• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹر سعید غنی کو جیت مبارک ہو، سعید غنی سندھ اسمبلی میں پہنچ گئے ہیں، انہیں وزارت بھی مل جائے گی، وہ کئی دنوں سے الیکشن میں محنت کر رہے تھے، اسی محنت نے ایم کیو ایم کو شکست دی ہے۔ سعید غنی کا شمار پیپلز پارٹی کے ایماندار لوگوں میں ہوتا ہے، وہ دلائل سے گفتگو کرنے کے عادی ہیں، اپنی بات منوانے کا ہنر جاننے والے سعید غنی کو الیکشن مہم میں ان کی تقریروں نے بہت فائدہ پہنچایا۔
آج کل سیاسی پارہ ہائی ہے، اسلام آباد میں اس وقت کئی جگہوں پر کئی میٹنگیں چل رہی ہیں، رخصتی کی تیاری مکمل ہو چکی ہے، عوامی سیاست کرنے والے شیخ رشید نے بہت عرصہ پہلے کہا تھا کہ سپریم کورٹ سے ن لیگ کا سیاسی تابوت نکلے گا۔ جے آئی ٹی نے یہ تابوت بڑے دل سے بنایا ہے اگرچہ اس میں کافی دن لگ گئے ہیں۔ جب تابوت کی تیاری ہو رہی تھی تو بہت سے لوگوں کو پتہ چل گیا تھا بلکہ ان لوگوں کو زیادہ ’’چانن‘‘ ہو گیا تھا جو پیش ہوئے۔ ہر پیش ہونے والے کی حالت سے آپ واقف ہیں۔ اگر آپ نے پیشیوں کے مناظر کو بغور دیکھا ہو تو آپ کو ایک منظر تکرار کے ساتھ نظر آتا ہے مثلاً جب پیش ہونے کے لئے کوئی بھی جاتا تھا تو اس کا ’’چہرہ‘‘ ہشاش بشاش ہوتا تھا مگر پتا نہیں اندر جے آئی ٹی والے کیا کرتے تھے کہ باہر آتے ہی رونا پیٹنا شروع کر دیا جاتا تھا۔ عمران خان کو آسان ہدف سمجھ کر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا، میرے خیال میں جے آئی ٹی اراکین پیش ہونے والوں کے ساتھ جو کرتے تھے اس کی واحد خوبی ’’عمران کو لتاڑنا‘‘ تھی۔
یہ سطور میں جے آئی ٹی کی رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش ہونے سے دو چار گھنٹے پہلے لکھ رہا ہوں۔ حالات بتاتے ہیں کہ کچھ نہ کچھ ضرور ہونے والا ہے۔ یہ کچھ نہ کچھ کسی لمحے بھی ہو سکتا ہے، اب زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد کیا ہو گا؟ اس سلسلے میں ن لیگ واضح موقف اپنا چکی ہے، رپورٹ پیش ہونے سے پہلے ن لیگ نے جی بھر کر جے آئی ٹی کو ہدف تنقید بنائے رکھا۔ تنقید کے اس شوق میں کئی اداروں کی طرف اشارے کئے جاتے رہے۔ 9جولائی کے دن بھی سارا دن یہ کھیل جاری رہا، کھیل کے اختتامی لمحات میں ن لیگ کو بھٹو صاحب کی یاد ستانے لگی ہے، اب وہ بھٹو اور نواز شریف میں مماثلت ڈھونڈنے کی کوشش کر رہے ہیں مگر ایسا ہے نہیں۔
بھٹو اور نواز شریف کے حالات مختلف ہیں۔ 1977ء میں ہونے والے الیکشن بھٹو نے اپنی مقبولیت سے جیتے تھے مگر اپوزیشن کے نوستاروں نے دھاندلی کا الزام لگایا تھا۔ نواز شریف نے 2013ء کے الیکشن مقبولیت سے نہیں جیتے بلکہ انہیں مبینہ طور پر الیکشن جتوایا گیا، اس مقصد کے لئے مبینہ طور پر پیسہ، میڈیا، آر اوز، دھونس، دھاندلی سب کو استعمال کیا گیا، خاص طور پر دو ’’کرشماتی ہستیاں‘‘ اس جیت کا بڑا کردار تھیں۔ بھٹو صاحب پر دھاندلی کے الزامات لگے تو وہ نئے الیکشن کی طرف چلے گئے حالانکہ انہیں بلوچستان کے وزیراعلیٰ محمد خان باروزئی منع کرتے رہے جبکہ نواز شریف نے دھاندلی کے الزامات لگنے کے بعد نئے الیکشن کا سوچنا بھی گوارہ نہ کیا، بھٹو نے باہر جانے کے لئے کوئی معاہدہ نہیں کیا تھا جبکہ نواز شریف دس سالہ معاہدہ کر کے چلے گئے تھے۔ بھٹو کی مقبولیت چاروں صوبوں میں تھی جبکہ نواز شریف کے ساتھ ایسا نہیں ہے، مخالفین کہتے ہیں کہ نواز شریف کی جتنی بھی مقبولیت ہے وہ وسطی پنجاب ہی میں ہے۔ جب دونوں کے حالات ایک جیسے نہیں تھے تو دونوں کے لئے فیصلہ کیسے ایک جیسا آ سکتا ہے؟ فیصلہ مختلف ہو گا، بھٹو کے خاندان کے لوگ سیاست کرتے رہے مگر شاید یہاں ایسا نہ ہو۔ بھٹو کی بیٹی دو مرتبہ وزیر اعظم رہیں مگر نواز شریف کے معاملے میں شاید ایسا نہ ہو۔
