• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

موجودہ سیاسی اکھاڑ پچھاڑ، امریکہ کے لئے آسودگی جبکہ چین کے فکر و فاقہ میں افاقہ غائب رہنا بنتا ہے۔ پانامہ کیس سرکس کا اہم حصہ اختتام پذیر ضرور ہوا، تنازعات بڑھ گئے۔ متنازع JITکا Witch Huntingکا تاثر زائل نہ ہو سکا۔ پانامہ کیس کے ہنگامے نے کراچی ضمنی الیکشن کی ہمہ گیریت کو پہاڑ اوجھل رکھا۔ کیس پر عمران خان قوم کو کال دینے کے متمنی تھے، بوجہ کراچی الیکشن، بیلنس ختم پایا۔ سنجیدہ نوٹ پر، کراچی ضمنی الیکشن ہی نے تو تحریک انصاف کو بیلنس ختم ہونے کی بیک وقت وارننگ اور نوید بھیجی ہے۔ PTIامیدوار نجیب ہارون انتہائی نفیس انسان، الیکشن مہم عمران خان اور شیخ رشید نے بقلم خود بنفس نفیس چلائی، نجیب ہارون سے بہتر اور مضبوط امیدوار کوئی اور تھا بھی نہیں جبکہ وسائل، اوصاف، کردار اور سمجھ بوجھ میں مدمقابل تمام اُمیدواروں پر بھاری۔ نجیب ہارون کی شکست تحریک انصاف کی نجی اور ذاتی شکست سمجھی جائے گی۔ نجیب ہارون بے قصور ہے۔ ایک ایسا حلقہ جہاں تعلیم یافتہ اور اوسط درجے کے معززین بدرجہ اتم جبکہ اقلیتیں، مختلف قومیتیں، مزدور، محنت کش بھی خاطر خواہ موجود ہوں۔ تحریک انصاف کا من بھاتا ووٹر اسی حلقے میں ہے۔ نجیب ہارون جیسا بہترین امیدوار ہزیمت آمیز شکست سے دوچار رہے، تحریک انصاف کے لئے بہت سارے پیغامات چھوڑ گیا ہے۔ 2018ء کے الیکشن کا ٹیسٹ کیس بھی یہی ضمنی الیکشن تھا۔عمران خان مہم کے لئے جب کراچی پہنچے تو وفور جذبات اور فرحت انجام سے سرشار، ہمیشہ کی طرح اپنی سیاسی حیثیت سے بہت بلند ،بانگ دے ڈالی،’’PS-114(کراچی) کا الیکشن، 2018 کے الیکشن کے نتائج کا ریفرنڈم ہے‘‘۔ بدقسمتی کہ تحریک انصاف ریفرنڈم ہارگئی۔ عمران خان کے سیاسی مستقبل کو یقینی ضعف پہنچا ۔
الیکشن رزلٹ ایک لمحہ فکریہ بھی کہ عوام الناس ’’کرپشن مکائو سرکس‘‘ کو کسی طور خاطر میں نہ لائے۔ پیپلز پارٹی بارے یقینی تاثر کہ صوبہ سندھ میں کرپشن کے قائم اپنے ریکارڈ توڑ چکی دوسری طرف ایم کیو ایم کا مشکوک CHECKEREDماضی، سعید غنی کا کامیاب ہونا اور ایم کیو ایم کا دوسرے نمبر پر ووٹوں کا انبوہ لگانا، لمحہ فکریہ بنتا ہے۔ عوام الناس کا جوق در جوق ان دو پارٹیوں کی حمایت کرنا، بہت سارے سوالیہ نشان اور تفکرات چھوڑ گیا۔ پیپلز پارٹی کی جیت اور MQMکے کثیر ووٹوں سے نتیجہ ایک ہی اخذ کیاکہ جب بھی خاص مچھلی پکڑنے کا خاص طرح کا جال بنا جائے گا، بچھایا جائے گا تو عوام الناس کا ردعمل دیدنی ہو گا۔ضمنی الیکشن میں ن لیگ کے لئے حوصلہ افزائی کا انعام اس حد تک کہ تحریک انصاف کو چاروں شانے چت کر دکھایا۔