• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سازش، سازش،سازش، وزیر اعظم سے لیکر لیگی رہنماؤں اور کارکنوں تک سب کی زبان پر صرف ایک ہی لفظ ہے جس کی تکرار کی جا رہی ہے۔ حکمرانوں کی اسی دہائی میں جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کرنے کا دن آن پہنچا ہے۔ وزیر اعظم صاحب کا کہنا ہے کہ جس نے ایٹمی دھماکے کئے اسی کا جعلی احتساب کیا جا رہا ہے ، دھرنے دیکھ لئے سازشیوں سے نمٹ لیں گے۔ پھر فرمایا مخالفین بزدل ہیں جو الیکشن نہیں جیت سکتے صرف سازش کرتے ہیں،میدان میں آؤ جب کہو مقابلے کیلئے تیار ہیں،کبھی دھاندلی کبھی دھرنے اور کبھی احتساب کی آڑ میں سازش کی جاتی ہے۔ وہ اس سے قبل بھی کٹھ پتلی کھیل کا ذکر کرکے واضح کر چکے ہیں کہ وہ اب تاریخ کا پہیہ پیچھے کی طرف نہیں موڑنے دینگے۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی نے توجے آئی ٹی میں پیش ہونے کے بعد باقاعدہ تنبیہ کی کہ سازش کرنے والے نواز شریف سے ڈریں اور باز آ جائیں ،نواز شرف کو سینے میں دفن راز بتانے پرمجبور نہ کریں۔انہوں نے چیلنج بھی کیا کہ روک سکتے ہو تو روک لو ورنہ نواز شریف 2018ءکا الیکشن بھی جیت جائے گا۔ وہ تو میڈیا کے توسط سے سازشیوں سے ایسے مخاطب تھیں جیسے وہ بخوبی جانتی ہیں کہ سازش کرنیوالے کون ہیں تاہم انہوں نے میڈیا کے نمائندوں کو یہ موقع ہی نہیں دیا کہ وہ ان سے استفسار کر کے قوم کی یہ الجھن دور کر ہی دیتے کہ شریف خاندان کے خلاف سازش آخر کر کون رہا ہے۔ ویسے تو کچھ عرصہ قبل انہوں نے پاناما پیپرز کو جرمن اور پاکستانی صحافیوں کے گٹھ جوڑ کا شاخسانہ اور پاکستان کے خلاف عالمی سازش قراردیا تھا تاہم اب انہیں ادراک ہو چکا کہ یہ تو نواز شریف اور جمہوریت کے خلاف سازش ہے جو اپنے ہی کر رہے ہیں۔ اسی سازش کے نظریے پرپختہ یقین کے باعث حکومت نے اعلان کیا کہ اگر قطرے شہزادے کا بیان شامل نہیں ہوگا تو اسے جے آئی ٹی کی رپورٹ قبول نہیں۔ ستم ظریفی تو یہ بھی ہے کہ جمہوریت کے خلاف سازش ہو رہی ہے لیکن اسکا مقابلہ کرنے کے لئے حکمران خاندان کوتنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ جمہوریت کی بقا کی فکر میثاق جمہوریت پر دستخط کرنیوالوں کو ہے اور نہ ہی جمہوریت کا تحفظ پارلیمنٹ میں جمہور کی نمائندگی کرنے والی دیگر جماعتوں کوعزیز ہے۔ کل تک جو پیٹھ تھپتھپاتے تھے کہ آپس کی لڑائی میں ہر بار بلا دودھ پی جاتا ہے اس بار دودھ پینے والے بلے کوبھاگنے نہیں دینا اب بڑے بھائی کواکیلے سازشیں برداشت کرنے کی نصیحتیں فرما رہے ہیں۔ وہ اپوزیشن لیڈر جوتین سال پہلے پارلیمنٹ کی طاقت سے جمہوریت کے خلاف سازش کو ناکام بنانے کیلئے ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے کھڑے تھے آج یقین رکھتے ہیں کہ کوئی سازش نہیں ہو رہی۔آج وہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ اگر کوئی سازش ہو رہی ہے تو انہیں بتایا جائے، انہوں نے تو یہ مفت مشورہ بھی دے دیا ہے کہ وزیر اعظم صاحب کی اگر آصف زرداری سے نہیں بنتی تو سازش کے بارے میں بطور قائد حزب اختلاف انہیں اعتماد میں لے لیں اور اگر ان پر بھی اعتماد نہیں تو اپنے اتحادی مولانا فضل الرحمان کو آگاہ کر دیں جو انہیںسازش کے بارے میں بتا دیں۔ اپوزیشن کے بارے میں تو گمان کیا جا سکتا ہے کہ الیکشن ایئر کی وجہ سے وہ حکومت مخالف پالیسی اختیار کر چکی ہے اس لئے اس بار سازش کے الفاظ کا اس پر کوئی اثر نہیں ہو رہا لیکن وفاقی کابینہ کے ان بعض اکان کے بارے میں کیا کہا جا ئے گا جو دل سے سازشی تھیوری پر یقین نہیں رکھتے جبکہ ایک وفاقی وزیر توبرملا کہہ چکے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے حکومت یا جمہوریت کیخلاف سازش کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ملکی تاریخ کا مطالعہ اندیشوں اور وسوسوں کو جنم دیتا ہے، ہر تھوڑے عرصے بعد جمہوریت کو راندہ درگاہ کرنے کا جانا پہچانا خوف ہی ہے کہ وزیر اعظم بے یقینی کے انداز میں خواہش ظاہر کرتے ہیں کہ ہرمنتخب حکومت کو پانچ سال کی مدت پوری کرنی چاہئے۔ لیاقت علی خان سے یوسف رضا گیلانی تک پہنچنے والی کہانی ہی ہے جس کے دہرائے جانے کا خدشہ ہر پل لاحق رہتا ہے لیکن شاعر نے کہا تھا۔
