• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف نے گزشتہ روز قومی کرکٹ ٹیم کے اعزاز میں منعقدہ تقریب میں اپنی کرکٹ لائف کے حوالے سے بھی چند برجستہ فقرے کہے موجودہ حالات کے تناظر میں ان فقروں کے مختلف مطلب نکالے جاسکتے ہیں اور یار لوگوں نے اپنے ٹی وی چینلز پر اپنے اپنے ٹاک شوز میں ایسا کیابھی ہے، وزیر اعظم کے کہے ہوئے کچھ فقروں کا ہم بھی مطلب بیان کئے دیتے ہیں تاکہ میڈیا جو کہ ریاست کا چوتھا ستون گردانا جاتا ہے ، کہ ستون میں ہماری طرف سے بھی ایک آدھ اینٹ نصب ہوجائے، وزیر اعظم کا یہ کہنا کہ ہم تو صرف وزیر اعظم کا ٹائٹل رکھتے ہیں اصل ہیروز تو آپ ہیں ، میرے خیال میں ان کا کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ہمارے وزیر اعظم کا ٹائٹل تو ہے لیکن ہم تو عوام کے خادم ہیں اور وزیر اعظم کے ٹائٹل سے ہیرو والا تاج حاصل نہیں کرسکتے ،اصل ہیروز تو آپ ہیں جنہوں نے کھیل کے میدان میں جیت سے ملک کا وقار بلند کرکے وہ کچھ حاصل کرلیا ہے جو وزیر اعظم کا طاقت ور پورٹ فولیو رکھنے کے باوجود ایک وزیر اعظم حاصل نہیں کرسکتا، ایک اور فقرے میں وہ موجودہ حالات کے تناظر میں یہ کہنا چاہتے تھے کہ مجھے کرکٹ کی دنیا میں جب کوئی باؤنسر مارتا تھا تو میں اسے چھکا ماردیتا تھا اور اگر چھکانہ بھی لگتا تو وہ چوکا ضرور ہوجاتا ، لیکن چوکے چھکے کے ساتھ انہوںنے بعض اوقات باؤنڈری پر کیچ آؤٹ ہونے کے خدشے کو بھی چھپایا نہیں اور صاف صاف کہہ دیا کہ وہ باؤنڈری پر کیچ آؤٹ بھی ہوجاتے تھے۔ میرا خیال ہے انہوںنے یہ فقرہ اس لئے فرمایا ہے کہ وہ اس وقت دیکھ رہے ہیں کہ باؤنڈری پر چاروں طرف فیلڈرز ہاتھ اٹھانے کی بجائے بڑے بڑے تھیلے اور بوریاں لے کر کیچ اچکنے کیلئے تیارکھڑے ہیں لیکن وزیر اعظم کا سب سے زور دار فقرہ جسے کچھ یار لوگ شعر سے تعبیر کررہے ہیں ’’گزرا ہوا کل بھی اپنا تھا اور آنے والا کل بھی اپنا ہے ‘‘ یہ واقعی ایک زبردست فقرہ اور ماضی حال اور مستقبل کا پورا خلاصہ تھا، صوبائی وزیر سے وزیر اعلیٰ اور پھر وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچنا یقیناً ایک بہترین کل ہے اور اس دوران سیاسی طور پر خودساختہ جلاوطنی اور دوبارہ زیرو سے وزیر اعظم ہاؤس تک پہنچنا آنے والے کل کی ایک بہترین کامیابی تھی جبکہ سارے سیاسی ’’جماندرو‘‘ نواز شریف کو سیاسی طور پر ’’ختم شد‘‘ قرار دے چکے تھے ،آج تو مسلم لیگ(ن) ایک مختلف پارٹی بن چکی ہے ، کیونکہ اس پارٹی کے ساتھ جڑے ہوئے مفاد پرست بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اگر شریف خاندان زیرو سے دوبارہ اقتدار میں واپس آسکتا ہے تو اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ اقتدار سے باہر ہونے کے بعد بھی ’’پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ‘‘ کا فا ر مو لہ اپنا تے ہو ئے کل کا انتظار کر سکتے ہیں اور ہوسکتا ہے کہ اس کل کے حصو ل تک تھوڑا وقفہ آجائے لیکن مریم نواز شریف، حسین نواز اور حسن نواز کی پانامہ اور جے آئی ٹی میں جو تربیت ہوئی اور اس کے جواب میں بغیر سکرپٹ کی پرچیوں کے جس طرح انہوںنے منہ زور میڈیا کا سامنا کیا یا ان کے سامنے اپنا مدعا بیان کیا وہ اس بات کا پختہ اشارہ ہے کہ نواز شریف کے سیاسی وارث نہ صرف اس کے گھرمیں موجود ہیں بلکہ وزیر اعلیٰ ہاؤس سے وزیر اعظم ہاؤس کے ڈائنگ ٹیبلز پر بیٹھ کر جو تربیت حاصل کی ہے ، اس تر بیت کے اعتماد کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے ، عدالتوں اور جے آئی ٹی کے پھینٹے نے انہیں مزید مضبوط اور پر اعتماد بنادیا ہے جو آنے والا کل حاصل کرسکتے ہیں۔ہوسکتا ہے کچھ لو گ یہ کہیں کہ وزیر اعظم کے ’’کل‘‘ یعنی بچو ں نے عدالتوں اور جے آئی ٹی میں پیشی کے بعد جو گفتگو کی ہے وہ سچ پر مبنی نہیں تھی تو میں یہ کہوں گا کہ ہما رے ملک میں سیا ست کا پیما نہ جھو ٹ سچ نہیں ہے بلکہ اپنے جھو ٹ کو بھی سچے اور اچھے انداز میں پیش کر نے کا فن ہما ری سیا ست کا اصل پیما نہ ہے۔اس سا ری بحث سے ہٹ کر میں یہ کہو ں گا کہ بد ھ کے روز جے آئے ٹی کے با ہر محترمہ مر یم نواز کی صو رت میں وزیر ا عظم کے ’’کل ‘‘ کا آغا ز ہو چکا ہے۔
twitter:@am_nawazish
SMS رائے: #AMN (SPACE)پیغام لکھ کر 8001پر بھیجیں

تازہ ترین