آج کی تاریخ کا سبق ایک ہی ، پانامہ لیکس سرکس کا ایسا تاثر کہ نواز شریف کو ڈھانے کا ہر قانونی و آئینی تجاوز، دھونس دھاندلی سارے ہتھکنڈے استعمال میں رہیں گے تو پھر ازبر کر لیںکہ 2018ء الیکشن کا نتیجہ PS-114سے مختلف نہیں رہے گا۔ یاد رکھیں 1993میں ایسے ہی الزامات پر نواز شریف کی معزولی1997جیسے تاریخی مینڈیٹ پرمنتج ہوئی۔ آج کا مضبوط نواز شریف قبول نہیں توکل 2018کا طاقتور و توانا نواز شریف کیسے برداشت ہو گا؟کیا2018کے بعد سانپ اور سیڑھی کایہی کھیل پھر سے ہمارا منتظر ہے؟
انصاف ضروری مگر’’انصاف ہوتا‘‘نظر آنا اس سے بھی کہیں زیادہ ضروری۔نظر نہ آنے والے انصاف کے تعاقب میں دور کی کوڑیاں ڈھونڈنے سے احتراز کرنا ہو گا۔ خاطر جمع رکھیں مسلم لیگ(ن) کی قیادت بادشاہ نہ گاڈ فادر نہ سسلی مافیا۔سسلی مافیا اور ماریو پوزو کے ’’گاڈفادر‘‘جیسے حوالہ جات اورریمارکس دینے پر بیسوں سال سوالیہ نظریں اٹھتی رہیں گی۔سمجھنا ہو گا کہ مولوی تمیز الدین کیس تھا کیا؟وطن آزاد ہوا تو مروجہ عبوری حکم نامہ اور انتظام و انصرام عظیم قائد کی زندگی میں وضع کر لیا گیا۔ جسٹس منیر بنچ نے پہلو تہی کی، چھوٹتے ہی 1935کے ایکٹ سے دور کی کوڑی ڈھونڈ نکالی۔نظریہ ضرورت کے تحت آدھے درجن وزراء اعظم معزول ہوئے۔ پاکستان کے دوسرے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کی معزولی ہی توبنگلہ دیش کی بنیادبنی۔گورنر جنرل غلام محمد نے اسٹیبلشمنٹ کی طاقت پر مطلوبہ نتائج کا حصول گمبھیرہوتے دیکھا تو وزیر اعظم محمد علی بوگرہ کو بمع آئین ساز اسمبلی یک جنبش قلم زمین بوس کر ڈالا۔صدر آئین ساز اسمبلی مولوی تمیز الدین داد فریاد لے کر فیڈرل کورٹ پہنچے۔فیڈرل کورٹ تو جیسے تاک میں،تاک تاک کر فیصلہ دیا۔جسٹس منیر اوربنچ کا فیصلہ ،عدلیہ کے ماضی پر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے داغِ رسوائی، بدنامی کا دھبہ، روسیاہی بن کر چسپاں ہو گیا۔یہی بعد ازاں پاکستان کو دولخت رکھنے کا نقطہ آغاز جانا گیا۔
دوسری طرف عمران خان اور اسکے لواحقین و متاثرین پر گرفت کڑی رہتی تومسلم لیگی وزرا ء کو لگام ڈالنابھی آسان رہتا۔ یقینا ًجنگ جیو،دوسرے میڈیا کی رپورٹنگ جبکہ مسلم لیگی وزراء عمران خان اور لواحقین کے فرمودات کو عدالت کے سامنے ضرور لائیں گے۔ بدقسمتی کہ عمران خان کی اقتدار خاطر تگ و دو، نواز شریف کی معزولی پر قربان ہوا چاہتی ہے۔چند ہفتے پہلے اعترافی بیان میں یہی کچھ فرما گئے، ــ’’نواز شریف کو فارغ کرنے کے لئے میری نا اہلی معمولی قربانی ہو گی، تیار ہوںــ‘‘یعنی کہ نواز شریف کو نااہل کرنے کے لئے مجھے بھی نااہل کر دو۔
