• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے سیاسی حالات میں دن بدن بڑھتی ہوئی گرما گرمی نے قومی سطح پر پریشان کن صورتحال پیدا کر رکھی ہے۔ پچھلے ہفتے کے دوران جب ا سٹاک مارکیٹ میں 15اگست2015ءکے بعد پہلی بار 1900پوائنٹس کی کمی اور پھر پاکستان کے روپے کی قیمت میں3.15روپے کی کمی پر اقتصادی ماہرین کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ، کسی نے اسے سیاسی حالات کی ابتری سے تعبیر کیا اور کسی نے کہا کہ یہ حکومتی حلقوں کی اپنی کارروائی ہے ، تاکہ دنیا پر یہ تاثر دیا جاسکے کہ پاکستان میں سیاسی حالات کی خرابی کی وجہ سے معاشی سرگرمیوں پر منفی اثرات پڑرہے ہیں۔ بعض ماہرین نے اسی رائے کی ان ڈائریکٹ تصدیق کردی جب وزیر اعظم میاں نواز شریف دو روز قبل حویلی بہادر شاہ میں ایک جلسے سے خطاب کررہے تھے۔ اس میں وزیر اعظم نے پہلے سے زیادہ جارحانہ انداز میں اپوزیشن اور خاص کر عمران خان کو دعوت دی’’جب کہو مقابلے کو تیار ہیں، ہم بھاگنے والے نہیں ہیں‘‘ وزیر اعظم کے ان ریمارکس نے ہمیں لاہور میں ایک جاپانی پہلوان انوکی اورپہلوان جھارا کے دنگل کی یاد تازہ ہوگئی۔بالکل اسی انداز میں جھارا پہلوان انوکی کو جاپان سے پاکستان پہنچنے اور اکھاڑے میں مقابلہ میں اترنے تک کے عرصےمیں مسلسل للکارتا رہا، پھر ساری دنیا نے یہ تاریخی مقابلہ دیکھا کہ’’انوکی‘‘ نے پہلے سات آٹھ منٹ میں جھارا کو ’’انوکی لاک‘‘ لگا کر چت کردیا۔ اسی طرح جھارا پہلوان اس کے بعد شاید ہی بڑے مقابلےکے لئے سامنے آیا ہو، اللہ کرے اب سیاسی میدان میں ایسا نہ ہو۔
وزیر اعظم سے لے کر ان کے تمام مشیروں اور وزیراعلیٰ شہباز شریف سمیت سب اپنے جارحانہ بیانات کے ذریعے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ جے آئی ٹی میں ان کے ساتھ یکطرفہ زیادتی یا ناانصافی کی جارہی ہے۔ کیا انہیں یہ معلوم نہیں کہ جے آئی ٹی سپریم کورٹ نے بنائی ہے۔ کیا یہ مناسب نہیں کہ اس روش کو بدلا جائے اور وزیر اعظم اپنے قانونی مشیروں سے وہ رائے حاصل کریں جن کی وقت اور حالات کو ضرورت ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ایسی حکمت عملی اپنانے کی ضرورت ہے کہ پاناما اور جے آئی ٹی کے بعد کی صورتحال کو کیسے ہینڈل کیا جائے اور سپریم کورٹ پر حکومتی حلقوں کے بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کو کیسے دور کیا جائے۔ یہ سب کرنے کی ضرورت ہے لیکن اگر اس کی بجائے جارحانہ انداز میں سیاسی بیانات کے حملے جاری رہے تو پھر اس کے ردعمل میں کچھ نہ کچھ حقائق اور تلخ فیصلے تو کریں گے۔ دوسرا یہ کہ وزیر اعظم کو اگر اپنی سیاسی پوزیشن پر اتنا ہی مان ہے تو پھر کسی تاخیر کے بغیر نئے الیکشن کا اعلان کریں پھر نتیجہ دیکھ لیں کہ عوام اب کیا رائے رکھتے ہیں۔ وزیر اعظم نے صدر جنرل پرویز مشرف کے بعد دوسری بار دھاسو ڈیم کا سنگ بنیادرکھنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس بار اچھا یہ ہوا کہ ایک چینی فرم کو اس حوالے سے باقاعدہ تحریری طور پر اجازت نامہ اور راضی نامہ دے دیا گیا ہے۔ اس طرح بھاشا ڈیم جس کیلئے پہلے یہی حکومت دعویٰ کرتی رہی کہ عالمی بنک اس منصوبے کیلئے فنڈز دے رہا ہے تین چار سال اس میں ضائع ہوگئے پھر عالمی بنک کےجواب کے بعد نئی حکمت عملی یہ بنائی گئی ہے تو بھاشا ڈیم کا آغاز حکومت چینی حکومت سے قرضہ لے کر دیگی جسکے بعد اسکے پاور ہائوس کیلئے مختلف غیر ملکی کمپنیوں کو فنڈز کیلئے رجوع کیا جائیگا۔ اس سے پہلے بھاشا ڈیم کیلئے صدر جنرل پرویز مشرف اور1998کے عرصہ میں اسی حکومت اور پیپلز پارٹی کی حکومت کے بڑے بڑے دعوے سامنے آتے رہے اب تک کی صورتحال میں یہ نظر آرہا ہے کہ2018میں بجلی کا بحران سو فیصد حل نہیں ہوسکے گا، البتہ لوڈشیڈنگ کے دورانیہ میں کمی کے اشارے مل رہے ہیں۔ اللہ کرے اس شعبہ میں کچھ بہتری ہوجائے اور اس سے پہلے کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ پر ردعمل بھی قومی سلامتی کے لئے خطرات کا باعث نہ بنے۔

تازہ ترین