروں یعنی سندھ چیمبر آف ایگریکلچر اور سندھ آبادگار بورڈ کے بڑوں کو کسی طرح راضی کرلوں مگر اس کے باوجود سندھ کے اندر اس کے خلاف کافی غم و غصہ پیدا ہوسکتا ہے‘ لہٰذا پی کے شاہانی نے کہا کہ جام صادق نے ان سے التجا کی کہ وہ ایک ایسی تجویز تیار کریں جس کو پانی کے معاہدے کا حصہ بنانے کے بعد معاہدے میں کافی حد تک توازن پیدا ہوجائے۔ اس کے جواب میں پی کے شاہانی نے جام صادق سے چند دن مانگے تاکہ وہ اس سلسلے میں ضروری فارمولا تیار کرسکیں‘ دو تین دنوں کے بعد پی کے شاہانی نے فارمولا جام صادق کے حوالے کیا جسے پڑھ کر جام صادق کافی مطمئن ہوئے‘ اس فارمولے کی خاص خاص باتیں یہ تھیں کہ اس معاہدے کے تحت صوبوں میں پانی کی تقسیم کی ذمہ داری واپڈا کی نہیں ہوگی مگر اس کیلئے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے نام سے ایک نیا ادارہ قائم کیا جائے گا‘ ارسا میں ہر صوبے سے ایک ممبر لیا جائے گا‘ میری معلومات کے مطابق اس فارمولے میں یہ بھی تجویز کیا گیا تھا کہ ارسا کا چیئرمین Rotation کی بنیاد پر باری باری چاروں صوبوں سے لیا جائے گا اور ارسا کا ہیڈ کوارٹر سندھ کے شہر سکھر میں ہوگا‘ بعد میں جب جام صادق نے یہ فارمولا وزیر اعظم کو پیش کیا تو پنجاب کے حکام نے فارمولے کی باقی شرائط کو تو کسی نہ کسی طرح منظور کرلیا لیکن اس بات کو منظور نہیں کیا گیا کہ ارسا کا ہیڈ کوارٹر سکھر میں ہوگا‘ اس کے بجائے ارسا کا ہیڈ کوارٹر لاہور میں قائم کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ اس سلسلے میں یہ دلیل دی گئی کہ ہندوستان سے ڈیٹا کا تبادلہ لاہور سے ہی ہوسکتا ہے۔

تازہ ترین