جب شریف خاندان سعودی عرب چلا گیا تھا تو کئی مسلم لیگی رہنما ’’لیڈروں‘‘ کے ملک چھوڑ جانے کو برا بھلا کہتے تھے، انہیں یہ دکھ تھا کہ ان کے لیڈر مسلم لیگی کارکنوں کو بے یارومددگار چھوڑ گئے ہیں۔ 9جولائی کو خواجہ سعد رفیق نے لاہور میں جوشیلی تقریر کی، وہ شاید ’’خطباتِ شورش‘‘ پڑھ کر آئے تھے کیونکہ انہوں نے اردو کے علاوہ فارسی کے اشعار کا سہارا بھی لیا۔ انہوں نے جے آئی ٹی، سپریم کورٹ اور فوج کے بارے میں جو کہا میں اس پر تبصرہ نہیں کروں گا مجھے ان کی دو تین باتوں سے اختلاف ہے اور ایک بات سے اتفاق ہے۔ انہوں نے شریف خاندان کو کرپٹ قرار نہیں دیا جبکہ پاناما کیس میں الزام یہی ہے کہ شریف فیملی نے کرپشن کی، انہوں نے نواز شریف کو چاروں صوبوں کی زنجیر کہا، نہیں جناب ایسا نہیں، یہ تو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے لئے استعمال ہوتا تھا۔ نواز لیگ کے مخالفین کہتے ہیں کہ نواز شریف چاروں صوبوں کی زنجیر نہیں ہیں۔ انہوں نے بھارت کے حوالے سے بھی کچھ باتیں کیں، انہیں شریف خاندان کی بھارت میں کی گئی سرمایہ کاری کا جائزہ لینا چاہئے تھا۔ بھارتی سرمایہ کاروں سے کس کی دوستیاں ہیں، اس کا جائزہ لینا چاہئے تھا، کیا بھارتی سرمایہ کاروں کے شریف خاندان سے مراسم نہیں ہیں، اس کی گواہیاں موجود ہیں۔ خواجہ سعد رفیق کو سوچنا چاہئے تھا کہ پاکستان کا بڑا دشمن اجیت کمار دوول کہاں گیا تھا؟ خواجہ سعد رفیق نے جے آئی ٹی رپورٹ کو تسلیم نہ کرنے کی بات کی، فیصلوں سے اختلاف کرنے کی بات کی، انہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ ایک شہید کے بیٹے کو اتنی خوشامد زیب نہیں دیتی، ہاں مجھے ان کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ’’اگر ہماری سیاست ختم کی گئی تو سیاست کوئی اور بھی نہیں کر سکے گا‘‘ اس کی بڑی وجہ مبینہ طور پر یہ ہے کہ ن لیگ نے اپنے کارکنوں کو افراتفری کا پیغام دے رکھا ہے، مبینہ اطلاعات ہیں کہ فیصلہ نہیں مانا جائے گا بلکہ حالات بگاڑنے کی کوشش کی جائے گی، ہنگامہ آرائی کی جائے گی۔
ن لیگ نے آخری مہرے کے طور پر آخری دن مولانا فضل الرحمٰن کو میدان میں اتارا، اب ان کی کون سنتا ہے۔ وہ جن کے سہارے مسلسل اقتدار میں رہے، اب ان سے پہلے سے مراسم نہیں ہیں۔
جب ناقابلِ تردید ثبوت سامنے آ جائیں تو کیا ہو سکتا ہے۔ ہنگامہ آرائی اور افراتفری کی صورت میں ادارے متحرک ہوں گے مگر کچھ نہیں ہو گا کیونکہ سب کچھ کنٹرول ہو جائے گا۔ فارسی کی ایک حکایت ہے کہ ’’جب دمشق میں قحط پڑا تو دمشق کے عاشقوں کو عشق بھول گیا تھا‘‘اطلاعات یہی ہیں کہ کھیل ختم ہو چکا ہے بس رسمی اعلان باقی ہے مگر اس مرتبہ یہ نہیں ہو گا کہ ’’کھیل ختم، پیسہ ہضم‘‘ اس مرتبہ پیسہ ہضم نہیں کرنے دیا جائے گا، مجھے تو کچھ عرصے کے لئے الیکشن نظر نہیں آ رہے بلکہ کڑا احتساب نظر آ رہا ہے لہٰذا کرپٹ لوگو! تیار ہو جائو، سب کا احتساب ہونے والا ہے۔ کرپٹ لوگ آج کل ریحانہ قمر کی یہ ہائیکو بار بار پڑھا کریں کہ
پھر پھول کھلیں شاید
اِس بار تو لگتا ہے
ہم پھر نہ ملیں شاید

تازہ ترین