• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین کرام! ’’آئین نو‘‘ میں سلسلہ تو حالات ِ حاضر ہ کے حوالے سے ’’ملکی خارجہ پالیسی‘‘ کا جاری ہے، لیکن یہ ’’حالات حاضرہ‘‘ بھی کم بخت عجیب مچھلی کی مانند ہیںکہ اس کی روانی کسی کے قابو میں نہیں، پھر جس طرح تیز تیراک بڑی مچھلی اک لمحے میں چھوٹی کو نگل جاتی ہے اچانک وارد ہوئی ایک بڑی بھڑکتی خبر، میڈیا پر پہلے سے چھائی خبر کو لمحے میں نگل جاتی ہے۔ میڈیا بھی پہلے سے غالب موضوع کو دبا کرنئے کو غالب کرنےکی بے قابو صلاحیت رکھتاہے۔ اس کے باوجود گزشتہ ’’آئین نو‘‘  میں ’’خارجہ پالیسی کی علمی بنیادوں‘‘ کو آج کےکالم میں عام کرنے کا جو عندیہ دیا گیا تھا، وہ میڈیا پرچھائے خبری موضوع ’’قطری شہزادہ‘‘ سے ختم تو نہیں ہوگا، تاہم آج ادھار ضروری ہو گیا۔ اصل میں بندے کی کمزوری ہےکہ صحافت کا طالب علم ہے اور حالات ِ حاضر ہ کا بھی۔ لیکن ’’آئین نو‘‘ میں آج خارجہ پالیسی سے متعلق مجوزہ موضوع کی جگہ لینے والا موضوع (قطری شہزادہ) اسے ہڑپ نہیں کر پائے گا کہ خارجی امور اب ماضی کی طرح رائے عامہ سے بالا بالا نہ طے پا سکیں گے، سو، ان کا قوم میں اجتماعی شعور بھی ایک بڑی قومی ضرورت بنتی جارہی ہے۔ واضح رہے کہ جمہوری معاشروں میں ٹی وی ٹاک شوز اور قومی اخبارات کے ادارتی صفحات ہی رائے سازی کا سب سے بڑا ذریعہ ہوتے ہیں۔ سو، ان میں کہانی نما اور اِدھر اُدھر کی تحریریں اورباتیں شاید کسی اور مقصدکے لئے محترم و مقدم تو ہوسکتی ہیں، لیکن اگر یہ ادارتی صفحات اور ٹاک شوز جیسے قومی فورم پر ان کا مقصد وحید،رائے عامہ کی تشکیل اوراس عمل میں قارئین کی رہنمائی کے سوا ہیں تویہ تجاوزات ہیں، جنہیں میڈیا میں کم کرتے کرتے اور پروفیشنلزم کوبڑھاتے، بالاخر ختم کرنا ہے۔ آئیں! اب اصل موضوع کی طرف چلیں۔
فلسفہ جمہوریت کی تشریح زبان میں کی جائے تو ’’جمہوریت وہ طریق یا طرزِ حکومت ہے جس میں حکومت عوامی اکثریت کی رضا سے بنتی ہے اور عوامی اتفاق رائے سے بنے آئین کےمطابق چلتی ہے‘‘ بندے نے ’’آئین نو‘‘ میں جو اپنا بیانیہ ’’آئین کا مکمل اور قانون کا نفاذ‘‘ تشکیل دی ہے، وہ اصل میں ملک پر مسلط اسٹیٹس کو سے ہونے والی اور جاری تباہ کاریوں سے مکمل بچائو کا ناقابل اختلاف حل ہے۔ بیانیے میں ’’مکمل‘‘ بہت اہم ہے کہ پاکستان میں تشکیل حکومت عوام کے ووٹ سے تو ہوتی ہے لیکن الیکشن آئین کےمطابق شفاف غیرجانبدار اور انتظامی مداخلت کے بغیر نہیں ہوتا، کبھی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی اور کبھی سول ایڈمنسٹریشن کی کھلی اور جی بھر کے مداخلت اسی طرح یہ تو نہیں ہے کہ پاکستان کوئی قانون کے نفاذسے یکسر محروم ریاست ہے لیکن بیانئے میں ’’قانون کا‘‘ سے پہلے ’’یکساں‘‘ کا لفظ بھی ’’مکمل‘‘ جتنا اہم ہے کہ جتنا بیانیہ ناقابل اختلاف ہے اتنا ہی پاکستان میں قانون کا نفاذ بھی مساوی نہیں۔ قانون کا سارا اطلاق کمزور و نحیف اور بے بس شہریوں پرہوتا ہے۔ یعنی ڈائون ۔ ٹاپ، اسی لئے ’’آئین نو‘‘ میں ٹاپ۔ ڈائون احتساب کو، حقیقی جمہوریت جو بمطابق آئین ہوگی، کا لازمہ قرار دیا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں انتخابات آئین کے مطابق ہوتے ہیں نہ حکومت آئین کےمطابق چلتی ہے (ثبوت، ہر منتخب حکومت نے خلاف آئین بلدیاتی اداروں کا گلا گھونٹے رکھا) فلسفہ جمہوریت کا تقاضا تو یہ ہے کہ آئین کےمطابق الیکشن ہوں، ریاست کی منتخب حکومتیں وجود میں آئیں اور حکمران حلف کی پاسداری کرتے ہوئے اپنی حکومتیں بمطابق چلائیں (جوہرگز نہیں چلتیں، سینکڑوں مثالیں دی جاسکتی ہیں) یوں کہ عوام اور ملک دوست قانون سازی کریں اصلاحات کا عمل جاری و ساری رہے، آئین کی روح کو عمل میں ڈھال کر اپنے وسیع تر انتظامی اختیارات کے عوض قوم و ملک کو اتنا خوشحال، مستحکم اور محفوظ بنائیں کہ ہم مثالی جمہوری معاشروں کی طرح، اپنےجیسی پیچیدہ ریاستوں اور مفلوک و محروم ممالک کے لئے سبق بن جائیں۔ ایسا کہ جو اسے پڑھے، سمجھے اور سمجھ کر عمل کرے تو خیر پائے۔
