• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے اپنے سولہ جنوری کے کالم میں لکھا تھا ’’سپریم کورٹ کا فیصلہ چاہے کچھ بھی ہو۔ لگ رہا ہے کہ پاناما کیس ایک نئے دور کی تمہید بننے والا ہے۔‘‘۔ میں خوش ہوں کہ دھمکیوں کے طوفانوں اور الزامات کی آندھیوں میں چلتی ہوئی جے آئی ٹی اپنی رپورٹ انصاف گاہ تک پہنچانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔فریب کی گھٹا ٹوپ گھٹائیں چھٹ گئی ہیں ۔انصاف کی شعاعیں زمین تک آنے لگی ہیں ۔روشنی اور خوشبو کا سفر شروع ہونے والا ہے ۔فائلوں کی جیب تراشیاں کرنے والے گروپ کے پہلےآدمی کی گرفتاری قریب ہے ۔چار پانچ ہفتوں میں معاملہ چار پانچ سو اہم ترین افراد تک پہنچ سکتا ہے ۔دو ملازموں کے نام ای سی ایل میں ڈال دئیے گئے ہیں۔ وجد کرتی ہوئی ضیا سچ کی تلاش میں کامیاب ہوگئی ہے۔بھولے ہوئے ’’خالو‘‘ کو آخر پہچان لیا گیا ہے۔شہزادوں کی اڑن طشتریاں اپنے اپنے کوہ قاف پہنچ گئی ہیں۔معافیاں مانگتے ہوئے دیوِ سیاست نے فردِ جرم کا فرغل پہن لیا ہے۔وزیر اعظم کے کزن کی قسمت کا ستارہ بادلوں کی ہتھکڑیاں پہننے والا ہے ۔
مظہر برلاس نے اپنے سترہ مارچ کے کالم میں پیش گوئی کی تھی کہ ’’پانامہ کا فیصلہ قوم کی امنگوں کے مطابق ہوگا‘‘یقینا جے آئی ٹی نے جو ثبوت سپریم کورٹ میں جمع کرا دئیے ہیں ۔ان کی موجودگی میں مظہر برلاس کی پیش گوئی پوری طرح سچ ثابت ہوتی ہوئی نظر آرہی ہے۔قوم کی امنگیں یہی ہیں نا کہ کرپشن کے دیوتااسلام آباد کے معبد سے اٹھا دئیے جائیں ۔لوٹے ہوئےخزانوں کے بحری جہاز برٹش ورجن آئی لینڈز سےواپس پاکستان کے ساحلوں پر لنگر انداز ہوں ۔
حسن نثار نے اپنے اٹھائیس جنوری کے کالم میں تحریر کیا ’’وزیراعظم کے بچے کے ساتھ ساتھ بھٹہ مزدور کا بچہ بھی اسکول جانے کا حق رکھتا ہے چاہے وہ اسکول ذرا کم تر درجہ کا ہی کیوں نہ ہو۔اور سرے محلوں، پارک لینوں اور پانامائوں کی موجودگی میں ایسا معاشرہ بننا ممکن ہی نہیں رہ جاتا اور ہمیں لکھنا پڑتا ہے..... ’’پاناما کی جنگ بدصورت موڑ مڑ گئی‘‘۔پانامہ کی جنگ واقعی ایک بہت بدصورت موڑ مڑگئی ہے ۔مجھے جے آئی ٹی کی رپورٹ سن کر جتنی تکلیف ہوئی یقینا ً اُتنی ہی ہر پاکستانی کو ہوئی ہوگی کہ ’’یہ ہمارےحکمران ہیں ‘‘
لگ رہا ہے کہ ’’عمران نامہ کی ردی ‘‘بہت خطرناک ثابت ہونے والی ہے ۔اُس’’ ردی ‘‘میں ایسے شواہدپڑے ہیں جنہیں بڑی بڑی قیمتی فائلیں نہیں جھٹلا سکتیں ۔یہ ’’دھرنا تھری ‘‘کسی خودکُش دھماکے سے ختم ہونے والا نہیں ۔ا س رپورٹ کوطوطا مینا کی کہانی قرار دینے والوں سےعرض ہے کہ طوطا مینا کی کہانی تبدیل ہو چکی ہے ۔لیجئے !نئی کہانی مجھ سے سُن لیجئے۔’’کہتے ہیں طوطا اور مینا میں بڑی دوستی تھی ہمیشہ اکٹھی اڑانیں اڑتے تھے ۔ایک دن وہ اڑتے اڑتے ایک بڑی سرسبز و شاداب جگہ پرپہنچ گئے۔ ایک درخت پرتھوڑی دیر ماحول سے لطف اندوز ہونے کےلئے بیٹھ گئے ۔طوطے نے مینا سے کہا ۔پہلے تو یہاں ویرانہ ہوا کرتا تھا ۔لگتا ہےاب الو یہاں نہیں رہتے ۔