• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آج انتظار حسین زندہ ہوتے اور انڈین جج کا موروں کے بارے بیان سنتے تو وہ ہنستے ہنستے بے حال ہوجاتے ، بیان کیا ہے لطیفہ ہے کہ مور، مورنی کے ساتھ جفتی نہیں کرتا ، مور کے پر پھیلانے کے بعد جو آنسو گرتے ہیں، مورنی انکو پی جاتی ہے اور اسکو حمل ٹھہر جاتا ہے۔ ایسے لطیفے ، انڈیا میں خاص کر گائے کے حوالے سے بہت ہورہے ہیں۔ کوئی گائے سے فال نکلوارہا ہے ، کوئی اسکے پیشاب میں عمر بڑھانے کے طریقے ڈھونڈ رہا ہے اور کوئی جھوٹ موٹ خبر سنکے بھی کہ گائے کا گوشت کھایا گیا ہے ، مسلمانوں کو مرنے مارنے پر تل جاتا ہے ۔ باقی دوسرے مسائل یعنی غربت ، جہالت ، یہ تو بھلا دیئے گئے ہیں۔مسلمانوں سے تنگ ہوکر، دلت کی جانب رخ کرتے ہیں ، کبھی انکاگھر جلاتے ہیں اور کبھی لڑکیوں کو بے عزت کرتے ہیں۔ یہ آر ایس ایس کا وہ ابال ہے جوستر برس میں پکتا رہا ، بالکل جیسے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک داعش کو پالتے رہے، اب جب وہ جنونی انکوبھی برباد کرنے کے در پے ہیں تو اپنی بادشاہت بچانے کے لئے39ملکوں کی فوج بنالی ، آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا۔
ان ساری باتوں سے منہ کا ذائقہ خراب ہوگیا ۔ آئیے ذائقہ بدلنے کے لئے ،وقار عظیم کے بارے میں ، اختر وقار عظیم کی کتاب لطف لیکر میرے ساتھ پڑھتے جایئے۔اس پوری کتاب میں ، مجھے تو سید صاحب کی خودنوشت کا باب بہت پسند آیا، انہوں نے جن عظیم ہستیوں سے پڑھا اور جوانکے ساتھ پڑھتی رہیں۔ یہ پڑھکر کچھ جلن سی بھی محسوس ہوئی کہ آخرہم لوگ انکے زمانے میں پیدا کیوں نہیں ہوئے ۔ فراق گور کھپوری، علی عباس حسینی، غلام السید ین،ڈاکٹر ذاکر حسین،آل احمد سرور اور جذبی صاحب کے علاوہ بہت معتبر شخصیات سے ملاقاتیں ہی نہیں ہوئیں ۔ ان اساتذہ نے انکو نہ صرف آگے بڑھنے کے لئے رہنمائی کی بلکہ پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کے لئے ، کبھی ترجمہ کرنے ، کبھی کوئی تحقیقی مضمون لکھنے پر مائل کیا اور شاہ صاحب کو یہ حوصلہ دیا کہ پڑھائی اور ہوسٹل کے اخراجات وہ خود یوں محنت کرکے ، پورا کریں۔ یہاں انکے والد کی جانب سے مدد کی ممانعت نہیں تھی ، بلکہ انکی خود اعتمادی نے گوارا نہ کیا کہ جو پچاس روپے گھر سے لیکر چلے تھے، اسکے علاوہ کبھی والد صاحب سے کچھ مانگیں کمال یہ ہے کہ انکے زمانے کے جید استاد ، خود بتاتے تھے کہ اس موضوع پر لکھو، یہاں داخلہ لو اور وہاں نوکری کرو کہ بہتر تنخواہ مل جائے۔
سید وقار عظیم کے بارے میں صوفی تبسم سے مل کر ڈاکٹر عبادت بریلوی، سجاد باقر رضوی اور اصغر ندیم سید کے علاوہ خود اختر نے بابا کو بہت محبت اور عقیدت سے یاد کیا ہے۔ بہت سے مجھ جیسے لوگ جنہوں نے ان سے پڑھا نہیں، ان سے ملاقات کا شرف حاصل کیا ، انہوں نے پرانے زمانے کے استادوں اورسیدوں کی سفید پوشی کوجن لفظوں میں یاد کیا، اس پر رشک آتا ہے۔ آج بھی اردو افسانے اور داستان پر جس شخص کا نام حرف آخر کے طور پرلیاجاتا ہے وہ ہیں سید وقار عظیم۔