وائے بدنصیبی اس کےبرعکس، ہمارے حکمرانوں کو مرضی کی جمہوریت کی لت پڑ گئی ہے کہ وہ اسی کے غیرمعمولی بین فشری ہیں، ان کے حوالی موالی بھی۔ اس لت نے اوپر بیان کی گئی جمہوریہ کے ماڈل سے ’’مملکت خداداد‘‘ جو ہمارا بطور ’’اسلامی جمہوریہ‘‘ آئینی تشخص کا رخ، موروثی سیاست کی طرف موڑ دیا ہے، جس میں جمہوریت کےساتھ شہزادوں اور شہزادیوں کا ذکر تجزیوں اور خبروں میں ایسے جاری ہے جیسے یہاں شہنشاہیت ا ور جمہوریت میں اقتدار کی کوئی کشمکش جاری ہے۔
امر واقعہ یہ ہے کہ ہم پاکستانی فقط حکومت نہیں، خود تو ’’آئین کے مکمل اور قانون کےسب شہریوں پر یکساں نفاذ کے لئے بحیثیت قوم خود کو کچھ کر نہیں سکے، وکلا کی تحریک سے اک راہ ضرور نکلی اس پر ہم چل بھی پڑے، اسی کی برکت ہے کہ آج بالائی سطح پر آئیڈیل نہیں تو اطمینان کی حد تک اس کا اعتماد قائم و دائم ہو گیا ہے، پروفشنلزم بھی اسی درجے پر ہے اور اوپر سے اللہ میاں نے بقول عزت مآب صدر مملکت پاناما نازل کردیا تو ہم بطور قوم جو عوامی بن جانےوالی تحریک سے نکلی راہ پر چلتے چلتے رک گئے تھے پھر پاناما کیس کےذریعے اس پر چل پڑے ہیں۔ ایک کلمہ حق جناب صدر مملکت کا ہے، دوسرا نظریاتی مسلم لیگی ن لیگ کے سینئر اور بزرگ ماہر آئین و قانون جناب ظفر علی شاہ کا کہ ہم سب (ن لیگی ہی نہیں) سمجھیں کہ پاناما کیس کا کوئی تعلق حکومت سے ہے نہ حکومتی جماعت لہٰذا دونوں کا اس کا دفاع کرکے حکومت، جماعت اور جمہوریت کو متنازع نہیں بنانا چاہئے۔
شاہ صاحب کتنے ہی ٹاک شوز میں اپنا یہ بیانیہ اور سکہ بند رائے دے چکے ہیں، لیکن حکمران شریف خاندان کےمنی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور جملہ کرپشن کے زیرسماعت اور زیرتفتیش کیس پر بپھرے وزیر، منتخب نمائندے اور پارٹی میں قیادت کی اندھی عقیدت میں ڈوبے (یا بڑے بینی فشریز) جس طرح سے قطری شہزادے جناب وزیراعظم کے دوست ہی نہیں کاروباری پارٹنر بھی ہیں شاید وہ اس ’’طوطے‘‘ کی جان میں سارےنظام عدل کو بند کر رہےہیں اور جس زبان میں اور جتنا اسے سیاسی بنایا جارہا ہے، اس سے تو یہ لگ رہا ہے کہ اگر قطری شہزادے کے خط اور تائید و حمایت کو ہی مقدمے میں سب کچھ نہ مانا گیا تو پاکستان کی جمہوریت خطرے میں پڑ جائے گی،اگر ہماری جمہوریت یہ ہی ہے اورہمارا نظام عدل بھی اتنا ہی جوگا۔ باقی آئین و قانون، اپوزیشن اور میڈیا کے تجزیے اور رائے عامہ کوئی حیثیت نہیں رکھتے تو پھرایسی جمہوریت اور نظام عدل کو قائم رکھنا ہے؟ پاناما کیس کو فقط شریف فیملی کے احتساب بمطابق آئین و قانون ہی نہ سمجھا جائے سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ قدرت نے کس طرح پاکستان میں اسٹیٹس کو کے سامنے پوری قوم کی بےبسی سے ’’آئین کے مکمل اور قانون کےیکساں نفاذ‘ کا راستہ ہموار کیا ہے۔ جاری عدالتی عمل کی حقیقت اور اصلیت اس کیس کے مطابق آئین و قانون کے مطابق فیصلہ سے نہیں ٹاپ ٹو ڈائون جاری عمل سے ٹیسٹ نہیں ہوگی بلکہ اس زاویئے پر شروع ہو کر جاری رہنے والے احتساب سے ہوگا جس میں پاناما کیس پر ہر حال میں شریف خاندان کو پھنسانے والے بھی کتنے ہی قابل احتساب زد میںآئیں گے۔ آئیں گے تو جمہوریت اصلی کی گاڑی چلے گی۔ وگرنہ اللہ خیر کرے۔

تازہ ترین