• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’وزیر اعظم رخصت ہورہے ہیں۔‘‘ نہ تو میاں صاحب کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد آئی ہے ، نہ ہی پارلیمنٹ میں مواخذے کی کوئی تحریک، اور نہ ہی وزیر اعظم موصوف نے خود استعفیٰ کا کوئی عندیہ دیا ہے، پھر یقین سے یہ بات عام کیوں ہے کہ وزیر اعظم رخصت ہورہےہیں.... جمہوری دنیا میں منتخب وزیراعظم کو ان کے منصب سے ہٹانے کے متذکرہ طریقہ ہائےکار کے علاوہ دیگر دریچوں کے وا کرنے کو آمرانہ تصور کیا جاتا ہے۔ تو کیا یہاں بھی کوئی بندوبست اس نوع کا بروئے کار آیا چاہتا ہے؟جہاں تک عدالت کے ذریعے منتخب نمائندوں کی ایوان اقتدار سے رخصتی کا عمل ہے، گو کہ وہ بھی جمہوری ممالک میں قابل قبول بلکہ بسااوقات پسندیدہ بھی ٹھہرتا ہے لیکن ایسا عدالتی عمل جو ابھی پایہ تکمیل تک بھی نہ پہنچا ہو، جس کے دیگر اہم مراحل ہنوز طے ہونا باقی ہوں، پھر یہ یقین کس بنیاد پر بن پائے کہ ہر حالت میں فیصلہ وزیر اعظم کے خلاف آیا چاہتاہے۔ آخر یقین کی خاطروہ کیا اجزائے ترکیبی ہیں جس کی بدولت ہر خاص و عام ، اپنے وغیر، مخالف و مواقف، اس امر پر باہم متفق نظر آتے ہیں کہ وزیر اعظم کا جانا ٹھہر گیا ہے۔اس سوال کا جواب سادہ سا ہی ہے ،ماضی کے جھروکوں سے آج کے عوامل کو بنتے و سنورتے باآسانی دیکھا بھی جاسکتا ہے۔ بس اس کیلئے جناب قتیل شفائی کی عقابی نظر درکار ہے۔
کون سیاہی گھول رہا تھا وقت کے بہتے دریا میں
دیکھی ہے میں نے آنکھ جھکی پھر آج کسی ہرجائی کی
قابل بحث نکتہ یہ نہیں ہے کہ کون جائیگا اور کون آئے گا، اصل یہ ہے کہ کیوں جائیگا اور دوسرا کیوں آئے گا؟ اگر اسی طرح ’بے سبب‘ آنا جانا ہی لگا رہنا ہے تو پھربار بار انتخابات پر اربوں روپے کیوں ضائع کیا جائے۔
مخالفین کی جانب سے کہا جارہا ہے کہ چونکہ مسلم لیگی اکابر کی چوری پکڑی گئی ہے لہٰذا ان کا احتساب ناگزیر ہے۔ اگر ایسا ہی ہے،پھر کوئی امر مانع کیوں ہو۔ تاہم سوال یہ ہے کہ برپا اس احتسابی عمل کےنتیجے میں ملک و قوم کا کس قدر فائدہ متوقع ہے۔ کل نہ جانے کیا ہو، آج کا واقعہ یہ ہے کہ ان ساری کوششوں پر ملک و ملت کے کروڑوں روپے خرچ ہورہے ہیں۔ دیکھنا پھر یہ ہے کہ بدلے میں قومی خزانے میں کیا آتا ہے۔آج اگر ایک طرف ایسی فضا بنادی گئی ہے کہ فیصلہ بس میاں صاحب کے خلاف ہی آنا ہے۔ تو دوسری طرح جو مسخرے رقصاںبرسر بازار ہیں، انہوں نے اس سارے عمل کو ہی مذاق بنادیا ہے۔ پیپلز پارٹی جو کہ درحقیقت وفاق کی آج بھی علامت ہے ،اور تو اور وہ بھی کسی کو خوش کرنے کی خاطر جمہوریت کی رہی سہی روایات کو پامال کرنے میں پیش پیش ہے۔پیپلز پارٹی ان دنوں جو عمران خان سے بھی زیادہ میاں صاحب کی مخالفت میں زور لگا رہی ہے تو اس کے پیش نظر’بعض شہرہ آفاق‘ کمزوریاں ہوسکتی ہیں۔ اقتدار کا حصول بھی ایک کمزوری بلکہ بہت بڑی کمزوری ہے ، لیکن اس حوالے سے پیپلز پارٹی کا پتہ صاف ہے کہ وہ اگر آبِ زم زم سے بھی دھل جائے توبھی کوئی اسے اپنانے پر پھر بھی تیار نہ ہوگا۔ ہاں پیپلز پارٹی جس طرح ناچ رہی ہے یہی اصل مدعا ہے۔ ہم جیسے لوگ جو پیپلز پارٹی کو ایک سیکولر و لبرل جمہوری جماعت سمجھتے ہیں، ایک طرف اس طرح اس جماعت کی سیاسی ’ آبروریزی‘ پر رنجیدہ ہیں تو دوسری طرف اس بات کا بھی دکھ ہے کہ پیپلز پارٹی کے خائنوں کی وجہ سے ایسے صاحبِ کردار جیسا کہ قمر زمان کائرہ ہیں، بھی قافیے سے قافیہ ملانے پر مجبور ہیں۔اس سے ثابت ہوتا ہے کہ اقتدارکے اصل حقدار سیاست داں نہیں،وہ ہیں جوجب چاہتے ہیں  اپنی پسند کا مال مارکیٹ سے اٹھا لیتے ہیں، انشا جی نے کہا تھا۔
جھوٹے سکّوں میں بھی اٹھا دیتے ہیں یہ اکثر سچا مال
