• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے روشن خیال حلقوں کو یہ یقین واثق ہے کہ 5جولائی 1977کی رات جمہوریت پر شب خون مار کر جنرل ضیا الحق نے جس تاریک دور کا آغاز کیا تھا آج کا پاکستان اسی کا ایک عکس ہے۔ بلا شبہ جنرل ضیاء الحق نے انتہائی تنگ نظر مذہبی نظریہ عوام پر ٹھونسا، ملک کے مقبول ترین وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دی ، لاکھوں بے گناہوں کو قید و بند کیا اور سیاسی کارکنوں پر کوڑے برسائے۔ انہوں نے امریکیوں کی شہ پر روس سے جنگ کرنے کے لئے جنگجو پیدا کئے اور پاکستان کو غیر مستحکم کیا۔ ان کے دور میں ہر ریاستی ادارے کی شکست و ریخت ہوئی، بدعنوانی، فرقہ پرستی اور لسانی تعصب روز کا معمول بن گیا۔ غرضیکہ جنرل ضیاءالحق کو آج کے پاکستان کی زبوں حالی کا ذمہ دار سمجھا جاتا ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا سارا قصور جنرل ضیاء الحق کا تھا اور کیا ایک حکمران تاریخ کے دھارے کو یکسر تبدیل کر سکتا ہے؟ اگر تاریخ کے سائنسی نظریہ کے حوالے سے دیکھا جائے تو ضیاء الحق اور 5 جولائی ایک استعارے کے طور پر تو استعمال ہو سکتے ہیں لیکن تاریخ کے دھارے میں ان کی اتنی اہمیت نہیں ہے جتنی کہ عام طور پرسمجھی جاتی ہے۔
اگر تاریخی سیاق و سباق کو دیکھا جائے تو پاکستان میں اسلامائزیشن کا آغاز جنرل یحیی خان کے دور سے شروع ہو چکا تھا۔ جنرل یحیی خان کے جنرل شیر علی اینڈ کمپنی نے میڈیا اور تعلیمی اداروں کی مذہبی تظہیر کا عمل شروع کردیا تھا۔ جنرل یحیی خان نے جتنے اسلامی قوانین بنائے ان کے بارے میں جماعت اسلامی کے میاں طفیل محمد نے ایک بار اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ بنیادی اسلامی قوانین نافذ ہو چکے ہیں اب ان پر عمل کرنا باقی ہے۔ اس کے بعد جناب ذوالفقار علی بھٹو نے مذہبی حلقوں کے دباؤ میں مذہبی قوانین بنائے۔ تاریخی حقیقت یہ ہے کہ بھٹو کی مساوات کی تحریک کے خلاف شہروں کے تاجر اور صنعتی طبقے ابھر کر سامنے آ چکے تھے۔ فوج میں درمیانے طبقے کی اکثریت بھٹو کے موعودہ اصلاحی نظام کی مخالف تھی۔ بھٹو مخالف عناصر مذہبی نظریے میں پناہ لے رہے تھے، اسی لئے بھٹو کے خلاف چلنے والی قومی اتحاد کی تحریک کی سربراہی مذہبی جماعتوں کے ہاتھ میں تھی۔
ستر کی دہائی میں جہاں ایک طرف مذہبی اور قدامت پرست طاقتیں دن بدن مضبوط ہو رہی تھیں وہیں روشن خیال اور ترقی پسند رجحانات ماند پڑ رہے تھے۔ پیپلز پارٹی 1967میں معرض وجود میں آئی اور اس کا روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ ہر طرف چھا گیا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں صرف پیپلز پارٹی ہی ابھر کر سامنے نہیں آئی بلکہ بائیں بازو کی نئی سیاست کا ایک نیا جنم ہوا۔ ملک کے مختلف حصوں میں طلباء، مزدور اور کسان تنظیمیں کافی مضبوط ہونے لگیں۔ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ملک کا اقتدار سنبھالا تو بائیں بازو کی تنظیمیں کافی طاقتور ہو چکی تھیں۔ لیکن ستر کی دہائی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے بائیں بازو کی اکثر تنظیمیں رو بہ زوال ہو چکی تھیں۔ بائیں بازو کی بڑی جماعت مزدور کسان پارٹی اندرونی خلفشار کا شکار ہو چکی تھی۔ بائیں بازو کی مزدور اور طلباء تنظیمیں بھی اپنا اثر کھونا شروع ہو گئی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ 1977میں قومی اتحاد کی بھٹو مخالف تحریک میں بائیں بازو کا کوئی خاص کردار نہیں تھا۔ غرضیکہ جب ضیاء الحق نے جمہوریت پر شب خون مارا تو اس وقت تک بایاں بازو اپنے تضادات کی بنا پر پہلے ہی کافی کمزور ہو چکا تھا۔ بائیں بازو کی باقیات کے ساتھ جنرل ضیاء الحق نے بہت ظالمانہ سلوک کیااور اس کی رہی سہی طاقت کا بھی خاتمہ کر دیا۔
ستر کی دہائی کے دوران ہی ہندوستان میںبھی سیاسی بحران پیدا ہو چکا تھا۔ وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975میں ایمرجنسی نافذ کی جو 1977تک قائم رہی۔ اسی کی دہائی کے آغاز میں ہی بھارتیہ جنتا پارٹی وجود میں آئی اور ہندوستان میں ہندتوا کی بنیادیں مضبوط ہونے لگیں۔ ہندوستان کی پچھلی چالیس سالوں کی تاریخی تفصیلات میں جائے بغیر یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس دور میں بنیاد پرست ہندو قوم پرستی نے ملک کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا ہے۔ اس وقت ہندوستان میں رہنے والے اٹھارہ کروڑ مسلمان اور دوسری اقلیتوں کو المناک صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر پاکستان میں توہین مذہب کے نام پر بعض بے گناہوں کا خون بہایا جاتا ہے تو ہندوستان میں گائے کی تقدیس کے لئے مشتعل ہجوم مسلمانوں اور دلت عوام کا سرعام خون بہا رہے ہیں۔ یہ بھی دلچسپ حقیقت ہے کہ ہندوستان میں بھی بایاں بازو اور روشن خیال جماعتیں مسلسل کمزور ہو تی گئی ہیں۔ ہندوستان کے سیاسی ارتقاء میں کسی فوجی آمر کا کوئی ہاتھ نہیں ہے لیکن اس ملک میں بھی صورت حال پاکستان سے مختلف نہیں ہے۔ پاکستان اور ہندوستان کے متوازی تاریخی ارتقاء سے یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ دونوں ممالک میں بیک وقت ایسی تبدیلیاں آئی ہیں کہ ان کی جڑ ایک ہی ہے اور وہ شخصیات کے اثر تک محدود نہیں ہے۔ مطلب یہ کہ اگر ہندوستان میں جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کی مداخلت کے بغیر ہی ویسے حالات پیدا ہو گئے تو اس کی وجہ شخصیت نہیں بلکہ بنیادی معاشی نظام کی تبدیلی ہے جس کا دونوں ملکوں میں آغاز ستر کی دہائی میں شروع ہوا۔
ہندوستان اور پاکستان کیا اسی کی دہائی کے ارد گرد پوری دنیا میں بنیادی تبدیلیاں آئی ہیں۔ امریکہ میں ریگن اور برطانیہ میں مارگریٹ تھیچر نے رد انقلاب کا عمل شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے۔ انہی پچھلے تیس چالیس سالوں میں روس میں سوشلزم کا خاتمہ ہوا، چین میں سرمایہ دارانہ انقلاب برپا ہوا۔افریقہ میں قبائلی لڑائیوں میں لاکھوں بے گناہ مارے گئے اور اب مشرق وسطی کی خانہ جنگیوں میں انسان گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔ اگر پچھلے چالیس کی تاریخ کو وسیع تر تناظر میں دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنرل ضیاءالحق کی ظالمانہ آمریت ایک معمولی عنصر تھا۔

تازہ ترین