• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پھر پانچ جولائی آئی اور دل کے زخم تازہ ہو گئے اور تلخ یادوں نے آن گھیرا کہ کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہ غمِ دل۔
قومی اتحاد اور وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مابین سمجھوتہ ہو چکا تھا۔ حفیظ پیرزادہ نے بھٹو صاحب کو سیاسی بحران حل ہونے پر مبارکباد دی، لیکن بھٹو کچھ اور سوچ رہے تھے کہ دیر ہو چکی۔ وہی ہوا جس کا خدشہ تھا۔ اور ٹیلی فون پر اُن کا ’’وفادار‘‘ جرنیل اُنھیں حفاظتی تحویل میں لیتے ہوئے، ابھی بھی وفاداری کا یقین دلا رہا تھا۔ اور بھٹو صاحب نے شٹ اَپ کہہ کر فون بند کر دیا۔ دن بھر قومی اتحاد اور بھٹو میں سیاسی مفاہمت کی خبریں مل رہی تھیں اور یوں لگ رہا تھا کہ اب سیاسی خلجان ختم ہونے کو ہے، مگر بساط پلٹنے کی تیاری ہو چکی تھی۔ اور بروٹس اپنے سیزر کی پشت میں خنجر گھونپنے کو بالکل تیار تھے۔ رات گئے ہم لکشمی مینشن کی عمارت میں قائم لاہور پریس کلب میں بیٹھے جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاکے نفاذ پر بحث مباحثہ کر رہے تھے۔ عارف اقبال، حسین بھٹی، جہانگیر بدر اور میاں جہانگیر جیسے ابدی جیالوں کی خوشگمانی تھی کہ واہ بھٹو صاحب نے کیا پتہ کھیلا ہے اور فوج کو بیچ میں لا کر قومی اتحاد کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور اب فوج انتخابات کروائے گی اور بھٹو صاحب پھر سے بھاری اکثریت سے جیت کر حکومت بنائیں گے۔ لیکن مجھ جیسے لیفٹسٹ کا خیال تھا کہ وہی ہوا ہے جو چلی میں صدر الاندے اور اُن کی سوشلسٹ حکومت کے ساتھ ہوا تھا۔ سی آئی اے نے وہاں کے آرمی جنرل پینوشٹ کو بغاوت پر آمادہ کیا اور صدر الاندے باغیوں کی مزاحمت کرتے ہوئے شہید ہوئے اور چلی کے عوام کو ایک طویل خونیں رات نصیب ہوئی۔ یہی کچھ لگتا ہے کہ بھٹو صاحب کے ساتھ ہونے جا رہا ہے۔ میں نے اصرار کیا تو ہمارے جیالے دوست اپنی بات پر مصر رہے۔ رات گئے ہم اپنے اپنے گھر روانہ ہوئے تو یہ اندازہ نہیں تھا کہ شبِ تاریک اتنی طویل ہوگی اور ہم سالہاسال جیلوں میں سڑیں گے یا پھر انڈر گراؤنڈ ہو کر دھکے کھاتے پھریں گے۔ بیچارے جیالوں کو اس وقت بات سمجھ آئی جب اُنھوں نے مری میں بھٹو صاحب کی جنرل ضیاء الحق کے ساتھ نہایت تناؤ والی تصویر اخبار میں دیکھی۔ کہا یہ جاتا ہے کہ بھٹو صاحب نے اپنے جرنیل کو بہت بُرا بھلا کہا اور آئینی طور پر سنگین نتائج کی دھمکی دی۔
جونہی بھٹو صاحب ’’حفاظتی حراست‘‘ سے رہا ہو کر باہر نکلے، عوام کے جمِ غفیر نے اُن کا وہ استقبال کیا جو کبھی اس دھرتی پہ کسی کا نہ ہوا تھا۔ جنرل ضیاء الحق جو بہت ہی منافق شخص ثابت ہوا، اس نے 90 روز میں انتخابات کا وعدہ کر کے حالات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن جلد ہی اسے نظر آ گیا کہ بھٹو ابھی بھی کتنے زیادہ مقبول ہیں اور جب وہ اُن کے خلاف کسی بداعمالی یا کرپشن کا کیس ڈھونڈ نہ پایا تو انھیں ’’قتل کی سازش‘‘ کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا۔ اور جب جسٹس ہمدانی نے اُنھیں ضمانت پر رہا کیا تو لاہور میں اُن کا ایسا فقید المثال استقبال ہوا جو صرف بے نظیر بھٹو کی 1986ء میں وطن واپسی پر ہی نظر آ سکا۔ فوجی آمر اور اس کے رفقا کے ہاتھوں کے طوطے اُڑنے ہی تھے اور اُنھوں نے بھٹو صاحب کو راستے سے ہٹانے کا فیصلہ کر لیا۔ پھر کیا تھا قومی اتحاد کی رجعتی جماعتیں جو پہلے ہی ’’نظامِ مصطفیٰ‘‘ کے نعرے پہ مسجدوں، بازاروں اور منڈیوں کو گرما چکی تھیں کو جنرل ضیاء نے ساتھ ملایا اور مملکتِ خداداد کو مشرف بہ اسلام کرنے کی راہ لی۔ قدامت پسند عدلیہ بھی نظریۂ ضرورت کی مالا جپتے آمر کی گود میں جا بیٹھی۔ بس ضرورت ایک وعدہ معاف گواہ کی تھی اور چیف جسٹس مولوی مشتاق نےجو شاید بھٹو کے خلاف ادھار کھائے بیٹھے تھے بھٹو صاحب کو پھانسی کی سزا دی جو سپریم کورٹ کے ججوں نے اکثریتی فیصلے سے برقرار رکھتے ہوئے بھٹو کا عدالتی قتل کر دیا۔ گڑھی خدا بخش نے ایسا منظر کبھی نہ دیکھا تھا کہ اس کا قابلِ فخر سپوت ایسی خاموشی سے دفن کیا جائے گا۔ نہ بیوی، نہ بیٹی، نہ کوئی عزیز مگر اجنبی ہاتھوں نے بھی خون کے آنسو پیتے ہوئے انھیں لحد میں اُتارا۔ مجھے وہ دن یاد ہے جب اگلے روز پورے ملک میں موت کا سناٹا تھا کہ اُمید کی جیسی کیسی کرن تھی وہ تختہ دار پہ چڑھا دی گئی۔ پھر کیا تھا آمریت کا عفریت ہر جانب اپنے خونخوار پنجوں سے حملہ آور ہوا۔ قومی اتحاد والوں اور عدلیہ کی بھی چھٹی کرا دی گئی اور 90 روز پھیلتے پھیلتے پوری دہائی پہ پھیل گئے۔ ایران کے انقلاب اور افغانستان کے انقلابِ ثور نے خطے میں جب ایک نئی جنگ چھیڑ دی تو جنرل ضیاء الحق نے امریکی وفاداری اور اپنے راج کی طوالت کے لیے پاکستان کو سوویت یونین کے خلاف جہاد میں دھکیل دیا۔ جگہ جگہ خلیجی پیسے سے مدرسے کھل گئے، انتہا پسندانہ رسائل عام ہوئے اور جہادیوں کی فیکٹریاں کھول دی گئیں۔ سی آئی اے کی اس جنگ میں پاکستان کو مذہبی انتہاپسندی، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کی آماجگاہ بنا دیا گیا۔ راتوں رات مولوی حضرات اور جہادیوں کی کایا پلٹ ہوئی اور وہ سماج کے سب سے طاقتور، امیر اور جارح عناصر بن گئے جن کی نکیل ضیاء اور اس کے کارندوں کے ہاتھ میں، جبکہ جنرل ضیاء کی باگ ڈور سی آئی اے کے پاس چلی گئی اور پاکستان سوشلزم کے خلاف مغربی دُنیا کے رجعتی محاذ کی فرنٹ لائن اسٹیٹ بنا۔
مشرقِ پاکستان میں قتلِ عام کرنے، پاکستان کے دو لخت ہونے اور بھارت سے شکست پر جنرل یحییٰ خان نے جو تباہ حال پاکستان چھوڑا تھا، اُسے بھٹو صاحب نے سنبھالا اور پھر سے اپنے پاؤں پہ کھڑا کر دیا۔ یہ بھٹو صاحب ہی تھے جنہوں نے 90 ہزار جنگی قیدی بھارت کی قید سے چھڑائے، ہزاروں کلومیٹر رقبہ واگزار کروایا اور شملہ معاہدہ میں کشمیر کے مسئلہ کے حل کی دو طرفہ ضرورت کو اندراگاندھی سے منوایا، جبکہ بھارتی وزیراعظم کشمیر پہ اُن کا انگوٹھا لگوانے پہ مصر تھی۔ یہ بھٹو ہی تھے جنہوں نے پاکستان کے نیوکلیئر پروگرام کی بنیاد رکھی۔ 1973ء کے متفقہ آئین کو منظور کروایا اور ریاستی سرپرستی میں ترقی کی راہ اپناتے ہوئے محنت کش عوام کے لیے بہت سی اصلاحات کیں۔ وہ آزاد خارجہ پالیسی کے داعی، آرگنائزیشن آف اسلامک کانفرنس کے بانی اور پاکستان کے قومی سلامتی کے نظریہ کے خالق تھے۔ مگر دُنیا کے دیگر عوام دوست (Populist) رہنماؤں کی طرح وہ بھی آمرانہ روش کا شکار تھے۔ جب اُن کی کاروباروں کو قومیانے کی پالیسی حد سے گزری اور اُن کے خلاف ایک بڑا ردِّعمل پیدا ہوا تو وہ دائیں بازو کی مذہبی رجعت کو ٹھنڈا کرنے کے لیے ایسے نظریاتی سمجھوتے کرنے پہ تیار ہو گئے جو بعد میں روشن خیالی کے گلے کا پھندا ثابت ہوئے۔ انھیں تختۂ دار پر چڑھانے والے یہ بھی بھول گئے کہ بھارت سے شکست کے بعد جس طرح بھٹو صاحب نے اُنہیں پھر سے توانا بنایا اور اُنہیں اُن کی پسند کا قومی سلامتی کا نظریہ دیا۔ اور یہی وہ وجوہات تھیں جو جنرل ضیاء کے انتہائی ظالمانہ اور مذہبی انتہاپسندی کے راج کو مضبوط کرنے میں کام آئیں۔ بھٹو تو شہید بن کر امر ہوئے اور جنرل ضیاء الحق اپنے خوفناک انجام سے ہمکنار ہوا۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ترکے اور منحوس سایوں نے پاکستان کو ایک خوفناک دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ اب ضربِ عضب اور ردّالفساد سے اس عفریت کو حربی سطح پر قابو میں لانے کی کوششیں تو ہو رہی ہیں، لیکن انتہاپسندی، عدم رواداری، فرقہ پرستی اور دہشت گردی کا زہر سماج کے رگ و پے میں اتنا پھیل گیا ہے کہ جانے کتنی دہائیاں لگیں اس نظریاتی کینسر کو ختم کرنے میں۔
آج بھی پانچ جولائی کو یہ سطریں لکھتے وقت وہ ہزاروں ساتھی اور رفیق یاد آ رہے ہیں جنہوں نے عقوبت گاہوں اور جیل خانوں میں ناقابلِ بیان صعوبتیں برداشت کیں، کوڑے کھائے، جیلیں بھگتیں، گھربار اور اپنا سب کچھ لٹا بیٹھے۔ اس آدرش کے ساتھ کہ آزادئ جمہور اور عوام کی حکمرانی کا زمانہ آئے جو ہنوز دور دور تک نگاہ میں نہیں۔ یہ خام خیالی ہی تھی کہ 1973ء کے متفقہ آئین کے بعد مارشل لاؤں کا زمانہ لد جائے گا اور آرٹیکل چھ کی لٹکتی تلوار کے ہوتے ہوئے کوئی غاصب آئین کو توڑنے کی جرأت نہیں کرے گا۔ ضیاء نے جمہوریت پسندوں اور آئین پروروں کو غلط ثابت کر دکھایا اور پھر یہی کام ایک اور بھاری اکثریت سے منتخب وزیراعظم کے خلاف جنرل مشرف نے کر دکھایا۔ اور آرٹیکل چھ پر عمل درآمد کرنے کی آئینی منشا منہ تکتی رہ گئی۔ جب جنرل مشرف ایک آزاد عدلیہ کے ہوتے ہوئے جیل جانے کی بجائے شاہانہ زندگی بسر کرنے دبئی پہنچ گئے۔ قانون کی حکمرانی کی تذلیل بار بار ہوتی رہی اور ریاست سے ماورا طاقتیں ابھی بھی زور آزما ہیں۔
پانچ مارشل لاؤں کا انجام ہم دیکھ چکے اور اُن کے ہاتھوں جو تباہی ہوئی آج بھی اس کے زخم چاٹ رہے ہیں۔ مارشل لاؤں کے درمیان جو بالواسطہ فوجی بالادستی کا ماڈل جنرل اسلم بیگ اور جنرل حمید گل اور بعد ازاں جنرل کیانی اور جنرل پاشا نے تشکیل دیا اُس سے آئینی نظام چل رہا ہے نہ قانون کی حکمرانی ممکن ہے۔ اب جبکہ جمہوری عبور اپنی دوسری ٹرم کے آخری برس میں ہے اور تیسرے انتخابات کی تیاری ہے، آمرانہ قوتیں پھر سے متحرک ہوتی دکھائی پڑتی ہیں۔ وزیراعظم سمیت سب کا احتساب ہو، اور انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہو تو کسی کو کیا اعتراض ہو سکتا ہے۔ مگر احتساب کی آڑ میں جو کچھ پھر سے ہو رہا ہے، آخر یہ کھچڑی پکنا کبھی بند بھی ہوگی؟ سوشل میڈیا پہ ایک نظم چل رہی ہے، جو ہمیں اس بارے متنبہ کر رہی ہے۔ ملاحظہ ہو:
پانچ جولائی پھر آئی ہے
پھر وہی ہاہوکار مچی ہے
الزام وہی ہیں، ہاتھ وہی ہیں
اب کے بس گھات نئی ہے
صبح وہی دھندلی اجلی
نہ کوئی یارو رات نئی ہے
پھر پانچ جولائی آئی اور دل کے زخم تازہ ہوئے اور تلخ یادوں نے آن گھیرا کہ کہیں تو جا کے رُکے گا سفینہ غمِ دل

تازہ ترین