• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمِ اسلام کو اس وقت جن اہم مسائل کا سامنا ہے ان میں مسئلہ فلسطین، مسئلہ کشمیر اور مسئلہ قبرص سر فہرست ہیں اور ان تینوں مسائل کے حل نہ ہونے کی وجہ ہی سے عالم ِ اسلام کو اس بات کا یقین ہوتا چلا جارہا ہے کہ دنیا کسی صورت بھی ان مسائل کے حل کی جانب کوئی توجہ نہیں دے رہی ہے اور نہ ہی وہ ان مسائل کو حل کرنے میں کوئی سنجیدہ اقدام اٹھا رہی ہے۔ اگرچہ یورپی یونین اور اقوام متحدہ نے مسئلہ قبرص کو حل کرنے کی جانب مسئلہ کشمیر اور مسئلہ فلسطین سے زیادہ کوششیں صرف کی ہیں اور یوں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ بس اب حل ہوا ہی چاہتا ہے لیکن بد قسمتی سے تمام تر امیدوں کے باوجود بھی اس مسئلے کو حل نہ کیا جاسکا ۔ مسئلہ قبرص کے حل اور فارمولے پر روشنی ڈالنے سے قبل اس کی تاریخ پر ایک نگاہ ڈالنے کی ضرورت ہے۔
اپنی جغرافیائی حیثیت کی بدولت سولہویں صدی (1571ء) میں عثمانی حکمرانوں نے اس جزیرے کو اپنی حاکمیت میں شامل کرلیا لیکن روس کے ساتھ سلطنتِ عثمانیہ کی پے درپے جنگوں کی وجہ سے سلطنتِ عثمانیہ کے کمزور پڑنے پر اس جزیرے کو برطانیہ کی نگرانی میں دے دیا گیا لیکن اس کے باوجود انیسویں صدی تک سلطنتِ عثمانیہ کی اس جزیرے پر قانونی حاکمیت قائم رہی لیکن 1923ء میں طے پانے والے لوزان سمجھوتے کے ذریعے اسے سرکاری طور پر برطانیہ کے حوالے کردیا گیا اور سلطنتِ عثمانیہ کی اس جزیرے پر گرفت ختم ہو کر رہ گئی۔ انگریزوں کے دور میں اس جزیرے کو Divide and rule کی پالیسی کے ذریعے ترکوں اور یونانی باشندوں کے درمیان خلیج کی فضا کو ہوا دینے کا سلسلہ جاری رکھا گیا جس کے نتیجے میں دونوں اقوام ایک دوسرے کو اپنا دشمن سمجھنے لگے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد کے حالات نے لازمی طور پر قبرص کو بھی بُری طرح متاثر کیا ۔ اس دوران اکثریت کے حامل یونانیوں نے ترکوں کے ساتھ مل کر تحریک آزادی کی بجائے اینوسیس یعنی جزیرے کا الحاق یونان سے کرنے کے لیے تشدد کی کارروائیوں کو تیز کردیا جس کی وجہ سے دونوں اقوام کے درمیان خونریز جھڑپوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ۔ ترکی نے اس سلسلے میں لوزان امن سمجھوتے پر پوری طرح عمل درآمد کرنے اور تحریکِ اینوسیس کی کھل کر مخالفت کی۔ 1959ء میں ترکی اور یونان کے درمیان مفاہمت کے ایک سمجھوتے پر دستخط کیے گئے جس کے مطابق ترکی، یونان اور برطانیہ کے ضامن ممالک کی نگرانی میں ایک نیا آئین دیتے ہوئے دو اقوام پر مشتمل ایک نئی مملکت قائم کرنے کا اعلان کردیا گیالیکن اس سمجھوتے پر عمل درآمد جاری نہ رکھا جاسکا اور 1963ء میں اس وقت کے جزیرے کے صدر بشپ میکاریوس نے ترک قوم کو حاصل حقوق میں کمی کرتے ہوئے آئین میں ترامیم کروانے کا فیصلہ کیا جس سے علاقے میں کشیدگی میں بے حد اضافہ ہوگیا اور اس دوران ترکی اور یونان کئی بار جنگ کی لپیٹ میں آتے آتے رہ گئے ۔ 1967ء میں یونان میں فوجی مداخلت کے نتیجے میں بارہ ہزار یونانی فوجی قبرص منتقل کردئیے گئے جس سے ترکی اور یونان کے درمیان پہلے ہی سے موجود کشیدگی شدت اختیار کرگئی تاہم یونانی فوجیوں کی واپسی کے بعد حالات میں کچھ بہتری دیکھی گئی لیکن 1974ء میں یونانی فوجی جنتا نے اینوسیس کو ہوا دیتے ہوئے قبرص میں میکاریوس کا تختہ الٹ دیا ۔ اس موقع پر ترکی نے 1960ء کے سمجھوتے کے ذریعے حاصل کردہ ضامن ملک کی حیثیت سے حقوق کو استعمال کرتے ہوئے ترکوں کا قتلِ عام رکوانے کے لیے اپنے فوجی جزیرے میں اتار دئیے جس کے نتیجے میں قبرص عملی طور پر دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ گیا۔ قبرص کے شمالی حصے پر ترکوں نے اپنی حاکمیت قائم کرلی جبکہ جنوبی حصے پر یونانیوں نے اپنا قبضہ جاری رکھا۔