• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مقبوضہ جموں و کشمیر کی سب سے بڑی آزادی پسند عسکری جماعت حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان مظفر وانی اپنے 8جولائی 2016ء کے حراستی قتل سے تین روز قبل اپنے دو دوستوں کو آبائی قصبے ترال کے بھارت نواز ممبر اسمبلی مشتاق احمد شاہ کے پاس بھیج دیتے ہیں۔ شاہ کی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی محبوبہ مفتی کی زیرقیادت ہندو شدت پسند بی جے پی کے ساتھ ملکر مقبوضہ علاقے میں حکومت کررہی ہے جہاں انہوں نے پچھلے دو سالوں میں بےپناہ قتل وغارت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔
مختصر سلام دعا کے بعد دونوں نوجوانوں نے اپنا مدّعا بیان کیا اور مشتاق شاہ سے اسکا اسمارٹ فون لیکر اس پر بلیک بیری مسینجر ڈاؤن لوڈ کرکے برہان وانی سے رابطہ کیا جو اسوقت ضلع اسلام آباد کے کوکرناگ پہاڑی علاقے میں کہیں مقیم تھے۔کشمیری ہندو شدت پسندوں جنہیں عرف عام میں پنڈت کہا جاتا ہے نے1930 کی دہائی میں اسلام مخالف پروپیگنڈہ اور نفرت پھیلاکے ریاست کے ہندو حکمرانوں سے علاقے کا نام بدلواکر ہندو نام اننت ناگ رکھوادیا۔ تب سے اگرچہ سرکاری طورپر اس کو اننت ناگ کہا جاتا ہے مگر عام کشمیری اسے ابھی تک اسلام آباد ہی کہتے ہیں۔
ممبر اسمبلی مشتاق شاہ سے گفتگو کے دوران برہان وانی نے مقبوضہ کشمیر کی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ وہ چاہتے تھے کہ مفتی فوری طور پر ذاتی مداخلت کرکے حالات کو خراب ہونے سے روکیں۔ انکو یہ اطلاعات ملی تھیں کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیاں امرناتھ یاترا پر حملہ کروانا چاہتی ہیں۔ برہان وانی کے قریبی ذرائع کے مطابق بھارتی ایجنسیاں درجنوں یا سینکڑوں ہندو زائرین کا قتل عام کراکر اسکا ملبہ داعش پر گراکر کشمیری جدوجہد آزادی کو جہادی دہشت گردی کے ساتھ جوڑ کر بدنام کرانا چاہتی تھیں۔ مزید برآں اس سے بھارت کی ہندو شدت پسند حکمراں جماعت بی جے پی کو مختلف صوبوں میں ہونے والے انتخابات میں قتل وغارتگری سے پیدا ہونے والی مکدّر فضا کی بدولت سیاسی طور پر کافی فائدہ پہنچ سکتا تھا۔ برہان وانی نے انتباہی لہجے میں مشتاق شاہ کو خبردار کیا کہ محبوبہ مفتی کو جلد از جلد مداخلت کرکے اس ممکنہ قتل عام کو روکنا چاہئے۔
وانی کو بھارتی سازش کی سن گن کئی ہفتہ پہلے ہی مل گئی تھی کیونکہ بھارتی ایجنسیاں اپنے کارندوں کے ذریعے مسلسل افواہیں پھیلارہے تھیں کہ آزادی نواز عسکریت پسند ہندو زائرین پر حملے کی پلاننگ کررہے ہیں۔ ان افواہوں کو اعتبار بخشنے کیلئے جون 2016 ء کے اوائل میں بھارتی سرحدی فورس بی ایس ایف کے ڈائریکٹر جنرل مسٹر کے کے شرما نے ایک پریس کانفرنس کے دوران انٹلی جنس رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ حریت نواز عسکریت پسند امرناتھ یاترا پر حملہ کرنے کی پلاننگ کررہے ہیں۔ مسٹر شرما کے دعوؤں کو بھارتی میڈیا میں بے پناہ پذیرائی ملی جس سے خوف اور نفرت کی ایک فضا قائم ہوگئی۔ حالات کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے برہان وانی نے فوراََ ایک ویڈیو بیان جاری کیا جس میں فوجی دعووؤں کی تردید کرتے ہوئے ہندو یاتریوں کو مکمل تحفظ کا یقین دلایا گیا۔
برہان وانی ایک غیر معمولی اور عبقری عسکری کمانڈر تھے۔ انہوں نے بھارت کے خلاف کشمیریوں کی جدوجہد کو نہ صرف ایک نئے انداز میں پیش کیا بلکہ اپنی انتھک پبلک ڈپلومیسی کے ذریعے کشمیریوں کی نئی نسل کے ساتھ قریبی تعلق بھی بنایا ۔1990 اور2000 ء کی دہائیوں میں کشمیری عسکریت پسندوں کی ایک قابل ذکر تعداد اغوا کاری، تاوان، بھتہ خوری اور قتل غارتگری میں ملوث تھی کیونکہ بندوق کے بل پر حاصل ہونے والی طاقت کے نشے میں وہ انسانیت اورفرائض یکسر بھول گئے تھے۔