شکلیں دیکھ کے سودے کرنا، کام ہوا بنجاروں کا
یہ منطق کہ چونکہ کل نواز شریف صاحب میمو گیٹ کے معاملے میں کالا کوٹ پہن کر آگئے تھے، اسی لئے آج پیپلز پارٹی بھی خم ٹھونک کر میدان میں ہے۔ یوں قابل قبول نہیں کہ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو دوسرے کے لئے چوری اس خاطر جائز نہیں ہوجاتی کہ چونکہ کل اس نے چوری کی تھی بنا بریں آج میں کیوں پیچھے رہوں۔ یہ کاروبارِ ریاست ہے کوئی قبائلی تنازعات نہیں کہ ہر کوئی بدلے کے موقع کی تاک میں رہے۔ آخر کہیں اور کبھی جاکر ایسے جمہوریت کش سلسلوں کو تو جامد کرنا ہوگا، وگرنہ مملکتیں اس طرح کی بار بار مہم جوئی سے نہیں چلا کرتیں۔ جو لوگ خود کو جمہوریت پرست بلکہ جمہوریت کے داعی کہتے ہیں یہی وہ وقت ہے کہ وہ اپنے قول کو عمل سے ثابت کریں۔ ساحر لدھیانوی نے کہا تھا۔
مری ندیم! محبت کی رفعتوں سے نہ گر
بلند بام ِحرم ہی نہیں کچھ اور بھی ہے
عدالت اپنا کام کرے، دیگر ادارے اپنا۔ سیاسی جماعتوں کا فرض البتہ یہ ہے کہ وہ جمہوری قدروں کی پاسداری کے لئے اپنا کردار اداکریں، انتخابات قریب ہیں، اگر مسلم لیگ سے عوام نالاں ہیں تو اس کا فیصلہ محض ایک سال بعد ہوجائے گا۔ قابل افسوس امر یہ نہیں کہ جے آئی ٹی کا طرز عمل کیا ہے، تشویش اس بات پر ہے کہ ہر کوئی آئندہ کے منظر نامے میں اپنی موجودگی کی خاطر جمہوری قدریں پامال کرنے کیلئے ایک دوسرے پر سبقت کیلئے سرگرداں ہے۔ بعض اہلِ صحافت چاپلوسی کی اس دوڑ میں سیاستدانوں سے بھی آگے ہیں۔ وہ اپنی تحریروں میں مسلم لیگ کی کمزوریاں اجاگر کرکےظاہر یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ہم صرف انہی کمزوریوں کے باوصف مخالفت پر آمادہ ہیں۔ حالانکہ ایسے لکھاریوں کا اصل مقصد اپنے بعض ’گستاخیوں‘ کی معافی تلافی اور آئندہ کیلئے اپنی دستیابی ظاہر کرنا ہوتا ہے۔بعض اصحاب ایسے بھی ہیں جواکثر لکھتے ہیں کہ میاں صاحب نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا۔ اگلے روز پیپلز پارٹی کے ہمدرد کالم نگار نے موقر روزنامہ جنگ میں کیا خوب یاد دلایا ’’1958، 1969 ءاور 1977ءنے (کیا) نواز شریف کے پیدا کردہ ادارتی کشمکش سے جنم لیا تھا؟‘‘ باالفاظ دیگر اُس وقت تو نواز شریف کا کوئی سیاسی کردار ہی نہ تھا۔ بات واضح ہے!
بہرصورت جیسا کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی رخصتی سے قوم و ملک کو رتی برابر فائدہ نہیں ہوا تھا اسی طرح میاں صاحب کی برطرفی سے بھی بھوک، بیماری اور جہالت میں مبتلا 18کروڑ عوام کو کوئی افاقہ نہیں ہوگا۔تاریخ کی ستم ظریفی البتہ یہ بھی ہے کہ اقتدار میں آنے والی تقریبا تمام جماعتوں نے عوام کو ماسوائے طفل تسلیوں کے کچھ نہیں دیا ۔ اسی سبب عوام تو دور کی بات ہے ، ایسی جماعتوں کے اپنے کارکن بھی اُن کی ڈوبتی کشتی کا سہارابننے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔یہ چونکہ کھلا راز ہے ،بنابریں اسی سے فائدہ اُٹھا لیا جاتا ہے۔تاریخ اس بات کی بھی گواہ ہے کہ غیر سیاسی حکومتوں سے بھی نہ صرف یہ کہ ملک و عوام کو کچھ ہاتھ نہیں آیا، بلکہ وسائل سے مالا مال یہ ملک اقوام عالم میں بہت پیچھے رہ گیا ۔ وقت کا نوحہ یہ نہیں ہے کہ آج پھر کسی سازش کی بات ہورہی ہے،المیہ یہ ہے کہ اسلام کے نام پر بننے والی اس پاک سرزمین میں آج بھی ایسے ابن الوقت سیاستدانوں، صحافیوں اورتجزیہ کاروں کے لاٹ کے لاٹ موجود ہیں جن کی زندگی ایسی ہی غیر یقینی صورت حال پر استوار ہے۔ احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا۔
اِدھر شباب کا مس ہے اُدھر شراب کا رس ہے
قدم قدم پہ قفس ہے ندیم دیکھتے جائو

تازہ ترین