• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جمہوریت کی بنیادی تعریف اس طرح کی جاسکتی ہے کہ معاشرہ اپنی مرضی سے اپنے اوپر حکمرانی کے لئے اپنی پسند کے لوگ منتخب کرسکے تاکہ معاشرے کا نظام منتخب کردہ لوگوں کے ہاتھوں میں رہے اور منتخب لوگ اپنے ہر عمل اور فیصلوں پر عوام کے سامنے جوابدہ ہوں اور ایک مخصوص مدت تک وہ معاشرے کی حکمرانی کے اہل رہیں اور اس مخصوص مدت کے بعد وہ پھر عوام کے سامنے اپنی حکمرانی کے اچھے اور برے نتائج کے ساتھ موجود ہوں اور عوام اگلی مدت کے لئے انھیں دوبارہ منتخب کرنے یا مسترد کرنے کی فیصلہ کن قوت یعنی ووٹ کی طاقت رکھتے ہوں اسی قانون کی بدولت دنیا میں جمہوری نظام قائم و دائم ہے اور اس جمہوری نظام کو نہ صرف اہمیت اور مقبولیت حاصل ہے بلکہ تمام ہی ترقی یافتہ ممالک جہاں یہ جمہوری نظام کامیابی کے ساتھ رائج ہے وہاں کی حکومتیں خصوصاََ تیسری دنیا کے ممالک میں اس نظام کے قیام کے لئے دبائو ڈالتی نظر آتی ہیں کیونکہ تیسری دنیا میں عموماََ یا تو آمریت قائم ہوتی ہے یا جمہوریت اگر قائم بھی ہو تو وہ آمریت سے زیادہ بدتر نظر آتی ہے ، جاپان دنیا کے ان چند ترقی یافتہ ممالک میں شامل ہے جہاں نہ صرف جمہوریت انتہائی مضبوطی کے ساتھ قائم ہے بلکہ جاپان میں جمہوری نظام کی جڑیں انتہائی گہری ہوچکی ہیں اور جمہوریت کی اصل روح کے ساتھ عوام کو جمہوریت کے ثمرات بھی فراہم کررہی ہیں ، جاپانی معاشرے میں جزا و سزا کا بھی بہترین نظام رائج ہے تاہم ملکی سیاستدانوں کو نہ صرف عوام اپنے ووٹوں کے ذریعے ان کی اچھی یا بری حکمرانی کی سزا و جزا کا فیصلہ کرتے ہیں بلکہ کسی بھی کرپشن یا عوامی یا ملکی مفاد کے خلاف کام کرنے پر قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی سخت کارروائی کرتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ جاپان میں کرپشن نہیں ہے یا منفی سیاست نہیں ہوتی ، لیکن جاپان میں کرپشن کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہی سمجھا جاتا ہے اور پکڑ کی صورت میں یا تو لمبی جیل کی ہوا کھانی پڑتی ہے یا پھر غیرت مند سیاستداں عوام کو اپنی شکل دکھانے کے بجائے خود کشی کو ترجیح دیتے ہیں ، دوسری جنگ عظیم کے بعد جاپان میں قائم ہونے والے جمہوری نظام میں گزشتہ ستر برسوں میں پچیس عام انتخابات منعقد ہوچکے ہیں جو ہر تین سال بعد ہوتےہیں گزشتہ ستر برسوں میں جاپانی عوام نے عام انتخابات میں ایک ہی جماعت یعنی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی کو منتخب کرکے ایوانوں میں بھیجا ہے اور اسی جماعت نے اپنی ذمہ داریاں بہترین طریقے سے انجام دیکر جاپان کو دنیا کی دوسری بڑی معیشت اور اب چین کے بعد تیسری بڑی معیشت بنادیا ہے ، جاپان میں جمہوریت کا سب سے بڑا فائدہ وہاں کے اداروں کی مضبوطی کی شکل میں سامنے آیا ہے ،خاص طور پر قانون نافذ کرنے والا ادارہ یعنی محکمہ انصاف اتنا بااثر اور خود مختار ہے کہ اگر جاپان کے وزیر اعظم پر بھی قانون کی خلاف ورزی ثابت ہوجائے تو انصاف کا محکمہ جاپان کے وزیر اعظم سے بھی پوچھ گچھ کرسکتا ہے جس پر کوئی دبائو بھی نہیں ہوگا بلکہ عوام کی جانب سے محکمہ انصاف کی حوصلہ افزائی ہی کی جائے گی ، اسی طرح جاپان میں ہر ادارہ نہ صرف مکمل بااختیار ہے بلکہ اپنے محکمے کے ذریعے جاپانی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے بھرپور اقدامات بھی کرتا ہے ۔
