• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میائوں میائوں کی آوازیں تو پہلے ہی آنا شروع ہو گئی تھیں بالٓاخر، اب بلی بھی تھیلے سے باہر آ گئی ہے۔ جے آئی ٹی کی جو رہی سہی ساکھ تھی حالیہ خبروں سے وہ بھی خاک ہو گئی۔ زیادہ عرصہ نہیں ہوا میرا خیال تھا کہ جے آئی ٹی اور شریف خاندان کے خلاف سپریم کورٹ کی موجودہ کارروائی کو باوجود خامیوں کے سپورٹ کرنا چاہئے کیونکہ ہمارے ہاں مثالی احتساب تو ہو نہیں سکتا کہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن جو خبریں تواتر سے آ رہی ہیں اپنی رائے پر قائم رہنا مشکل ہوچکا ہے۔ جے آئی ٹی کا انتظام و انصرام کسی خاص ادارے کے سپرد کرنے اور سپریم کورٹ کے عملدرآمد بنچ کی طرف سے اسکی اجازت دیئے جانے والی خبراونٹ کی کمر پر آخری تنکے کے مترادف تھی۔ خبر کیا تھی، بس دل ہی ٹوٹ گیا۔
خیال تھا کہ ہزاروں وکیلوں اور لاکھوں لوگوں کی قربانیوں کے بل بوتے پر کامیاب ہونے والی وکلا تحریک کے نتیجے میں جو آزاد عدلیہ وجود میں آئی ہے وہ جمہوری عمل کی مدد گار ہو گی اور وہ کرپٹ حکمرانوں کا شفاف اور بے رحمانہ احتساب کرے گی، اور عدلیہ کے اس عمل کو چونکہ مکمل عوامی حمایت حاصل ہے اس لئے اسکے سخت فیصلوں پر عمل درآمد کی راہ میں بھی زیادہ رکاوٹ نہیں ہو گی۔ لیکن سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔
افسوس حکمرانوں کی کرپشن پکڑنے اور انہیں سزا دینے کا یہ سنہری موقع ضائع کر دیا گیا ہے۔ پانامہ اسکینڈل پر ہونے والی کارروائی میں نہ تو شفافیت کا عنصر باقی بچا ہے اور نہ ہی اسے بے رحمانہ کہا جا سکتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ اسے دو طاقتور مقتدر گروہوں کے درمیان اقتدار و اختیار کی جنگ کہا جا سکتا ہے جسکا میدان جنگ سپریم کورٹ کو بنا دیا گیا ہے۔ لیکن قطع نظر اس بات کے کہ اس لڑائی میں سے کون فتح یاب ہو کر نکلے گا، اداروں کی ساکھ اس لڑائی سے پہلے ہی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ اس سے تھوڑا پیچھے چلے جائیں تو ایک روز ایک خبر نے چونکا دیا، سیاق و سباق تو کچھ اور تھا لیکن اچانک ایک روز ارشاد ہوا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ کو خفیہ رکھا جائے گا۔ اس سے پہلے خبریں آ چکی تھیں کہ جے آئی ٹی کے ممبران کا جس طریقے سے انتخاب ہوا وہ بھی اتنا غیر خفیہ نہیں تھا۔ اس سے بھی پہلے جب جے آئی ٹی میں خفیہ اداروں کے ارکان کو شامل کیا گیا تو پاکستان کی سیاسی تاریخ میں خفیہ اداروں کے کردار کے باعث بہت سے ابروئوں میں جنبش ہوئی۔ تھوڑا مزید پیچھے چلے جائیں تو پانامہ اسکینڈل آنے کے بعد ایک لمبے عرصے تک عدلیہ ہچکچاہٹ کا شکار نظر آئی، حتی کہ پانامہ لیکس پر سپریم کورٹ میں کیس دائر ہونا شروع ہو گئے۔ لیکن کیس دائر ہونے کے باوجود ہچکچاہٹ برقرار رہی۔ پھر اچانک اسلام آباد کو لاک ڈائون کرنے کی کال آ گئی۔ وہ کال کہاں سے آئی اس بارے میں بھی قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ اچانک پانامہ کیس کی تاریخ آ گئی۔ اس طرح کیس کے فکس ہونے کو بھی اتنا اوپن اور صاف ستھرا نہیں سمجھا گیا۔ اور اب بلی تھیلے سے باہر آگئی ہے۔
