• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہرشخص کے ذہن اور زبان پر ایک ہی سوال ہےکہ اب کیاہوگا؟ جے آئی ٹی کی ساٹھ روزہ پیش کردہ تحقیقات پرسپریم کورٹ کیا فیصلہ سنائے گی؟ کیا کوئی نیا سیاسی وآئینی بحران جنم لینے جارہاہے یا سب کچھ ’’ٹھیک‘‘ ہونے کی امید بن رہی ہے؟حکومت اور اپوزیشن کی سیاسی وعدالتی میدان میں فتح یا شکست کے نتائج کیا ہوں گے؟ آئندہ کا سیاسی نقشہ کیا ہوگا ؟ سیاست وجمہوریت باقی رہے گی بھی یا نہیں؟ سوالات بہت ہیں شاید کچھ کےجواب بھی نہیں تاہم حالیہ چند مہینوں اور ہفتوں میں پیدا ہونے والی صورت حال آئندہ کےحالات کا کچھ اندازہ یا پتہ ضرور دے رہی ہے، سپریم کورٹ کےجےآئی ٹی کو دیئےگئے 13سوالوں پر جےآئی ٹی نے 60 دنوں میں34 افراد سے 105 گھنٹے تفتیش کی،جس میں وزیراعظم نوازشریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز سمیت خاندان ورشتہ داروں کے 8 افراد سے 55 گھنٹے تفتیش کی گئی، سب سے زیادہ حسین نواز کو چھ مرتبہ بلاکر 30 گھنٹے سے زائد تفتیش کی گئی جبکہ وزیراعظم کے سمدھی وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو صرف ایک مرتبہ بلاکر45 منٹ تک تفتیش کی گئی بعض حلقوں کا دعویٰ ہےکہ ماضی کے کئی مصدقہ واقعات کی طرح ’’حکومتی کوششوں‘‘ سے عین ممکن ہےجے آئی ٹی سپریم کورٹ سے تحقیقات نامکمل ہونے کا جواز بتاکر مزید وقت مانگ لے اور پھر سپریم کورٹ کا فیصلہ گرمیوں کی سالانہ چھٹیوں کی نذر ہوجائے، وزیراعظم کی نااہلی کا معاملہ مزید کچھ ہفتوں یا مہینوں کے لئے التوا میں چلا جائے تاہم اس کے امکانات زیادہ روشن نہیں۔
قارئین کرام، جے آئی ٹی کی سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ کےبعد نتائج اور ممکنہ فیصلے کےبارے میں کئی سازشی تھیوریز بھی گھڑی جاچکی ہیں۔ اپنی رائے دینے سے پہلے جاری قضیے سے متوقع فیصلوں اور سازشی تھیوریز پر ایک نظر ڈالی جائے، کہا جارہا ہے کہ سپریم کورٹ جے آئی ٹی کی جانب سے پیش کردہ عدم تعاون، عدم عمل درآمد اور اپنے حق میں ثبوتوں کی فراہمی میں ناکامی کی رپورٹ کی بنیاد پر نوازشریف کو نااہل قرار دے سکتی ہے، دوسرا جے آئی ٹی کی رپورٹ غیرتسلی بخش قرار دےکر شاید سپریم کورٹ اپنی دانست اور اختیار کی روشنی میں حکمرانوں کےحق میں فیصلہ دیدے، تیسرا سپریم کورٹ وزیراعظم نوازشریف کو ’’کلین چٹ‘‘ دے اور ’’بعض‘‘ افراد کو نامزد کرکے ان کےخلاف نیب یا دیگر اداروں کو مزید تحقیقات کا حکم دے، عوام بھی خوش اور حکمراں بھی خوش، دیکھا جائے تو ان سازشی تھیوریز کے درمیان حکمراں خاندان کے پاس بھی کچھ سیاسی و آئینی و قانونی آپشنز ہیں؟ پہلا آپشن یہ ہوسکتا کہ جناب وزیراعظم مرد بحران بن کر فیصلے سے پہلے یا ممکنہ نااہلی کے بعد اپنی جگہ متبادل کو قیادت سونپیں اور قانون کا سامنا کرتے ہوئے اپنا قانونی دفاع کریں اور عوامی عدالت میں سرخرو ہوجائیں؟ دوسرا یہ کہ وزیراعظم وسیع تر آئینی اختیارات کے تحت سیاسی کنٹرول اپنے ہاتھ میں رکھتے ہوئے فیصلہ آنے سے پہلے قومی و پارلیمانی سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیں، اسمبلیاں تحلیل کردیں اور90 روز میں عام انتخابات کا اعلان کردیں۔ تیسرا جے آئی ٹی اور مجموعی تحقیقاتی پراسیس پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ کےفل بنچ کی تشکیل کےلئے آئینی و قانونی راستہ اختیار کریں (گو اس میں پہلے ہی بہت تاخیر ہوچکی ہے) فیصلہ حق میں آئے یا خلاف چوتھا آپشن ’’مورد بحران‘‘ کا الزام سر تھوپنے کےمصداق ہے کہ اقتدار کو سینے سے چمٹائے رکھیں، عدالت کے فیصلے سے ممکنہ طور پرنااہل ہوں پھر اس کو تسلیم کرنے سےانکار کردیں (جس کا ن لیگی وزرا پہلے ہی اظہار کرچکے ہیں) اور اپنے خاندان سمیت پارٹی کو مشکل میں ڈال کر آئندہ انتخابات کے’’طویل انتظار‘‘ کا کشت کاٹیں، میری رائے میں یہ ایک بات بہت واضح ہےکہ حکمراں جماعت کو یقین ہوگیاہےکہ اب کوئی بھی آپشن نہیں بچا ماسوائے ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کے ساتھ مبینہ مہم جوئی کے۔ ان کی کچن کیبنٹ کے قریبی عزیز، وزیر نہ صرف اس کا کھل کر تنقیدی اظہار کر رہےہیں بلکہ عوام کے حق حاکمیت کے نام پر لڑنے مرنے کے واشگاف نعرے اور دعوئوں میں بھی ایک دوسرے سےبازی لے جانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، صاحبزادی کہتی ہیں کہ جو ڈر گیا وہ مرد نہیں جبکہ مجھ سمیت بعض سینئر صحافیوں نےایک حالیہ سفری نشست کےدوران دیکھا کہ وزیراعظم کی غیرمعمولی سنجیدگی ،سفید و زرد چہرہ اور سپاٹ لہجہ اس امر کی غمازی کر رہا تھا کہ وہ ہرقسم کی صورت حال کا سامنا کرنے کو تیار ہیں اور ہرقسم کی ’’اپوزیشن‘‘ کے ساتھ لڑائی میں جس حد تک جاسکے جائیں گے اور مقابلہ کریں گے باوجود اس کےکہ میں نے اوردیگر ساتھیوں نے ان کے مشورہ مانگنے پر کہا کہ آپ معاشی ترقی، امن کےقیام میں کامیابیوں اور بجلی بحران پر کافی حد تک قابو پانےمیں کامیابیوں کو اپنا سیاسی بیانیہ بناکر عوام کا اعتماد حاصل کریں، لیکن وہ شاید فیصلہ کرچکے ہیں حالانکہ انہیں اس ان دیکھی لڑائی میں اپنے ’’وفاداروں‘‘ کی تعداد اور وفاداری نبھانے کا اندازہ بھی نہیں۔
یہ بھی طے ہے کہ ن لیگ، قیادت کےخلاف فیصلہ آنے کی صورت میں اس کو غیرمنصفانہ اور جانبدارانہ قرار دیتےہوئے عوام سے ہمدردی اور لاچارگی کا پرچار کرے گی اور اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ کے ساتھ انتخابی مہم شروع کردے گی ، مدت پوری نہ کرنے کا بھی راگ الاپا جائےگا، اور خوش قسمتی سےبچ نکلے تو آئندہ کئی دہائیوں تک ن لیگ زندہ شہید کا رتبہ پا جائے گی۔ دوسری طرف سپریم کورٹ کےکسی بھی ممکنہ فیصلے سے سیاسی اسٹیج کےدو مرکزی کردار پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو کیا ملےگا؟ یہ بھی ایک بڑا اور کڑا سوال ہے،نوازشریف بچ جائیں یا نااہل ،تنقید کاروں کی نظر میں پیپلزپارٹی (زرداری گروپ)غیر مستفید ہی رہے گی، کیونکہ اس نےاعلانیہ و غیر اعلانیہ معاہدوں اور گٹھ جوڑ کےتحت حکومت کے خلاف کبھی کوئی تحریک تو چلانا تو دور کی بات ،پارلیمنٹ اور جمہوریت بچانے کے نام پر انہیں ہرممکن سپورٹ کیا،یہی نہیں غلطی سے ایوان میں آنے والےعمران خان کو بھی دودھ سےبال کی طرح ہرمرتبہ باہرنکال پھینکا کہ خود اپوزیشن کی نہ کسی اور کو کرنے دی۔ وکٹ کے دونوں طرف خوب کامیابی سے کھیلا ۔ سپریم کورٹ کا کوئی بھی فیصلہ تحریک انصاف کی زندگی اور موت کا مسئلہ ہے، فیصلہ نوازشریف کے خلاف آیا تو سارا کریڈٹ لینے کے ساتھ آئندہ انتخابی نعرہ لگا کر اقتدار بھی حاصل کرسکتی ہے، اور حق میں آیا تو تحریک انصاف کے لئے ماسوائے سڑکیں ماپنے اور پیٹنے کےکوئی اور چارہ نہیں ہوگا۔
کچھ حلقے سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جوبھی ہوتا ہے وہ ایک ’’اسکرپٹ‘‘ کے تحت ہوتا ہے جس میں مقامی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ سمیت عالمی ایکٹرز کا اثرورسوخ، تعاون اور مشورہ شامل ہوتا ہے اور 70 سال میں ہونے واقعات وسانحات اس کا واضح اور ناقابل تردید ثبوت ہیں، اب بھی قرین قیاس یہی ہےکہ نواز حکومت کو اس مرتبہ مقامی ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ کی مبینہ سخت ترین مخالفت کے ساتھ ساتھ عالمی اسٹیبلشمنٹ بشمول دیرینہ دوست عرب ملک کی محبت وحمایت میں بھی شدید کمی کا سامنا ہے؟ اس کی بڑی وجہ سعودی قطر تنازع میں قطری شہزادوں سے گہرے روابط اور ’’غائبانہ‘‘ مدد کے خطوط بھی شامل ہیں۔ اس کےواضح اظہار کی جھلک امریکہ سعودی عالمی امن کانفرنس میں نظر آئی جب وزیراعظم نوازشریف کو نہ صرف تقریر نہیں کرنے دی گئی بلکہ امریکہ سمیت دیگرعالمی رہ نمائوں نے بھی انہیں نظرانداز کیا۔ کچھ بھی کہیں ،فیصلہ آنے اور سزا ملنے میں بہت فرق ہوتا ہے اگر پاکستان کی تاریخ میں اقتدار میں رہتے ہوئے وزیراعظم اور ان کےخاندان کا احتساب ہورہا ہے تو مقبول سیاسی شخصیت عمران خان اور ان کے ساتھیوں اور دیگرسینکڑوں ارب پتیوں کااحتساب، آف شور کمپنیاں بنانے اور الیکشن کمیشن میں کیسز سمیت دیگر سنگین الزامات کی تحقیقات کیا وقت کا تقاضا نہیں ہے؟ عوام پوچھ رہے ہیں کہ ان ’’بڑوں‘‘ اور ’’پیاروں‘‘ کی باری کب آئےگی ؟ کہا جارہا ہے کہ ان کے حوالے سے کیسز میں بہت سے ’’مسنگ لنکس‘‘ موجود ہیں اور ان کی باری بھی جلد آسکتی ہے لیکن کیا ہی اچھا ہو اگر خان صاحب اپنے قریبی ساتھیوں کو عدالت کے سامنے پیش کردیں تو ملک کے عظیم اور مزید مقبول ترین سیاسی رہ نما کے طور پر ابھر سکتے ہیں، یہ بھی سچ ہےکہ ڈور اور زور تو کسی اور کے ہاتھوں میں ہے ہوگا وہی جو ’’وہ‘‘ چاہیں گے لیکن عوام کی نظر میں سپریم کورٹ اور دیگر تحقیقات وانصاف کرنے والے اداروں کے لئے احترام و اعتقاد کی ساکھ بنانےاور تاریخ رقم کرنے کا سنہری موقع آن پہنچاہے اوریہ غیرجانبداری سےانصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کا کڑا امتحان بھی ہے، یہ بھی سچ ہےکہ میرٹ کی بجائے ماضی کی روایات کو دہرایا گیا تو پھر کچھ نہیں بچےگا اور ’’سب‘‘ ہاتھ ملتے رہ جائیں گے پھر مرد بحران اور ’’مورد بحران‘‘ کا فرق بھی مٹ جائےگا۔!

تازہ ترین