• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میںچلنے والی ٹریفک کی طرح ،کہ نہ جانے کب کوئی گاڑی بغیر انڈیکیٹر دیے کس طرف مڑ جائے ہمارے ملک کے سیاسی حالات بھی اسی ڈگرپرچلتےہیں، مسلم لیگ(ن) کی اعلیٰ قیادت اس وقت شدید دبائو میںہے اور ایسا محسوس ہوتاہے کہ چار سال تک کھڑکی توڑہفتہ منانے والی حکومتی فلم کا آخری ہفتہ چل رہاہے لیکن کچھ معلوم نہیں کہ آئندہ چند دنوں میں اونٹ کس کروٹ بیٹھ جائے یا بیٹھنے کی بجائے سب کچھ روندتا کس جانب مڑ جائے۔ چار سالہ کھڑکی توڑ ہفتے میں ہم سب یہ سنتے آئے ہیں کہ قابل احترام وزیر اعظم صاحب اپنے پائوںپر خود کلہاڑا مارنے میں ایسے طاق ہیں کہ کسی وقت بھی ’’تڑک‘‘ کی آواز سے یہ عمل دھرا سکتے ہیں بلکہ کلہاڑا تو وہ قینچی چپل کی طرح پائوں میں گھسیٹتے پھرتے ہیں۔ جب احتساب احتساب کے نعرے بلند ہونا شروع ہوئے تو اپنے ہی ادارے نیب کے خلاف ہمارے کچھ دوستوں اور حکومت کے بہی خواہوں کے ذریعے ایسے بیانات دلوائے گئے کہ ’’پرکاٹ دیے جائینگے ، ناخن تراش دیے جائینگے‘‘ کہ بیانات نے وقتی طورپر سراسیمگی سی پھیلا دی اور ہمدردوں نے اس امر کا انتظار کیے بغیر ہی کہ ’’ کوئی آئے اورپرکاٹ کر یا ناخن اتار کر لے جائے‘‘ خود ہی آنکھیں موند لیں۔ اگر اس وقت یہ صورتحال نہ ہوتی تو مجھے یقین ہے کہ کچھ زیادہ خطرہ نہ تھا اور تفتیش اور تحقیقات کندگان ابھی تک’’ فائل فائل ‘‘ہی کھیل رہے ہوتے، کچھ پیشیاں ہوتیں، کچھ گواہیاں ہوتیں، ثبو ت حا صل کر نےکےلیےبیرون ملک کے کچھ دورے ہوتےاور اگر کلین چٹ نہ بھی ملتی تو ٹوئنٹی ٹوئنٹی کی بجائے طویل ٹیسٹ میچ چلتا رہتا، چلیں جو ہوا سو ہوا، لیکن ایک بار پھر عقل اور دانش تقاضا کررہا ہے کہ کچھ دیرکےلیے کلہاڑ ابھی رکھ دیا جائے اور پائوں بھی سمیٹ لیے جائیں اور گمشدہ کنجی جسے حکمت عملی کہتے ہیں اسے اپنا یا جائے تو ہوسکتا ہے کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں کچھ خامیاں موجود ہوں لیکن ان کو بنیاد بنا کر لڑائی نہیں لڑنی چاہیے کیو نکہ رپورٹ میں اتنا طوفان ضرور موجود ہے جو بہت کچھ اڑا کر خیمے گراسکتا ہے۔ اب حکمرانوں کو ہلا شیری دینے والوں کو یہ سوچ کر فیصلہ کرناہے کہ حکمت عملی سے کام لے کر کم سے کم نقصان کا موجب بنناہے اور اگر نقصان پورا پورا بھی ہوتوکچھ ایسے’’ راستے‘‘ بنالینے یا چھوڑدینے ضروری ہیں کہ جہاں سے چند ٹھنڈے ہوا کے جھونکے آپ کو ریلیف دے سکیں، فانٹ گیٹ اسکینڈل، BVIاور دبئی سے حاصل ہونے والے خطوط یا دستاویزات اپنے اندر کافی کچھ رکھتے ہیں۔ اس لیے آپ نے یہ فیصلہ کرناہے کہ خود سائیڈ پر ہوکر جمہوریت اور حکومت کو بچاناہے یا سب کچھ ڈبونا ہے ، حکمرانوں کے کیمپ میں بہت سارے گفتار کے غازی یہ زور لگائیںگے کہ میاں صاحب ڈٹ جائوہمارا مینڈیٹ بڑا تگڑاہے ،جے آئی ٹی کے فلاں فلاں چیپٹر میں فلاں فلاں باتیں آپ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں اور عوام کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر تو آپ کے ساتھ ہے ہی ہے ، لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ کاغذلہرا لہرا کر ،مکے بنابنا کر خود کو لوہےکےچنے قرار دے کر اور قصائی کی دکان اور جیمزبانڈ کی فلموں کے القابات دے کر بھی گزشتہ 60دنوں میں سوائے ہزیمت اور مشکلات پیدا کرنےکچھ خاطر خواہ فوائد حاصل نہیں ہوئے ورنہ ہم نے تو ڈائس گراتے جھگڑے بھی دیکھے ہیں ایک دوسرے سے الجھتے ہوئے بھی دیکھا ، اگر میاں صاحب آپ دس سال کی جلاوطنی گزار کر بھی اقتدار حاصل کرسکتے ہیں تو یہ پھر بھی ہوسکتا ہے ، بڑے بڑے پہلوان بعض اوقات دم لینے کےلیے رنگ کے باہر چلے جاتےہیں اور جب وہ واپس رنگ میں آتے ہیں تو تازہ دم ہونے کی وجہ سے دائو لگانا آسان ہوتاہے ، میاں صاحب یہاں گرانے کےلیے سارے اکٹھے ہوجاتے ہیں لیکن گرتے ہوئے کو بچانے یا گرے ہوئے کو اٹھانے والوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے کیونکہ ان کو خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں ڈوبنے والے انہیں بھی کھینچ کر اپنے ساتھ بہا نہ لے جائے ،وقت کم ہے فیصلہ کرتے ہوئے ہر کل کا سوچ لیں ، جمہوریت ، ڈس کوالیفکیشن یا اپنی ہی پارٹی کی حکومت یا صرف ذاتی اقتدا اور ڈھیروں مشکلات۔کلہا ڑا رکھ کر دا نش کا مظا ہرہ کیا جا ئے۔اور جی ہاں احتساب کا جو سلسلہ شرو ع ہوا ہے اسے رکنا نہیں چا ہیے بلکہ ہر اس تجو ری تک پہنچنا چا ہیے جہا ں پرہمارے عوام اور ملک کو لو ٹ کر اسے بھرا گیا ہے۔

تازہ ترین