• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چلے تو کٹ ہی جائے گا سفر۔۔۔
جیسے چلتے پانی سے وضو جائز ہے کہ چلنا تطہیر کا عمل ہے، رکنے سے انسان کے اعضاء منجمد ہو جاتے ہیں، پانی غلیظ جوہڑ کی شکل اختیار کر لیتا ہے، اسی طرح جمہوریت اگر چلتی رہے تو خود بخود صاف شفاف ہوتی رہتی ہے ہمارے ہاں جمہوریت کا دورانیہ اچھا خاصا مختصر اور ڈسٹرب رہا ہے، ہماری ذاتی رائے ہے کہ موجودہ حکومت اگر اپنی مدت پوری کرے گی تو ترقی کے امکانات مزید روشن ہوں گے، ہم جیسے بھی اور ہماری قیادتیں جو بھی ہوتی ہیں، عوامی انتخاب کا نتیجہ ہیں تعلیم کا پھیلائو، بیداری اور حسن انتخاب کی صلاحیت پیدا کرتا ہے، لوگ پہلے سے زیادہ باخبر اور تعلیم یافتہ ہیں، میڈیا میں ممکن ہے سقم ہو مگر بحیثیت مجموعی بیداری و باخبری پیدا کرنے میں اس کا بڑا کردار ہے، ہمارا آج، کل سے بہتر ہے، عوام کے پاس حکمرانوں اور طرز حکمرانی کو پرکھنے کی اہلیت موجود ہے، کبھی سب ٹھیک نہیں ہوتا، کبھی برائی کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا، البتہ دھیرے دھیرے سفر بہتری کی جانب تیز ہوتا جاتا ہے، منفی ذہنیت کی حوصلہ شکنی کی جائے تو جمہوریت کی بالادستی رہے گی، بصورت دیگر خلفشار میں قوم کا وقت ضائع ہو گا۔ صبر، شکر اور برداشت افراد کو بلندیوں پر پہنچا دیتے ہیں، 1947سے شروع ہونے والا سفر آج کچھ منازل طے کر چکا ہے، آبادی کی کثرت اور تعلیم کی کمی نے ہمیں کافی نقصان پہنچایا ہے، آج اگر ہم 20کروڑ کے بجائے 10کروڑ ہوتے تو ہماری زندگی زیادہ خوشحال ہوتی، آج پاکستان کو اس طرح ظاہر نہ کیا جائے کہ یہاں کچھ بھی باقی نہیں رہا، ملک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، ایسا ہرگز نہیں، اگر کرپشن ہے تو اس کا سدباب بھی ہو رہا ہے، ترقی کے پروگراموں کے لئے امن و سکون اور وقت درکار ہوتا ہے، خدا کرے کہ 2018کے انتخابات میں لوگ جاری ترقی کو برقرار رکھنے کا فیصلہ دیں۔
٭٭٭٭
یہ جو ’’ورنہ‘‘ ہے دشمن ہے ہمارا
اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ:حکمران اقتدار کی خاطر جمہوریت اور اداروں کو دائو پر نہ لگائیں ورنہ خطرناک نتائج ہوں گے۔ جیسے پانی اوپر سے نیچے کی طرف بہتا ہے، ہر برائی اچھائی بھی اوپر سے چلتی ہے اور نیچے تک پہنچتی ہے، لفظ ورنہ کا استعمال ہمارے اوپر کے منصب داروں میں اتنا عام ہو گیا ہے کہ لامحالہ اب یہ گلی محلوں گھروں میں بھی بکثرت استعمال ہونے لگا ہے، اسلام میں کاش اگر اور شاید کے الفاظ سے بھی پیغمبر اسلام ﷺ نے منع فرمایا ہے، الغرض جن الفاظ سے خوف و ہراس اور فساد پیدا ہونے کا اشارہ ملتا ہے اور جن سے بے یقینی جھلکتی ہے ان کو بلاوجہ بکثرت استعمال کرنے سے منفی نتائج نکلتے ہیں، ایک بار تو اس ورنہ نے ہمیں پہلے ڈرایا پھر ہنسایا، مالک مکان نے کہا کرایہ بڑھائو ورنہ ہم نے پوچھا ورنہ کیا مطلب؟ مالک مکان نے بڑے طیش کے انداز میں کہا ورنہ کچھ نہیں کروں گا، اور ہم دونوں مل کر ہنستے رہے، یہ جو مزاح کا تڑکا ہے یہ بھی ماحول کو خوشگوار بنا دیتا ہے مگر کسی کو ڈرا دھمکا کر مزاح، جانکاہ بن جاتا ہے، اگر مگر شاید کاش کے الفاظ کو اگر مثبت انداز میں حسب ضرورت استعمال کیا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، پی پی کے خورشید شاہ جب سے اپوزیشن لیڈر بنے ہیں اکثر دھمکی نہیں دیتے مگر اب وہ ورنہ پر آ گئے ہیں، پیپلز پارٹی اپنی صفوں کو درست کرے، اور اسے بھٹو کے بجائے زرداری پارٹی نہ بننے دیا جائے اس کے لئے وہ اپنی قیادت سے ضرور کہیں کہ اصلی والی پیپلز پارٹی بحال کرو ورنہ۔۔۔ اکثر جمہوری ملکوں میں دو ہی بڑی پارٹیاں ہوتی ہیں، ہمارے ہاں بھی ایسا ہی تھا لیکن ان دونوں سے کچھ دانستہ نادانستہ غلطیاں ایسی ہو گئیں کہ ایک کی چونچ دوسری کی دم کو نقصان پہنچا، یاد آیا کہ خورشید شاہ، پارلیمنٹ کو پارلیامنٹ نہ کہا کریں ورنہ۔۔۔ کچھ بھی نہ ہو گا، اگر ہماری بات ملک کی ان دونوں بڑی پارٹیوں کو سمجھ آ جائے مہربانی کر کے آئندہ مفاہمت نہ کریں، سیاست میں جب وہ مفاہمت کریں گی تو نہ ایک ٹھیک سے اقتدار میں رہے گی اور نہ دوسری پارٹی بھی اپوزیشن حزب مخالف کا مطلوبہ معیاری کردار ادا کر سکے گی۔
٭٭٭٭
فرض کیا!
فرض کیا عوام نہ ہوتے تو ہمارے ہاں ظلم، مہنگائی، بیروزگاری نہ ہوتی، فرض کیا مسئلہ کشمیر نہ ہوتا تو کشمیر آج ہمارے پاس ہوتا، فرض کیا مودی نہ ہوتے تو ٹرمپ لنگڑا کے چلتے، فرض کیا مرنا نہ ہوتا تو ہم ہوتے اور آب حیات ہوتا، فرض کیا اسپتال نہ ہوتے تو مریض آسانی سے مر سکتے، فرض کیا اقتدار نہ ہوتا تو ہوس نہ ہوتی، فرض کیا بیوی نہ ہوتی تو محبوبہ ہوتی، فرض کیا بچے نہ ہوتے تو ہم نہ ہوتے، فرض کیا جنت نہ ہوتی، تو مسجدیں ویران ہوتیں، فرض کیا زلف نہ ہوتی، تو دن کو رات نہ ہوتی، فرض کیا مزدور نہ ہوتا، تو ہم سڑکوں پر ہوتے، فرض کیا جمہوریت نہ ہوتی، تو بادشاہت ہوتی، فرض کیا اقرار نہ ہوتا تو انکار بھی نہ ہوتا، فرض کیا اخبار نہ ہوتے تو لوگ زیادہ باخبر ہوتے، فرض کیا انسان نہ ہوتا تو آدمی ضرور ہوتا، فرض کیا عورت نہ ہوتی تو تصویر کائنات بھی نہ ہوتی، فرض کیا موسیقی نہ ہوتی تو لوگ خوش گفتار ہوتے، فرض کیا شیطان نہ ہوتا تو یہ دنیا ہی نہ ہوتی، فرض کیا تحریر نہ ہوتی تو حافظے نہایت تیز ہوتے، فرض کیا خواجہ سرا نہ ہوتے تو میانہ روی نہ ہوتی، اگر فرض کیا بھی نہ ہوتا تو مفروضۂ کائنات نہ ہوتا۔
٭٭٭٭
جھوٹ بولے کوا کاٹے!
....Oریمنڈ ڈیوس:میں نے جھوٹ نہیں بولا۔ پاکستانی لیڈر بیان بدل رہے ہیں،
کسی نے تو ضرور جھوٹ بولا ہے!
....Oشہباز شریف:پاکستان کی قسمت سے سفاک کھیل کھیلنے والے عوام کے خیر خواہ نہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ یہ بھی شاید کرکٹ ہے۔
....Oشاہ محمود قریشی نے 10جولائی کے بارے کہا:آج ملکی تاریخ کا دھارا بدل سکتا ہے۔
حضرات آپ نے آج بھی دیکھ لیا اور تاریخ کا دھارا بھی، کوئی تبدیلی نظر آئی؟
....Oپی پی:حکمران خاندان بھاگنا چاہتا تھا،
اب پیپلز پارٹی کا مفروضوں پر گزارہ ہے۔

تازہ ترین