• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اگر آپ کو میری ای میل میں سے کچھ ایسی سطور اس قابل لگیں کہ وہ آپ کے کالم کی زینت بن سکیں تو انہیں شامل کرلیجیئے گا لیکن براہ مہربانی میرا نام صیغہ راز میں رکھیئے گا، مجھے 25سال سے زائد عرصہ ہوچکاہے میں امریکا میں موجود ہوں نوجوانی میں امریکا چلا گیاتھا وہاں جاکر میں نے اپنی زندگی گزارنے کیلئے ہر وہ کام کیا ہے جو مشکل بھی تھا، محنت طلب بھی تھا اور اس سے کراہت بھی آتی تھی لیکن میرےپاس اس کےسوا کوئی دوسرا آپشن موجود نہ تھا میںنے ٹیکسی بھی چلائی، پیزا بھی ڈیلور کیا ، کچن میں بھی کام کیا اور فلور کی صفائی کا کام بھی کیا، میری کالوںسے لڑائی بھی ہوئی اور ان سے مار کھا کر لہولہان بھی ہوا اور کچھ اپنوںنے مجھ پرچوری کے الزامات بھی لگائے، لیکن پھریہ کہوں گا کہ میرے پاس وہاں امریکا میں ہی رہ کر محنت سے کام کرنے اور یہ سب کچھ برداشت کرنے کےسوا اور کوئی آپشن نہ تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ قدرت نے میراساتھ دینا شروع کیا اوراب میرا شمار امریکا کے ان خوش بخت پاکستانیوں میں ہوتاہے جن کے پاس سب کچھ ہے ، آپ یقین نہیں کریںگے کہ والدین بہن بھائیوںکے ساتھ جس چیز کو میں زیادہ مس کرتا تھا وہ پاکستان تھا، پاکستان سے ملنے والی کسی بھی بری خبر پر رنجیدہ ہوجاتا تھا، پاکستان کی کامیابی پر خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہتا، امریکا کی معروف اور چکا چوند زندگی کے باوجود دل ہمیشہ اپنے ملک میں اٹکا رہتا تھا، طویل عرصہ بعدپاکستان آنا جا نا شروع ہوا تو ایسا معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کچھ بھی تبدیل نہیں ہواہے۔ بڑے بڑے شہروں میں نہ کوئی ٹریفک کا نظام ہے نہ ہی آپ کی داد رسی کیلئے اداروں میں بہتری آئی ہے ، ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کوئی مانگ رہا ہے تو کوئی چھین رہاہے ، کوئی آپ کی اشیاء پر قبضہ کرنے کی سوچ رہا ہے اور کوئی دھکے دے کر آگے نکلنے کی کوشش کررہاہے ، اخبارات پڑھیں تو ایسا معلوم ہوتاہے کہ ہر کوئی جھوٹ بول رہاہے ، ملک میں جنگل کے قانون کی طرح کمزور کو مارا جارہاہے یہ دیکھ کر سخت پریشانی سے دوچار ہوجاتا۔ بہت مرتبہ سوچا کہ کس طرح اپنے ملک کو ایسا سنواروں کہ یہ سب کچھ ٹھیک ہوجائے! کاش میرے پاس الہ دین کا چراغ آجائے تو میں سب سے پہلے اپنے ملک کی اس بدنظمی کو ٹھیک کردوں، انسانیت کا اور ایک دوسرے کا احترام سکھا دوں، گاڑیاں چلانا اور ان کی پارکنگ سکھا دوں، اداروں کو اپنے عوام کے تحفظ کے جذبے کو جگا دوں اور اپنے حکمرانوں اور لیڈروں کو کسی طرح یہ بتادوں کہ خدا را اس ملک کو قدرت کی نعمت سمجھیئے اس کی اور اس کے عوام کی خدمت کیجئے ۔