جدید جمہوری تصور کی رو سے انصاف اور خفیہ کارروائی ایک دوسرے کے دشمن ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ انصاف نہ صرف ہونا چاہئے بلکہ انصاف ہوتا نظر بھی آنا چاہئے۔ لیکن اگر خفیہ طریقوں سے اہم فیصلے کئے جائیں، خفیہ طریقے اپنائے جائیں۔ عوام اور میڈیا سے انہیں چھپانے کی کوشش نظر آئے اور جب خبروں اور لیکس کی صورت خفیہ چیزوں کی بھنک عوام کو پڑنا شروع ہو جائے تو بھی خفیہ کارروائی کی روش نہ چھوڑی جائے تو انصاف ہوتا تو کیا نظر آنا ہے، کچھ اور ہوتا نظر آنے لگتا ہے۔ وہ جو نہیں ہونا چاہئے، وہ جو پچھلے ستر سال سے ہو رہا ہے اور وہ کہ جس نے ملک و قوم اور قومی وحدت کی چولیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
اب نواز شریف کو اگر سزا مل بھی گئی تو اسے انصاف سے تعبیر نہیں کیا جا سکے گا، اسے وہی کچھ کہا جائے گا جو بھٹو کے ساتھ ضیا الحق نے کیا، جو بینظیر نے نواز شریف اور نواز شریف نے بے نظیر کے ساتھ نوے کی دہائی میں کیا، جی ہاں! وہی جو پانچ سال تک زرداری حکومت کے ساتھ کیا گیا اور وہی جو مشرف کی سنگین غداری کو عدالتی دہلیز تک لے جانے کی نواز شریف کی "جرات" کے بعد سے موجودہ حکومت کے ساتھ ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مریم نواز شریف جے آئی ٹی کے سامنے اپنا سیاسی کیرئیر لانچ کر رہی تھیں تو بجائے پانامہ اسکینڈل کے دھبے سے داغدار ہونے کی وجہ سے انکا شو فلاپ ہونے کے، الٹا انکو زیادہ پذیرائی ملی۔ "تدبیریں" کرنے والے منہ تکتے رہ گئے کیونکہ ایک دفعہ پھر انکی تدبیریں الٹی ہو گئیں، اس سلسلے میں انہوں نے اپنا پچھلا ستر سالہ ریکارڈ برقرار رکھا۔
تدبیریں کرنے والےباز نہیں آئے اور نتیجتا اصل مسئلہ وہیں کا وہیں رہ گیا۔ نواز شریف سے منسوب غیر ملکی کمپنیوں اور اثاثےسامنے آنے کے بعد حکمران طبقے کی لوٹ مار پکڑے جانے کا امکان معدوم ہو گیا۔ اب نواز شریف ایک مظلوم سیاستدان ہیں اور مریم نواز قوم کی بیٹی۔ کیا نواز شریف کا دامن صاف ہے؟ اس سوال پر پھر گرد پڑ گئی۔ وہ ملک جہاں سرکاری دفتر کے ایک نائب قاصد کا دامن صاف نہیں ہوتا وہاں اسی سرکار پر تیس سال سے حکومت کرنے والے کا دامن کیسے صاف ہو سکتا ہے لیکن شاید یہی ہماری قسمت ہے۔ ہم میں سے ہر کوئی جو خود موقع ملنے پر "مجبور" ہو جاتا ہے اور دوسروں کی کرپشن پر جل بھن جاتا ہے، اسی طرح کے حکمرانوں کا مستحق ہے۔ تدبیریں کرنے والوں کی کرم فرمائی سے کرپشن کے ساتھ ساتھ پاکستان کی جمہوریت کو موروثیت کا داغ بھی جھیلنا ہو گا۔ جیسی قوم ویسے حکمران ۔

تازہ ترین