• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے پوچھا حضور انسان کب قلبی سکون، ذہنی اطمینان، خیال کی روشنی اور عزت پاتا ہے؟ انہوں نے فوراً بلاسوچے سمجھے جواب دیا ’’جب وہ علامہ اقبالؒ کے اس شعر کا مفہوم اس طرح سمجھ لے کہ اسے اپنی ذات پر طاری کرلے۔‘‘ پھر انہوں نے وہ شعر پڑھا اور جب وہ یہ شعر پڑھ رہے تھے تو ان کی آنکھوں سے چمک اور روشنی یوں برس رہی تھی جیسے بادل گرجیں اور بجلی کڑکے تو لمحوں کے لئے اجالا پھیل جاتا ہے اور پھر وہ اجالا غائب ہو جاتا ہے۔ وہ شعر کیا تھا؟ فلسفہ زندگی تھا، سمجھنے کا نہ سمجھانے کا بلکہ صرف اور صرف اپنانے کا لیکن سچ یہ ہے کہ اسے سمجھنا آسان ا ور اپنانا تقریباً ناممکن کیونکہ انسان بنیادی طور پر کمزو ر ہے، ہوس و حرص کا شکار ہوجاتا ہے اور پھراس کے نتائج سے بے خبر ہو کر اپنی رو میں بہتا چلا جاتا ہے۔ کہنےلگے ،پہلے شعر سن لو، پھر تمہیں آج کی سیاست میں فساد، رسوائی، تذلیل اور شرمندگی کا راز سمجھ میں آ جائے گا۔ علامہ نے دہائیوں قبل ایک ایسی سچائی سادہ الفاظ میں بیان کردی تھی جو قرآن مجید کی تعلیمات کا بنیادی اصول ہے اور جسے اللہ سبحانہ ٗ تعالیٰ نے بار بار بیان فرمایا ہے۔ شعر ہے؎
یہ مال و دولتِ دنیا، یہ رشتہ و پیوند
بُتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
ہمارے ملک میں یہ سارا فساد کیوں برپا ہے؟ اس مہم جوئی، کشمکش، لڑائی جھگڑے اور لعن طعن کی بنیاد کیا ہے؟ موجودہ فساد اور ذلت و رسوائی کی بنیاد مال و دولت ِ دنیا ہے، رشتہ و پیوند ہے۔ اسی لئے قرآن مجید مال و دولت اور اولاد کو فتنہ قرار دیتاہےاور اسی لئے مال و دولت اور رشتوں کو اقبال ؒ نے بُتانِ وہم و گماں کہا ہے۔ اگر انسان مال و دولت کی حرص و ہوس کا غلام بن جائے تو پھر اس ہوس کو لگام دینا اور حرص کا راستہ روکنا ممکن نہیں رہتا۔ انسان دولت کے ڈھیر اکٹھے کرکے اپنی اولاد..... رشتہ و پیوند..... کا مستقبل خوشحال بنانے کے خبط میں مبتلا ہو جاتا ہے اور بھول جاتا ہے کہ انسان کی تدبیر کے علاوہ ایک فیکٹر مقدر کا بھی ہے اور مقدر کا بنیادی اصول یہی ہے کہ جب ہوس انتہا کی حدوںکو چھونے لگے تو تدبیریں ناکام ہو جاتی ہیں اور تقدیر کا عمل شروع ہو جاتا ہے۔ تقدیر کا عمل ذلت و رسوائی لاتا ہے اور انسان کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا ہے کہ جس دولت و امارت کو تم عزت، شہرت اور اقتدار کاذریعہ بنانا چاہتے ہو وہی دولت تمہاری عزت، شہرت، مقبولیت اور اقتدار کی دشمن بھی ہوسکتی ہے۔ قدرت رسی دراز کرتی ہے لیکن جب قدرت رسی کھینچتی ہے تو انسان کو اپنے علاوہ دوسروں کابھی حساب دینا پڑتا ہے، اپنے نیک نام مرحوم بزرگوں کے کفن پر پڑتے چھینٹے بھی برداشت کرنا پڑتے ہیں..... پکڑ اس دنیا میں بھی ہوتی ہے اور اگلے جہان میں بھی..... اگلے جہان کی پکڑ ہمیں نظر نہیں آتی جبکہ اس جہان کی پکڑ کا تماشا ساری دنیا دیکھتی، ہنستی اور افسوس کرتی ہے، لیکن سچ یہ ہے کہ اس سے کوئی بھی سبق حاصل نہیں کرتا.....