لیکن یہ سب کچھ سوچنے کے سوا الجھی ڈور کا کوئی سرا ہاتھ میں آتا دکھائی نہیں دیتا تھا، آج سے چند سال پہلے کراچی آنا ہوا تو ایک شریف انسان سے اپنا دکھڑا بیان کیا تو اس نے کہاکہ اگر آپ کچھ کرنا چاہتے ہیں تو کراچی کے دو تین علاقوں میں اسکول بنادیں اور اس نے اس علاقوں کی نشاندہی بھی کردی واپس امریکا چلا گیا ، مصروف اور کاروباری جھمیلوں میں الجھ کر رہ گیا لیکن کراچی کے اس شریف شخص سے رابطہ رہا چند روز پہلے کراچی آیا ہوں تاکہ اس شخص کی تجویز کو عملی جامہ پہنانے کیلئے کچھ کیا جائے ، طے شدہ پروگرام کے مطابق وہ شخص مجھے ہوٹل سے پک کرنے آیا ہم دونوں مختلف سڑکوں سےہوتے ہوئے ایک ایسے علاقے میں پہنچے جہاں بارش کی وجہ سے سڑک کسی نالے کی شکل اختیار کئے ہوئے تھی اگر کسی جگہ گندا پانی کم تھا تو وہاں گندگی سے بھرے ہوئے شاپر ڈھیر کی صورت میں پڑے ہوئےتھے کہ ہماری گاڑی ایک گڑھے میں ایسی لگی کہ اس کا ٹائر بھی علیحدہ ہوگیا ، غربت سے اس مقام پر پہنچنے کے بعد مجھے اچھا لباس اور اچھے پرفیوم استعمال کرنے کا بہت شوق ہے ، ہم گاڑی کو کچھ لوگوں کی مدد سے سائیڈ پرپارک کرکے کچھ پیدل چلے تاکہ کوئی رکشہ یا دوسری گاڑی حاصل کرسکیں اور ایسے میں میرے کپڑوں کا جو حال ہوا سو ہوا لیکن ایک جگہ ہمیں آگے جانے سے یہ کہہ کر روک دیا گیا کہ سڑک پر کھڑے پانی میں کرنٹ ہے میں آپ کو سچ بتاتا ہوں کہ مجھ اس شریف آدمی پر شدید غصہ آرہا تھا جس کی تجویز کو میں نے عملی جامہ پہنانے کی ٹھان لی تھی بلکہ خودپر غصہ آرہا تھا لیکن اس سے بھی جو بات شدت سے مجھ پر حاوی تھی وہ بدبوتھی جومجھے کسی دوسرے سے نہیں بلکہ خود سے آرہی تھی ، ہم جیسے تیسے کرکے ہوٹل پہنچے اس شخص کو اپنی گاڑی کی فکر کھائے جارہی تھی اور میری حالت دیکھ کر وہ شرمندہ بھی ہورہا تھا وہ واپس چلا گیا اور میں اگلی دستیاب پروازپر امریکا واپس آگیا لیکن آپ یقین کریں مجھے اب بھی اپنے جسم سے بدبو آرہی ہے ، مجھے نہیں معلوم کہ میرے اندر سے یہ بدبو کب نکلے گی اور میر ے اندر اپنے وطن کی محبت دوبا رہ کب جاگے گی کہ میں اپنے ملک جاکر وہاں کے لوگوں کیلئے کچھ کرسکوں جہا ںسےمیں شدیدمایوس ہوکر واپس آیا ہوں کراچی میں گندگی اور لوگوں کی حالت دیکھ کر مجھے خود سے جو بدبو آنا شروع ہوگئی ہے کیا وہ ہمارے حکمرانوں کو محسوس نہیں ہوتی کیا ان کو یہ احساس نہیں کہ عوام کی زندگی کو بہتر بنانا ان کی ذمہ داری ہے، لیکن مجھے سب سے حیران کن بات یہ لگی کہ کوئی احتجاج نہیں کررہا اس گندگی میں لو گ رہ رہے ہیں ، دکانیں کھلی ہیں مردو خواتین آجارہے ہیں ، گاڑیاں موٹرسائیکل چل رہے ہیں ، معافی چاہتا ہوں خط طویل ہوگیاہے لیکن اسی سوال کا جواب چاہتا ہوں کہ کیا مجھے میرے وطن کی وہ محبت واپس مل پائے گی یا میں اسی بدبو کو لئے ہوئے دیار غیر میں مر جائوں گا‘‘ قارئین یہ تھی ایک پاکستان کی ای میل جس کا ترجمہ کرکے آپ تک پہنچا دیا ہے ۔

تازہ ترین