وانی کے کزن اور مرشد عادل میر جنکی جون 2014 ء میں شہادت کے بعد برہان کمانڈر کے منصب پر فائز ہوگئے تھے نے عسکریت پسندوں کا عوامی شعور بدلنے میں مدد دی۔ مرحوم عادل میر کی بزرگی اور عظمت تمام علاقے میں زبان زد عام تھی اور لوگ دور دور سےآکر ان سے دم کرانے یا دم کرایا ہوا پانی تبرک کی صورت لے جاتے تھے۔
تشدد کو اپنانے سے پہلو تہی کمانڈر برہان وانی کا طرۂ امتیاز رہا۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی ذات کسی حوالے سے کہیں بھی پولیس ریکارڈ کا حصّہ نہیں رہی۔ عادل میر کی شہادت کے چند ہفتوں بعد حزب المجاہدین نے اسکی مخبری کرنے والی ماں بیٹی کا پتہ لگا کر انکو پکڑا جنہوں نے معمولی پیسے کے عوض عادل کی خفیہ کمین کا پتہ بھارتی فوج کو دیا تھا۔ عادل میر کی عوام اور مجاہدین کے درمیان بے انتہا مقبولیت کیوجہ سے ان خواتین کے خلاف بے انتہا غصہ پایا جاتا تھا مگر برہان وانی نے کمال متانت سے انکو معاف کرتے ہوئے انکو کچھ پیسے بھی دیدیئے اور مؤدبانہ لہجے میں تائب ہونے کی گزارش بھی کی۔ اسی طرح کے ایک اور واقعہ میں جب برہان گروپ کے چند عسکریت پسندوں نے جنوری 2015ء میں بھارتی فوج پر حملے کرکے کئی فوجیوں بشمول کمانڈنگ آفیسر کرنل مہندر ناتھ رائے کو ہلاک کردیا تو اس واقعے نے برہان کو کافی پریشان کردیا۔ گزشتہ سال اگست کے اوائل میں جب میں نے ترال میں واقع برہان وانی کے گھر کا دورہ کیا تو انکے والد مظفر وانی نے مجھے بتایا کہ اس واقعے کے بعد کئی دنوں تک برہان انتہائی کرب میں رہا کیونکہ اسکے بموجب فوجیوں کی ان ہلاکتوں سے احتراز کیا جاسکتاتھا۔
اگرچہ مشتاق وانی بھارت نواز سرکاری سیاسی جماعت پی ڈی پی کے رکن اسمبلی ہیں مگر وہ برہان وانی کی عظمت کے معترف ہیں۔ ایک ہی قصبے کے باشندے ہونے کیوجہ سے وہ ایک دوسرے کے خاندان سے واقف تھے مگر کمانڈر برہان سے انکی ملاقات حیرت انگیز حالات میں دسمبر 2014ء کے اوائل میں ہوئی۔ مشتاق شاہ ترال کے ایک گاؤں میں ایک بھارت نواز سیاسی بیٹھک سے خطاب کرنے جارہے تھے۔ انکے ہمراہ انکے دو سرکاری محافظ تھے کہ اچانک انکا سامنا بھاری اسلحے سے لیس درجن بھر عسکریت پسندوں سے ہوا جنکی قیادت برہان وانی کررہے تھے۔ ’’جب میں نے انکو دیکھا تو مجھے تو جیسے ہارٹ اٹیک ہوگیا‘‘ مشتاق شاہ نے مجھے گذشتہ سال بتایا۔ ’’مجھے پورا یقین ہوگیا تھا کہ ہمارا آخری وقت آگیا ہے مگر میں حیرت زدہ ہوکر رہ گیا جب برہان نہ صرف میرے ساتھ گرمجوشی سے پیش آیا بلکہ میرے گھر والوں کی خیریت بھی پوچھی‘‘۔ مشتاق شاہ کیلئے سب سے بڑی حیرت کی بات یہ تھی کہ برہان نے ان سے الیکشن کے بارے میں کوئی بات نہیں کی اور انہیں رخصت کرتے وقت فوجی انداز میں سلیوٹ پیش کیا۔ اس اچانک ملاقات کے بعد دونوں میں رابطہ بحال ہوگیا اور وہ کئی بار ملے۔ اس کے علاوہ برہان ان کو کئی مواقع پر علاقے کے نادار اور مفلس لوگوں کیلئے امداد کی درخواستیں بھی بھیجتا رہا۔
پانچ جولائی 2016 کو بلیک بیری پر برہان سے ملاقات کے بعد مشتاق شاہ نے محبوبہ مفتی کو ایک فوری پیغام بھیجا۔ اس کے کچھ عرصے بعد بھارتی سیکورٹی ایجنسیوں نے شاہ کا فون ہیک کرلیا۔ انہوں نے برہان کی جانب سے بھیجے گئے دونوں نوجوانوں کا بھی کھوج لگادیا اور دونوں کو چھ جولائی کی صبح ترال قصبے سے گرفتار کرکے سرینگر ائیرپورٹ سے متصل بدنام زمانہ عقوبت خانے کارگو لیجایا گیا جہاں مختلف انٹیلی جنس ایجنسیوں کے درجن بھر اہلکاروں کی موجودگی میں انکو برہان وانی سے بلیک بیری مسینجر کے ذریعے رابطہ کرنے پر مجبور کیاگیا اور یوں چند گھنٹے کے اندر اندر برہان وانی کا سراغ لگالیا گیا۔ 7اور 8جولائی کی درمیانی رات بھارتی فوج کے ایک کمانڈو گروپ نے اسلام آباد ضلع کے کوکرناگ علاقے کے بمڈورہ گاؤں کے ایک گھر سے برہان وانی کو نیند کی حالت میں بستر سے گھسیٹا ۔کئی گھنٹوں کی ایذارسانی اور تذلیل کے بعد بالآخر انہیں فجر کے قریب قتل کردیا گیا۔ نیند کی حالت میں گرفتاری کے وقت برہان کے پاس کسی بھی قسم کا اسلحہ نہیں تھا۔

تازہ ترین