• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں اس دعوت شیراز پر حیران تھا۔ مجھے پیغام ایس ایم ایس کے ذریعے ملا تھا۔ ملک سے باہر رہنے کی وجہ سے میں کافی معاملات سے بے خبر بھی تھا۔ پھر ملک میں آنے کے بعد سے پاناما کا مقدمہ ہمارے میڈیا پر چھایا ہوا ہے اور فریقین، لگتا ہے کہ وہ سب ہی پریشان اور حیران ہیں۔ میں نے ایس ایم ایس کرنے والے محترم کو مطلع کیا کہ میں اس دعوت کو قبول کر رہا ہوں۔ اگرچہ انہوں نے اپنا پتا تو لکھا تھا اور وقت بھی درج تھا مگر میں علاقہ کے بارے میں تسلی چاہتا تھا۔ پہلے میں نے کنفرم کیا کہ جناب عرفان الحق جہلم شہر سے تشریف لائے ہیں پھر مجھے سب کچھ یاد آنے لگا۔ کافی سال پرانی بات ہے میرے کرم فرما جناب سید انور قدوائی نے مجھ سے عرفان الحق صاحب کا تذکرہ کیا۔ ان کی دو تین کتابیں بھی مارکیٹ میں دستیاب تھیں اور اسلام کے حوالے سے لوگوں میں مقبول ہو رہی تھیں۔ اسی زمانے میں سید انور قدوائی کے ساتھ جہلم شہر کے گردو نواح میں کسی مزار پر جانے کا اتفاق ہوا۔ ہم گئے تو موٹر وے سے تھے مگر واپسی جی ٹی روڈ سے ہوئی۔ جب موٹر وے سے جی ٹی روڈ کے لئے سفر کر رہے تھے تو قدوائی صاحب نے مجھ سے پوچھا کہ آپ کے پاس عرفان الحق صاحب کا فون نمبر ہے۔ میرے پاس فون نمبر نہیں تھا تو انہوں نے ڈاکٹر صغریٰ صدف کو فون لگانے کا حکم دیا اور ڈاکٹر صغریٰ صدف سے رابطہ کیا اور بابا جی عرفان الحق کا فون نمبر لے کر رابطہ کی کوشش کی پھر جہلم شہر آ گیا۔ لوگوں سے پوچھ پوچھ کر ہم بابا جی عرفان الحق کے آستانہ پر پہنچ ہی گئے۔ ان کے متعلقہ لوگوں سے ملاقات کی درخواست کی اور ملاقات ہو گئی۔ اس کے بعد بھی عرفان الحق صاحب سے رابطہ رہا اور دو تین ملاقاتیں بھی ہوئیں۔ اس زمانہ میں عرفان الحق کا ایک مضمون جو پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے ہے، قدوائی صاحب نے پمفلٹ کے طور پر چھاپ کر صاحب ذوق لوگوں میں تقسیم کیا مگر عرفان الحق صاحب کی طرف سے کچھ شکایت کی اطلاع ملی مگر اس معاملہ کو قدوائی صاحب نے ہینڈل کیا۔ پھر مجھے ملک سے باہر جانا تھا اور جب واپس آیا تو کچھ دن بعد ہی قدوائی صاحب ہمارا ساتھ چھوڑ گئے۔
اب اتنے عرصہ کے بعد رابطہ اور دعوت، مجھے ملنے کا شوق بھی تھا مگر کیوں؟ اس کا جواب میرے پاس نہ تھا۔ جن صاحب نے دعوت کے لئے ایس ایم ایس کیا ان سے بات کی اور پوچھ ہی لیا کہ میرے علاوہ اور کون لوگ اس ناشتہ میں مدعو ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہو سکتا ہے آپ کے علاوہ دو تین لوگ اور بھی ہوں۔ خیر میں نے ان کو اطمینان دلایا کہ میں مقررہ وقت پر حاضر ہو جائوں گا۔
میں سوچ رہا تھا کہ اور کون کون سے لوگ ہو سکتے ہیں۔ خیر کچھ دن پہلے ہی عرفان الحق کا ایک ٹی وی پروگرام دیکھنے کا اتفاق ہوا اور یہ پروگرام گزشتہ چند مہینوں سے نشر ہو رہا ہے۔ میں سب کچھ سوچتا ہوا وقت مقررہ پر ان کی قیام گاہ کے قریب پہنچا اور میزبان سے رابطہ کیا پھر ان کی رہنمائی سے میں عرفان الحق صاحب کے سامنے حاضر تھا۔ عرفان الحق صاحب نے کمال شفقت سے استقبال کیا۔ حال احوال پوچھا۔ ابھی تک دیگر مہمان نہیں آئے تھے اور موقع ایسا تھا کہ گفتگو اور رفاقت میں کوئی اور حائل نہ تھا۔ میں نے ان سے پوچھ ہی لیا کہ ان کے ٹی وی پروگرام سے لوگ کس حد تک دین سے متاثر ہوتے ہیں اور آپ کس مسودہ کو پیش نظر رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کوئی مسودہ نہیں ہوتا بس موضوع پر بات کرتا ہوں اور لوگ اس پروگرام کو کافی پسند کرتے ہیں۔