وہاں ایک الو بھی بیٹھا ہوا تھا اسے بڑا غصہ آیا۔اس نے دونوں کو کھانے کی دعوت دی ۔جو انہوں نے قبول کر لی۔ جب کھانا کھانےکے بعدوہاں سے جانے لگے تو الو نے مینا کا ہاتھ پکڑ لیا کہ تم کہاں جا رہی ہو تم تو میری بیوی ہو۔ طوطے نےپریشان ہو کر کہا” یہ تمہاری بیوی کیسے ہو سکتی ہے، یہ مینا ہے اور تم الو ہو، تم زیادتی کر رہے ہو”الو بولا۔ ایسی کونسی بات ہے عدالت موجود ہے وہاں چلے جاتے ہیں وہ جو فیصلہ کرے گی، ہمیں منظور ہوگا” جج نے دونوں کے دلائل سنے اورفیصلہ دیا کہ مینا طوطےکی بیوی ہے- اس پر الو پریشان ہو گیا کہ پہلے تو ایسا نہیں ہوا کرتاتھا ۔طوطا الو کی حالت پر قہقہے لگاتا ہوا مینا کے ساتھ وہاں سے چل پڑا اور جج نے الو سے کہا۔پہلے یہاںسے انصاف اٹھ گیا تھا سو یہ علاقہ ویران ہوگیا تھا۔اب انصاف ہونے لگا ہے اسی لئے تمہیں ہر طرف پھول کھلتے نظر آرہے ہیں ‘‘سو میں وزیروں مشیروں کی خدمتِ اقدس میں نہایت احترام سے عرض گزار ہوں کہ پاکستان بدل چکا ہے۔ دماغوں کی بند کھڑکیاں صرف کھلی ہی نہیں ہیں ان میں گلاب بھی مہک رہے ہیں ۔دھرنا ون اور دھرنا ٹو نے جس زمین میں روشنی کے ہل چلائے تھے وہاں خوشبو کی فصل اگ آئی ہے ۔
اقتدار کی وادی میں کچھ پرندے بول رہے ہیں کچھ خاموش ہیں ۔آنے والے بھونچال کا اندازہ دونوں کو ہے ۔کہیں کہیں محفوظ جگہوں پر پہنچنے کےلئے بھاگنے کی تیاریاں بھی جاری ہیں ۔مگر اُس وقت سب کی آنکھیں پنجاب کے وزیر اعلیٰ پر لگی ہوئی ہیں۔ ذرائع کے مطابق شایدوہی پاکستان کے اگلے وزیر اعظم ہوںگے۔ ابھی اس بات پر گفت و شنید جاری ہےکہ انہیں ایم این اے بننے کےلئے جودوتین ماہ درکار ہیں اس عرصہ میں کون وزیر اعظم ہوگا۔لیکن ایک بات طے ہے کہ اگر شہباز شریف وزیر اعظم بنا دئیے گئے تو نون لیگ کے مردہ جسم میں پھر سے جا ن پڑ سکتی ہے ۔نواز شریف کے ترکش میں شہباز شریف آخری تیر ہیں ۔اگر کسی وجہ سے انہوں نے نون لیگ کی کمان نہ سنبھالی تو پھر نواز شریف کے ساتھ نون لیگ بھی تاریخ کا حصہ بن کر رہ جائے گی ۔اگرچہ آصف علی زرداری کے شہباز شریف سے زیادہ اچھے مراسم نہیں مگر وہ تحریک انصاف کو روکنے کےلئے ان کا ساتھ دینے پر آمادہ ہیں کیونکہ اصل جنگ تو اس مبینہ سرمائے پر قبضہ برقرار رکھنے کی ہے جوسوئٹزلینڈ کے بنکوں سے سرے محل تک اور پانامہ سے پارک لین تک بکھرا ہوا ہے۔اس سلسلے میں وہ چار سو سرمایہ دار جن کا نام پانامہ لیکس میں آیا ہے ،متحرک ہوچکے ہیں ۔نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو پھر سے قریب لانے کی کوششیں شروع ہوچکی ہیں ۔حسین نواز کی آصف علی زرداری سے ملاقات کی خبرکسی وقت بھی نیوز چینلز پر فلیش ہو سکتی ہے۔ ایک اور بات کہ اگر حدیبیہ پیپر ملزکا کیس سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کی سفارش پر سننا شروع کردیا تواورمسائل پیدا ہوجائیں گے۔یہ واضح رہےجے آئی ٹی نے حدیبیہ پیپر ملز، چوہدری شوگر ملز اور رائے ونڈ میں زمین کی خریداری سمیت تیرہ پرانے مقدمات دوبارہ شروع کرنے کی سفارش کی ہے۔

تازہ ترین