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
ایک لمحے کیلئے فرض کر لیں کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کے ضمن میں جو کچھ ہو رہا ہے وہ منتخب جمہوری حکومت کے خلاف سازش ہے ،سازش کرنے والے نہیں چاہتے کہ جناب نواز شریف بطور وزیر اعظم پانچ سالہ آئینی مدت پوری کریں اور سینیٹ میں اکثریت کے ساتھ آئندہ عام انتخابات میں دوبارہ کامیابی حاصل کرکے مسلسل دوسری بار حکومت بنانے کا منفرد اعزاز بھی حاصل کرلیں۔ چلیں یہ بھی مان لیں کہ مسلم لیگ ن کا دور اقتدار شروع ہونے کے ساتھ ہی دھاندلی کے الزامات کی آڑ میں جمہوریت کے خلاف سازش کی گئی لیکن کیا یہ بھی سازش ہے کہ جس پارلیمنٹ نے ڈھال فراہم کی آپ مشکل وقت گزرنے پر پھر اس کاراستہ بھول جائیں، جس جمہوریت کے گن گائیں،جمہوریت کی علامت پارلیمنٹ کواتنی اہمیت بھی نا دیں کہ اس کے ہر سیشن کی صرف ایک سٹنگ میں ہی شریک ہو جائیں۔ کیا اسے بھی کوئی چال سمجھا جائے کہ سالہا سال پارلیمانی پارٹی کا اجلاس منعقد نا ہو، ارکان پارلیمنٹ تو درکنار وفاقی ورزاء خصوصا اتحادیوں کی جمہوری وزیراعظم تک رسائی ممکن نہ ہو، کیا اسے بھی حکومت مخالف سازش سے ہی تعبیر کیا جائیگا کہ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری اور بلدیاتی انتخابات کا انعقاد بھی سپریم کورٹ کے احکامات پر کیا جائے لیکن وسائل اور اختیارات پھر بھی منتقل نہ کئے جائیں۔ کیا یہ بھی جمہوریت کے خلاف سازش ہے کہ تین سال بیت جائیں لیکن آئندہ عام انتخابات کو شفاف اور غیر جانبدار بنانے کیلئے انتخابی اصلاحات کے آئینی ترمیمی بل کو حتمی شکل نہ دی جا سکے۔ کیا یہ بھی غیر جمہوری عناصر کا کیا دھرا ہے کہ کرپشن کے نام پر حکومت کا وجود خطرے میں پڑنے کی نوبت تک آ جائے لیکن آپ بلا امتیاز اور آزادانہ احتساب کے نظام کو وضع کرنے کا قانون نہ بنا سکیں۔ کیا اسے بھی روڑے اٹکانے سے تعبیر کرینگے کہ چار سال گزر جائیں لیکن آپ کے ارکان قومی اسمبلی اجلاس کو بلا تعطل جاری رکھنے کیلئے کورم پورا کرنے کو یقینی نہ بنا سکیں۔ کیا یہ بھی عوامی عدالت کے فیصلے کی توہین ہے کہ آپ مہینوں بلکہ سالوں تک مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس نہ بلائیں۔ کیا یہ بھی حکومت کے خلاف سازش ہے کہ صوبے واویلا کرتے رہیں لیکن آپ دستاویزات تک رسائی دیں اور نہ ہی سی پیک میں ان کو مساوی حصہ فراہم کریں۔ کیا اسے بھی کٹھ پتلیوں کا کھیل کہیں گے کہ بارہا توجہ دلائے جانے کے باوجود نیشنل ایکشن پلان پر موثرعمل درآمد نہ کیا جائے ۔
کیا یہ بھی منتخب حکومت کی ٹانگیں کھینچنے کے مترادف ہے کہ اعلی افسران کی تقرری میں پسند نا پسند میرٹ ہو اور انتہائی اہم پوسٹوں کو خالی رکھا جائے یا ان پہ جونیئر افسران کی تعیناتی کی جائے۔ کیا یہ بھی انتظامی امور میں مداخلت ہے کہ چیئرمین سینیٹ اور عدالتیں آپ کو ریگولیٹری داروں کو وزارتوں کے ماتحت نہ کرنے کی ہدایات جاری کریں لیکن آپ اس کو بھی رتی برابر اہمیت نہ دیں۔ کیا اسے بھی پردوں کے پیچھے کارروائی کا نام دینگے کہ کابینہ کی منظوری کے باوجود قبائلی عوام کو پاکستانی شناخت دینے والی فاٹا اصلاحات کا آئینی بل پیش نہیں کیا جارہا۔کیا یہ بھی آپ کی حکومت کیخلاف سازش ہی ہے کہ پاناما پیپرز کی تحقیقات کیلئے آپ ٹی او آرز پر صرف اسلئے اتفاق نہ کریں کیوں کہ آپ وزیر اعظم سے احتساب شروع کرنے کے حق میں نہیں تھےاور جناب عالی کیا اسے بھی جمہوریت کے خلاف سازش ہی کہیں گے کہ آپ نے مستقبل کی ممکنہ وزیر اعظم کی رونمائی کیلئے یہ موقع استعمال کیا اور اس ’’سخاوت‘‘ کیلئے بھی ساری زندگی پارٹی کیلئے تج دینے والوں کی بجائے آپ کو اپنے گھر کا مکین ہی نظر آیا۔ جناب عالی بصد ادب گزارش ہے کہ اگر یہ سب جمہوریت کیخلاف سازش ہے تو کہیں آپ بھی تو اس سازش میں شریک نہیں؟

تازہ ترین