پھر انہوں نے اپنے مقامی میزبان سے کہا بھئی ڈاکٹر امجد ثاقب فون نہیں سن رہے تم ان کو فون کرو۔ ابھی یہ بات ہو ہی رہی تھی کہ ایک صاحب کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کا تعارف عباسی کے حوالے سے تھا۔ وہ سرکار کے اعلیٰ عہدیدار تھے اور بابا عرفان الحق سے بہت ہی متاثر لگ رہے تھے اور بہت ہی مودب رہے کہ اتنے میں اطلاع آئی ڈاکٹر امجد ثاقب بھی آ گئے ہیں۔ یہ میری ڈاکٹر امجد ثاقب سے پہلی ملاقات تھی۔ ڈاکٹر امجد ثاقب غیرسرکاری تنظیم ’’اخوت‘‘ کے روح رواں ہیں اور قابل تعریف لکھاری بھی۔ میں نے ان کا ایک سفرنامہ پڑھ رکھا تھا اور ان کی تازہ کتاب جو چنیوٹ شہر کے شیخ صاحبان پر ہے انہوں نے خوب لکھی ہے۔ خاصی دلچسپ اور نادر تحریر ہے۔ امجد ثاقب سے بھی گفتگو کافی اچھی رہی اگرچہ وہ مجھ سے متفق نہ تھے۔ وہ انٹرپنور شپ کے ذریعے غریب طبقوں کو بدلنے کا جتن کر رہے ہیں۔ ان کی قرضہ اسکیم بہت کامیاب ہے اور لوگوں کو اپنی زندگیاں بدلنے کا موقع مل رہا ہے۔
میں نے امجد ثاقب صاحب سے پوچھا پنجاب سرکار آپ کی مددگار ہے خادم اعلیٰ کو آپ نے کیسے شیشے میں اتارا۔ وہ مسکرائے اور بولے چھوٹے میاں صاحب او سوری جناب شہباز شریف نے ہمارے منصوبہ کے بارے میں بہت سی معلومات حاصل کیں اور اطمینان کے بعد انہوں نے شراکت کا فیصلہ کیا۔ میں ان کے زیر سایہ نہیں ہوں پنجاب حکومت ہماری مددگار ہے۔ اس موقع پر اطلاع ملی کہ ناشتہ تیار ہے اب سب لوگ نشست گاہ سے ناشتہ کی میز پر آ چکے تھے۔ جس دعوت شیراز کا ذکر ابتدا میں کیا وہ تصور غلط تھا۔ یہ ناشتہ من و سلویٰ سے بھرپور تھا اور میز مختلف پکوانوں سے بھری ہوئی تھی۔ میرے لئے ایسے ناشتہ کا تصور بہت ہی اچھا تھا مگر اتنا سب کچھ کھانا ممکن نہ تھا۔ ہماری بات چیت ناشتے کی میز پر بھی جاری رہی۔
بابا عرفان الحق بھی امجد ثاقب کی تنظیم اخوت سے متاثر تھے اور ان کی خواہش ہے کہ جہلم میں اس تنظیم کی مدد کی جائے اور لوگوں کے حالاتِ زندگی مزید بدلنے میں اخوت اور امجد ثاقب صاحب کا ساتھ دیا جائے اور اس کی منصوبہ بندی کا بھی سوچا گیا۔ میں نے بابا عرفان الحق سے پوچھا آپ کے بارے میں سنا ہے کہ آپ نے عمران خان کو کوئی بشارت بھی دی تھی۔ انہیں لفظ بشارت پسند نہیں آیا ان کا کہنا تھا کپتان میرے پاس آیا تھا میں نے اس کو بتایا تھا کہ مکمل کامیابی تو نہیں مگر جزوی کامیابی یقینی ہے اور تمہارا اپنے اندر سے بدلنا ضروری ہے۔ میں نے پوچھا ہمارے عسکری حلقے کے لوگ بھی رجوع کرتے ہیں۔ کیا آپ نے بھی جناب سرفراز شاہ صاحب کی طرح جنرل باجوہ کے لئے دعا کی تھی۔ ان کا سوال تھا وہ کیسے؟ میں نے بتایا اس کا تذکرہ ہمارے ایک محترم کالم نگار نے اپنے کالم ’’اللہ والے‘‘ میں کیا تھا مگر سید سرفراز شاہ نے اس حقیقت سے انکار کیا۔ پھر جنرل بلال کا ذکر ہوا جو ان کے اپنے علاقے کے مرشد پروفیسر احمد رفیق اختر کے بہت ہی قریب ہیں۔ اس گفتگو میں لاہور کے بابوں کا بھی ذکر رہا۔ ڈاکٹر امجد ثاقب کا اصرار تھا کہ ان کے دفتر میں آ کر اخوت کا نیٹ ورک دیکھیں۔ باتیں بہت ہیں مگر بابا عرفان الحق نے دین کو آسان بنا کر تبلیغ کا علم اٹھا رکھا ہے۔ ان کا سفر ہے دشوار مگر وہ راہ حق کے لئے جو کچھ کر رہے ہیں وہ کمال ہے۔

تازہ ترین