متنازع JITرپورٹ کے اندریقیناً بے شمار سنجیدہ الزامات موجود ہیں۔ نواز شریف کوبہرحال سنجیدگی سے عہدہ برا ہونا ہوگا۔ رپورٹ کے مندرجات اور تضادات شریف فیملی کا دردِ سر، ان کے وکلاء یقیناً عدالت کے سامنے مغز کھپائی کریں گے۔غلط ثابت کریں گے یا پھر بھگتیں گے۔میری دلچسپی، قابلیت، مشاہدہ بین الاقوامی منظر نامے کے تناظر میں ،پاکستان اندر جاری وحشت انگیز شور شرابہ، ہنگامہ، انتشار، بگاڑ کو جانچنے پرکھنے میں ہے۔ دشمنان پاکستان کو ’’دلی مبارک باد‘‘ہماری بدقسمتی کہ ان کا تیر بہ ہدف ہے۔سیاسی ابتری نے افراتفری پیدا کررکھی ہے۔ وطن دشمن ممالک کے دو موثرہتھیار، ایک امریکی ایجنسی اور را(RAW) ہیں۔ موجودہ وطنی صورتحال پرایسے عناصر خوشی سے پھولے نہیں سمائیں گے۔دبئی سے حاصل کی گئی دستاویزات یا شواہد نے ذاتی طور پر ششدر کر رکھا ہے ۔ہکا بکا اس لئے نہیں کہ خاطر خواہ شواہد مل گئے۔اوسان خطا ہونے کی وجہ اتنی کہ ایسی دستاویزات کا حصول امریکی ایجنسی کی مدد کے بغیر ممکن نہیں تھا۔ببانگ دہل بانگ لگا رہا ہوں کہJITکی دبئی سے حاصل شدہ دستاویزات امریکی ایجنسی ذرائع اور اشیر بادسے ہی ممکن رہی ہوگی۔ خلیجی ممالک سے سرکاری سطح پر معلومات لیناویسے بھی ناممکن ہے کہ انکا قانون اجازت نہیں دیتا۔ تجسس،آخر اس ایجنسی کو ہمارے سیاسی ہنگامہ میں کیا دلچسپی ہے ؟ اس کومحکمانہ اپروچ کیسے کیا گیاہو گا؟ پچھلے کالم میں پاکستان ٹوٹنے سے پہلے کی صورتحال کا اجمالاً ذکر کیا تھا۔ اقتدار و اختیارات کی کشمکش نے ہی توپاکستان کو دولخت کر دیا۔ چار صوبوں کے معروضی حالات، سیاسی شورش کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ نواز شریف کو دھونس دھاندلی سے مسخر کیا گیا تو خطرناک نتائج برآمد ہوں گے۔نواز شریف مزید ناقابل تسخیر ہو جائے گا۔ایسا کھیل رچانے والوں کو سمجھنا ہو گا۔ آنے والے دنوں میں بھرپور سیاست کرنے کے لئے میاں نوازشریف کوبھی دلیرانہ اور مدبرانہ اقدامات کرنے ہوں گے۔ اگر طبیعت پر گراں نہ گزرے تو ایک عاجزانہ مشورہ حاضر ہے۔ بفرض محال وزارتِ عظمی کی تبدیلی کا عمل ناگزیر ہو جائے، تو آنکھیں بند کر کے چوہدری نثارعلی کو آگے لے آئیں۔ عوام کے اندر نام اور مقام تو ہے ہی۔ تدبر،کردار اور وفاشعاری سونے پر سہاگہ ، اپنی مثال آپ، چوہدری صاحب وطنی طول و عرض میں سارے مشکوک سیاستدانوں کی کھیپ میں ایک مثال ہی توہیں۔کرپشن کے گھسے پٹے نعرے چسپاں کرنے بھی مشکل ہوں گے۔2018کی الیکشن مہم میں نواز شریف کی سرپرستی اور چوہدری نثار کی سیاسی بجا آوری اور پالیسی عملداری کا جوڑ بن گیا۔تو گارنٹی دیتا ہوں،نہ صرف مخالفین چاروں شانے چت ہونگے۔ سازشی عناصر کے عزائم بھی خاک میں خاک رہیں گے۔

تازہ ترین