اس دوران ترک رہنما روف دنکتاش نے صرف فیڈرل مملکت ہی کے قیام کی صورت میں یکجا رہنے سےمتعلق پوری دنیا کو آگاہ کردیا۔ 1977ء میں ترک رہنما دنکتاش اور بشپ میکاریوس کے درمیان ہونے والے مذاکرات میں دو علاقوں اور دو اقوام پر مشتمل فیڈرل سسٹم کے قیام کے بارے میں مطابقت پائے جانے کا اعلان کردیا ۔ 1964ء ہی میں مسئلہ قبرص کے حل کے لیے سلامتی کونسل نے اپنی ثالثی کی کوششوں کا آغاز کیا اور علاقے میں امن کے لیے اقوام متحدہ کے امن فوج کے دستے بھی روانہ کردئیے اور اس وقت سے اب تک علاقے میں اقوام متحدہ کی امن فوج فرائض سرانجام دے رہی ہے۔ دنکتاش- میکاریوس مذاکرات کے بعد دنکتاش -کیپریانو مذاکرات جاری رہے۔ 1985-86میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل پئیرز ڈی کیولر اور 1992ء میں بطرس غالی کی نگرانی میں مذکرات کو جاری رکھا گیا ۔ بطرس غالی کی جانب سے پیش کردہ تجویز کی اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی حمایت کی لیکن اس تجویز کے بارے میں ترکی اور یونان دونوں نے اپنے اپنے تردد کا اظہار کیا۔ دونوں اقوام کے درمیان مملکت کے ڈھانچے، سلامتی، سرحدوں اور ملکیت کے بارے میں بڑے واضح اختلافات پائے جاتے تھے۔ قبرصی ترکوں کے پاس جزیرے کا 36 فیصد اور قبرصی یونانیوں کے پاس 63 فیصد حصہ موجود تھا جبکہ غالی منصوبے کے تحت 28 فیصد ترکوں اور 72 فیصد قبرص یونانیوں کو دینے کا کہا گیا تھا لیکن اس منصوبے کو نہ ترکوں اور نہ ہی قبرصی یونانیوں نے قبول کیا۔ یورپی یونین کی جانب سے جنوبی قبرص کو یورپی یونین کی رکنیت عطا کرنے سے مسئلہ قبرص مزید کھٹائی کا شکار ہوگیا اور قبرصی یونانیوں نے شمالی قبرص کو یورپی یونین سے دو ررکھ کراس مسئلے کو مزید گمبھیر بنادیا۔ 1999ء میں مسئلہ قبرص سے متعلق مذاکرات کا سلسلہ جاری رہا اور 24اپریل 2004ءکو ان مذاکرات ہی کے نتیجے میں عنان پلان کے تحت ریفرنڈم بھی کروایا گیا جسے قبرصی ترکوں نے تو قبول کرلیا لیکن قبرصی یونانیوں نے مسترد کردیا لیکن کتنی ہی بد قسمتی کی بات ہے یورپی یونین نے قبرصی یونانیوں کی جانب سے اس پلان کو مسترد کیے جانے کے باوجود یورپی یونین کی رکنیت عطا کردی جبکہ قبرصی ترکوں جنہوں نے اس پلان کی منظوری دی تھی یورپی یونین کی رکنیت سے دور رکھا گیا۔ طویل عرصے کے تعطل کے بعد گزشتہ ہفتے سوئٹزرلینڈ کے قصبے کرانز مونتانا میں ہونے والے مذاکرات سے بھی کسی قسم کا کوئی نتیجہ حاصل نہیں کیا جاسکا ہے۔ مذاکرات میں فریقین اس مسئلے کو حل کرنے کے بارے میں کافی حد تک پر امید تھے اورآخری روز اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے بھی مذاکرات میں حصہ لینے سے یہ امید پیدا ہوگئی تھی کہ اس مسئلے کو حل کرلیا جائے گا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اس موقع پر قبرصی ترکوں کے رہنما مصطفےٰ آقن جی نے کہا کہ اس مسئلے کی بنیاد گزشتہ پچاس سالوں پر محیط ہے اور قبرصی ترکوں نے اس مسئلے کے حل کے لیے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ہم نے مساوات پر مبنی فیڈریشن قائم کرنے کی ضرورت پر زوردیا ہے لیکن ہماری کوششیں کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوسکیں۔ انہوں نے کہا کہ قبرصی یونانی انتظامیہ نے ہماری باری باری انتظامیہ کے اختیارات حاصل کرنے کی شرط کو قبرصی یونانیوں نے مسترد کردیا اور قبرصی یونانی انتظامیہ کی جانب سے ضمانتی ملک کے فوجیوں کی موجودگی کو بھی ختم کرنے کے اصرار کی وجہ سے یہ مذاکرات کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوئے ہیں۔بعد میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوٹرس نے کہا کہ قبرص مذاکرات بغیر کسی نتیجے کے ختم ہو گئے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ مستقبل میں مذاکرات کے دروازے بند ہو جائیں گے۔

تازہ ترین