پھر وہ آسمان کی طرف دیکھ کر کچھ سوچنے لگے۔ میں گم سم مؤدب بیٹھاانہیں بے زبان آنکھوں سے دیکھے جارہا تھا۔ بے زبان اس لئے کہ آنکھوں کی بھی زبان ہوتی ہے جو بولتی، پیغام دیتی اور پیغام موصول کرتی ہے۔ ایک زبان وہ ہے جسے اللہ پاک نے ہمارے دانتوں میں قید کر دیا ہے اور ایک زبان اللہ پاک نے انسانی جسم کے تمام اعضا کو عطا کر دی ہے۔ ہاتھ کے اشارے بھی زبان، قدموں کی رفتار اور سمت بھی زبان، سر کے ہلنے اور جھومنے اور ساکت ہونے کی بھی زبان ہوتی ہے جو غور کرنے والوں کو سنائی دیتی اور سمجھ میں آتی ہے۔ زبان کے بعد دوسری سب سے مؤثرزبان آنکھوں کی ہوتی ہے۔ اگر موجودہ فساد کے کرداروں اور کرداروںکے حواریوں کی بولتی آنکھوں کو سنو تو تمہیں ہزار ہا پیغامات ’’سنائی‘‘ دیں گے۔کسی کی آنکھ میں بے بسی، پچھتاوا، پریشانی اور غصے کے خوفناک مناظر دکھائی دیں گے تو کسی کی پھٹی پھٹی نگاہیں، تیزی سے گھومتی نظریں واضح طور پر راز فاش کریں گی کہ اس کی آنکھوں اور زبان کا تعلق یا رشتہ ٹوٹ چکا ہے۔ وہ بول تو رہا ہے لیکن دل سے نہیں، دماغ سے نہیں، اندر سے نہیں بلکہ محض زبان کے بے جان ہونے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بولے جارہا ہے۔ اسے احساس ہے کہ وہ اپنی زبان نہیں بلکہ درباری زبان بول رہا ہے لیکن وفاداری کی ہوس اور عہدے کی حرص اس پر اس قدر غالب آچکی ہے کہ وہ ان کا تابع محمل اور اسیر ہو چکا ہے۔
ایک دم انہوں نے مجھے مخاطب کیا۔ ڈاکٹر صاحب! میری بات یاد رکھو کہ یہ دنیاوی عزت کے دیوانے نہیں جانتے کہ ایک عزت وہ ہوتی ہے جس کا مظاہرہ دنیا کرتی ہے۔ آپ جس طرف جاتے ہیں لوگ آپ کو سلام کرتے، آپ کی نگاہ التفات کے منتظر رہتے اور آپ کو ’’طلب‘‘ کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ سب بُتانِ وہم و گماں ہیں۔ اصل عزت وہ ہوتی ہے جو خود انسان اپنی کرتا ہے۔ انسان خوداپنی عزت اس وقت کرتا ہے جب اس کا ضمیر مطمئن، قلب منور اور نیت صاف ہو۔ اگر انسان کو علم ہو کہ وہ دولت کی ہوس میں اندھا ہو کر ہیرے جواہرات اکٹھے کرتارہا ہے، دوسروںکا حق مارتا رہا ہے، لوگوں سے جھوٹ بولتا اور اقتدار کے حصول کے لئے دھوکہ دیتا رہا ہے، لوگوں کو استعمال کرکے ان کی ڈیڈ باڈیز (Dead Bodies) پر چلتا رہا ہے، قومی خزانے کو بے دریغ لٹاتا اور اقتدار کو دولت اکٹھا کرنے کے لئے استعمال کرتا رہا ہے، انسانوں کی خرید و فروخت میں ملوث رہا ہے وغیرہ وغیرہ تو ایسا انسان کبھی بھی اپنی عزت نہیں کرسکتا چاہے دوسرے اسے سر پر بٹھائیں اور آنکھوں پہ سجائیں..... ایسا انسان دنیا کی تمام نعمتوں، سہولتوں، اقتدار اور بالادستی اور دولت کے پہاڑوں کے باوجود بے سکونی کی دھیمی دھیمی آگ میں جلتا رہتا ہے..... ڈاکٹر صاحب !قلبی سکون چاہئے تو دوسروں سے عزت کروانے کی خواہش کی بجائے خود اپنی عزت کرنے کا سامان اکٹھا کرو۔
یہ دنیا، یہ زندگی درحقیقت سب کچھ فریب ِ نظر اور وہم و گمان ہے۔ اس فریب ِ نظر کے بت مال و دولت اور رشتہ و پیوند ہیں جن کی پوجا کرتےہوئے انسان نظر نہ آنے والی بت پرستی کا شکار ہو جاتا ہے۔ اقبالؒ نے سچ کہا ہے کہ یہ سب کچھ بُتانِ وہم و گمان ہیں۔ ابدی اوراصلی حقیقت فقط لا الٰہ الا اللہ ہے جس نے یہ راز پالیا وہ سرخرو ہوا اور جو اس راہ سے ہٹا وہ بُتانِ وہم و گمان کی دنیا میں گم ہو کر رُسوا ہوا۔ آج پاکستان میں جو فساد برپا ہے، شور و غوغا، ماتم ہے، ذلت و رسوائی کا بازار گرم ہے جس نے ملک و قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے اس سارے فساد کی جڑ ’’یہ مال و دولت ِدنیا، یہ رشتہ و پیوند‘‘  کے بتوں کی محبت اور حرص و ہوس میں پیوست ہے۔ انسان کو سچی عزت، سچی خوشی اور قلبی روشنی اسی وقت ملتی ہے جب وہ ان بتوں کو پاش پاش کرکے لا الٰہ الا اللہ کو اپنالے۔ حرص و ہوس کی دلدل میں ڈوبے ہوئے مقتدر طبقے نہ کبھی ان بتوں کی پرستش سے تائب ہوں گے اور نہ ہی یہ فساد ختم ہوگا۔

تازہ ترین