• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں سندھ اسمبلی کے حلقہ نمبر114کے ضمنی الیکشن میں گزشتہ روز پاکستان پیپلز پارٹی کے ممتاز رہنما سعید غنی کی کامیابی کئی حوالوں سے خاصی اہمیت کی حامل ہے۔ پیپلز پارٹی نے یہ نشست جو عرفان اللہ مروت کے نااہل قرار پانے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی، تاریخ میں پہلی بار جیتی ہے۔ 2008 ء میں اس حلقے سے ایم کیو ایم کامیاب ہوئی تھی۔ 2013ء میں مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر عرفان اللہ مروت نے یہ نشست جیتی تھی جبکہ ایم کیو ایم دوسرے اور پاکستان تحریک انصاف تیسرے نمبر پر رہی تھی۔ تازہ ضمنی الیکشن میں پیپلز پارٹی نے 23840 اور ایم کیو ایم پاکستان نے 18106 ووٹ لیے جبکہ مسلم لیگ (ن ) اور تحریک انصاف کے امیدواروں کو ملنے والے ووٹوں کی تعداد بالترتیب 5353 اور 5108رہی ۔ پیپلز پارٹی کی چارسالہ کارکردگی سے عوامی سطح پر بالعموم انتہائی عدم اطمینان کے باوجود اس نشست پراس کی کامیابی پر بعض مبصرین کی یہ رائے وزن رکھتی ہے کہ یہ اس کے امیدوار کی ذاتی کارکردگی اور مقبولیت کا نتیجہ ہے۔ایم کیو ایم کا اس نشست پراٹھارہ ہزار سے زائد ووٹوں کے ساتھ دوسری پوزیشن پر رہنا ثابت کرتا ہے کہ الطاف حسین سے علیحدگی کے باوجود پارٹی عوامی مقبولیت کی حامل ہے۔کراچی کی سیاست کا جو سب سے اہم پہلو اس ضمنی الیکشن سے ایک بار پھر سامنے آیا ہے وہ یہ ہے کہ اس شہر میں کئی عشروں سے کوئی سیاسی جماعت متبادل قیادت کی حیثیت سے ابھرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے۔ تحریک انصاف لوگوں کے دل جیتنے میں ناکام رہی ہے جبکہ جماعت اسلامی اور دیگر دینی سیاسی جماعتیں جو ماضی میں منتخب ایوانوں میں طویل مدت تک اس شہر کی نمائندگی کرتی رہی ہیں اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کے لیے کوئی مؤثر اور نتیجہ خیز حکمت عملی تشکیل نہیں دے سکی ہیں جبکہ متبادل قیادت کسی بھی معاشرے کی اہم ضرورت ہواکرتی ہے جس سے صحت مند مقابلے کی راہ ہموار ہوتی ہے لہٰذا شہر کی سیاسی قوتوں کوا س جانب بھرپور توجہ دینی چاہئے اور مسائل حل کرنے کیلئے موثر اور قابل عمل ایجنڈا سامنے لانا چاہئے۔

تازہ ترین