دوسری جانب ہم اپنے ملک پاکستان پر نظر ڈالیں تو افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ باوجود ستر برس گزرنے کے ہمارے جمہوری ادارے وہ مضبوطی حاصل نہیں کرسکے جو جاپان جیسے دیگر ممالک جمہوریت کے قیام کے چند برسوں میں ہی حاصل کرچکے تھے ،آج بھی ہمارے ملک میں ہلکے سے سیاسی بحران میں لوگوں کو جمہوریت خطرے میں نظر آنے لگتی ہے ، جمہوریت کو خطرے میں ڈالنے والی بھی جمہوری طاقتیں ہوتی ہیں جو پچھلے دروازے سے آمرکی گود میں بیٹھنے کو تیار رہتی ہیں جمہوری قوتوں کے اسی عمل کی وجہ سے پاکستان میں جمہوریت آج تک مضبوط نہیں ہوسکی ۔عالمی طاقتیں بھی اپنے مفادات کے لئے تیسری دنیا کے ان ممالک میں آمریت کو قبول کرلیتی ہیںاور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں ہمیشہ ہی جمہوریت مخالف قوتوں کی حوصلہ افزائی ہوتی رہی ہے ، تاہم گزشتہ دس برسوں میں پیپلزپارٹی کی حکومت کے قیام کے بعد جس طرح میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے درمیان ایک ان کہی کمٹمنٹ ہوئی جس میں جمہوری تسلسل اور سسٹم کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لئے مشترکہ کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا جس کے بعد پیپلز پارٹی کی حکومت نے پانچ سال مکمل کیے باوجود اس کے کہ وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اپنے عہدے سے دستبردار ہونا پڑا تھا تاہم اس وقت نہ تو میاں نواز شریف نے اس بحرانی کیفیت کا فائدہ اٹھایا اور نہ ہی آصف علی زرداری نے عدالتی فیصلے کے خلاف کو ئی بڑا اقدام کیا جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو اپنی حکومتی مدت پوری کرنے کا موقع ملا ، پیپلز پارٹی کی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرکے فارغ ہوئی تو میاں نوازشریف کی مسلم لیگ ن اقتدار میں آئی اور بہترین اقدامات کے ذریعے آگے بڑھی لیکن اس کے سامنے سب سے بڑی دیوار پیپلزپارٹی نہیں تحریک انصاف ثابت ہوئی جس نے پہلے دھرنے کے ذریعے نوازحکومت کے خاتمے کی کوشش کی لیکن ناکام رہی تاہم کچھ عرصے بعد پاناما لیکس میں میاں نواز شریف کے صاحبزادوں کا نام آنے کے بعد عمران خان ایک دفعہ پھر سڑکوں پر آئے اور اس دفعہ انھوں نے میاں نواز شریف کو اپنی بے قصوری ثابت کرنے کے لئے اپنے آپ کو سپریم کورٹ کے سامنے پیش کرنے پر مجبور کردیا ، جس کے نتیجے میں جے آئی ٹی وجود میں آئی اور اب پیر کے روز جے آئی ٹی کی منظر عام پر آنے والی رپورٹ کی روشنی میں میاں نواز شریف کی حکومت ایک بار پھر خطرے میں محسوس ہوتی ہے لیکن کچھ جمہوریت مخالفین اسے جمہوریت کو خطرہ قرار دے رہے ہیں جو ایک انتہائی منفی سوچ کی عکاسی ہے کیونکہ حکومت الگ چیز ہے اور جمہوریت الگ چیز ہے ،میاں نواز شریف کی حکومت کے گزشتہ چار سالوں میں بلاشبہ پاکستان نے ترقی کی ہے سی پیک پاکستان کے مستقبل کو بدل کر رکھ دے گا تاہم جمہوریت کا تسلسل بحال رہنا چاہیے ، جہاں تک جے آئی ٹی کی بات ہے تو حکومت کو ایسی قانون سازی کرنی چاہیے کہ فوج ، عدلیہ اور حکومت سمیت جتنے بھی اعلیٰ ترین عہدے موجود ہیں ان کے تمام سربراہوں کاجے آئی ٹی سے گزرنا لازمی ہو تاکہ دودھ کا دودھ اورپانی کا پانی ہوسکے اور جو جے آئی ٹی سے کلیئر ہو اسے اہم ترین عہدے پر مکمل آزادی اور اختیارات کے ساتھ تعینات کیا جائے شاید اگر اہم عہدوں پر موجود افراد کرپشن سے پاک ہوں تو نیچے تک اس کے ثمرات پہنچ سکیں ۔

تازہ ترین