اب تحریروں کا کمال تھا کہ مجھے بھی زیادہ تر لکھنے والوں کی رفاقت کے لمحات اور زمانہ یاد تھا کہ میں بے پناہ گرمی کے باوجود ، یادوں کے یہ ورق الٹتے الٹتے ان صفحات کی جانب پہنچ گئی جہاں خاندانی شجرہ درج تھا ۔ وہ جیسے کہتے ہیں کہ کشمیریوں کی نانی ، دادی ایک ہوتی ہے، اسی طرح کہاجاتا ہے کہ سیدوں کا شجرہ بھی ایک دوسرے سے ملتا ہے۔ مجھے یاد آیا، میرےپھوپھی زاد بھائی نے بھی مجھے شجرہ بناکر دیاتھا، میری جیسی نالائق ، اسے کہیں رکھ کر بھول گئی ہوں۔
ایک اور کتاب جو علمیت کے لحاظ سے ، ایک ایک سطر، معلومات کے ذخائر سے مالا مال ہے ۔ وہ بھی پڑھنی شروع کی مگر دودن میں اسکے صرف ابتدائی 40صفحات پڑھ سکتی ہوں۔ یہ خزینہ علم اشفاق سلیم مرزا نےفلسفے کی کہانی کو میکاولی سے گرامچی تک بیان کرتے ہوئے، ارسطواور افلاطون کے بنیادی حوالوں سے یہودیت اور عیسائیت سے آگے بڑھتے ہوئے آگسٹائن سے اکیونس کا نظام، اس زمانے کی اخلاقیات، معاشرہ اور سیاست کوبیان کرتے ہوئے ، سارے مذاہب اور معاشرتوں کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے مجھے کتاب پڑھتے ہوئے اپنے پیارے بیٹے تیمور رحمان کے ٹی وی پر فلسفے کے لیکچر بار بار یاد آتے رہے، وہ بہت آسان الفاظ میں بات کرتا ہے جبکہ مرزا صاحب تعقل ، فلسفہ کے علاوہ ایک مثالی ریاست کی مبادیات اور ریاست کی طرز حکمرانی کیسا ہوناچاہیے یا کیسا رہا ہے، اسکا تجزیہ کرتے ہوئے ، جب وہ کہتے ہیں کہ ’’ انسانوں میں برابری کے لئے اصرارکرنا ، عین خلاف فطرت ہے ، تو میری انکی بحث لڑائی تک پہنچ جاتی ہے۔ پھر جب تسلی دیتے ہوئے وہ کہتے ہیںکہ آرام سے پڑھو ساری کتاب،پھر بحث کرنا ۔ بہرحال سات سال کی محنت سے لکھی ہوئی کتاب ، یقیناً سات دن میں نہیں پڑھی جاسکتی ہے۔ جب میں بحث کرتی ہوں کہ ان سارے فلاسفرز اور محققین پر تو بازار میں سینکڑوں کتابیں میسر ہیں، آپ کی مشکل کتاب کیوں پڑھیں۔ تو وہ بڑے صبر سے کہتے ہیں کہ میں نے ان تمام فلاسفرز اور محققین کی تشریحات کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ انہوں نے کہا گرامچی کا389صفحے پردیا ہوا خط پڑھ لو اسمیں لکھتا ہے میری ساری سرگرمی اسی مستقل مکالمے سے بندھی ہوئی ہے اسلئے میرے لئے بغیر کسی غایت کے سوچنا بیکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ مطالعہ ایک بیکار بات ہے ( یعنی جب تک اسکا کوئی ہدف نہ ہو) عمومی طور پر مجھے کسی مکالمے میں مصروف ہونا ہوتا ہے۔ مجھے اس مکالمے کے لئے ایک مخاطب چاہیے ایک جیتا جاگتا ٹھوس مدمقابل یا مخالف جس سے میں مکالمہ کرسکوں۔ زندہ باد مرزا صاحب۔

تازہ ترین