• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آپ کو جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹ سے کوئی دلچسپی ہے؟ اگر ہے تو اس دھما چوکڑی سے بھی ہو گی ان دنوں جو اس مسئلے پر مچی ہوئی ہے۔ صبح سے شام تک، اور رات گئے، ایک سے ایک تجزیہ کار اس پر اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہے اور سوشل میڈیا بھرا پڑا ہے، اندازوں سے، خواہشات سے۔ جس کا جو جی چاہے لکھ رہا ہے۔ صحیح ہو یا غلط، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ مہذب معاشروں میں، یہ سارا کام اعلیٰ عدلیہ پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اس نے جے آئی ٹی بنائی، اسے رپورٹ مل بھی گئی، سماعت کی آئندہ تاریخ بھی طے ہو گئی۔ اب جو کچھ کرنا ہے، سپریم کورٹ کو کرنا ہے، وہیں فیصلہ ہو گا اور وہ سب کو تسلیم کرنا ہو گا۔ اس سے مفر نہیں ہے۔ مگر ہنگامہ برپا ہے، اور ہر کوئی اپنی رائے اور خواہش کو قانون سمجھ کر عدلیہ کو مشورہ دے رہا ہے، یا مطالبہ کر رہا ہے کہ یہ کیا جائے، یا وہ کیا جائے۔ ایسے بھی ہوں گے جنہوں نے رپورٹ کی سمری بھی شاید نہیں پڑھی ہو، مگر ان کا بھی مشورہ حاضر ہے۔
مجھے اس رپورٹ پر، اور اس سے پہلے ہونے والے بعض ردِعمل سے کچھ دلچسپی ہے۔ بلاوجہ نہیں۔ ان میں آپ سب کے لئے، میرے لئے، دلچسپی کا کچھ سامان ہے۔ اور اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ اس کے نتیجے میں نواز شریف کی حکومت ختم ہو جائے گی یا باقی رہے گی۔ کچھ بھی ہو سکتا ہے، مگر وہ تو سپریم کورٹ کو کرنا ہے، ان شہادتوں کے مطابق جو اس کے سامنے پیش کی جائیں گی۔ میری دلچسپی کی وجوہات کچھ اور ہیں۔ ان کا براہِ راست اس رپورٹ سے بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ یا اگر ہے بھی تو ان معانی میں کہ یار لوگ کس کس طرح کے تبصرے کر رہے ہیں، تبصرے کم خواہشات زیادہ۔ اور ان میں ہمارے کئی دانشور بھی شامل ہیں۔ یوں تو ہر شخص کو اپنی ایک رائے رکھنے اور اُس کے اظہار کا حق ہے۔ مگر کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ حقائق کو اپنی خواہشات کے مطابق توڑ مروڑ دیا جائے؟ آئین اور قانون کی اپنی توجیہات کی جائیں؟ جے آئی ٹی بننے سے پہلے، آئین کا ایک حوالہ بہت استعمال ہوا، مقبول میں جان بوجھ کر نہیں کہہ رہا، کہ وہ بالکل غلط حوالہ تھا، اور غلط حوالے مقبول نہیں ہوتے۔ آئے دن، ہرشخص، یا تقریباً ہر شخص، آئین کے آرٹیکل چھہ کا حوالہ دیتا تھا۔ فلاں کے خلاف اس آرٹیکل کے تحت کارروائی کی جائے، اُس کے خلاف آرٹیکل چھ میں کارروائی کی جائے۔ کئی بار سمجھایا، کوئی سننے کو تیار ہی نہیں تھا، بھائی، یہ آرٹیکل صرف آئین کو توڑنے اور اس کام میں مدد کرنے والوں کے خلاف کارروائی کے لئے اس کتاب میں شامل کیا گیا تھا۔ اگر کوئی شخص، ملک کے خلاف غداری کا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے خلاف تعزیرات پاکستان میں دفعات موجود ہیں، ان کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ اور ماضی میں غداری کے مقدمات تعزیرات پاکستان کی متعلقہ دفعات کے تحت ہی درج کئے جاتے تھے۔ مگر مجال ہے جو کسی نے سنا ہو۔ اور ان میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان بھی شامل تھے، عام لوگوں کا تو ذکر ہی کیا۔ سب ہی مطالبہ کرتے رہے، ایک بے معنی مطالبہ۔
اور اب دیکھیں کیا ہورہا ہے۔ ان دنوں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا تذکرہ بہت ہے۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ میں بھی ان کا حوالہ ہے اور اگر کوئی کارروائی نواز شریف کے خلاف ہوئی تو انہیں آرٹیکل کے تحت ہوگی۔ یعنی وہ پارلیمان کے لئے نا اہل قرار پائیں گے۔ بس۔ اس سے زیادہ ان دفعات کے تحت کچھ نہیں ہو سکتا۔
مگر ہمارے ایک دوست ہیں، اور ایسے کئی ہوں گے، وہ کہتے ہیں کہ نواز شریف کے پورے خاندان کے خلاف ان دفعات کے تحت مقدمہ چلایا جائے۔ ہمارے یہ دوست، ہمارا ان کا پرانا تعلق ہے، ان کا نام لکھنے میں کیا حرج ہے، حسین نقی صاحب فیس بک پر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ وہ پاکستان کے انسانی حقوق کمیشن کے عہدیدار بھی شاید ہیں۔ ان کا خیال ہے، اور ممکن ہے درست ہو، کہ جے آئی ٹی نے نواز شریف کو بدعنوانیوں کا مرتکب قرار دے دیا ہے اس لئے، بعض چینیلز کا یہ وکالت کرنا کہ ان کا معاملہ نیب کو بھیجا جائے درست نہیں ہے۔ (ترجمہ میرا ہے)۔ اس کا مقصد بھی انہوں نے بیان کیا ہے۔ مگر اس پر کیا بحث۔ میرا معاملہ صرف یہ ہے کہ ان جیسے پڑھے لکھے دانشور سے مجھے یہ توقع نہیں تھی کہ وہ نواز شریف اور ان کے خاندان، یا کسی بھی شخص کے خلاف آرٹیکل 62اور 63کے تحت مقدمہ چلائے جانے کی بات کریں گے۔ ان دونوں دفعات میں صرف یہ کہا گیا ہے کہ کون پارلیمان کا رکن بننے کا اہل ہے اور کون اہل نہیں ہے۔ اس سے زیادہ ان میں کچھ نہیں ہے۔ یعنی اگر نواز شریف بدعنوان پائے جائیں، یا بقول ہمارے دوست، پائے گئے ہیں، تو ان کی پارلیمان کی رکنیت ختم کردی جائے گی، جیسا کہ ماضی میں کئی معاملات میں ہوا۔ مگر ان پر اس حوالے سے کوئی مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا اور ان کے خاندان کے ان لوگوں کے خلاف تو کچھ بھی نہیں ہو سکتا جو پارلیمان کے رکن نہیں ہیں۔ ہاں، کسی عدالت میں ان کا مقدمہ ضرور بھیجا جا سکتا ہے جو دوسرے متعلقہ قوانین کے تحت کارروائی کرسکتی ہے۔ یا جب ان میں سے کوئی پارلیمان کا انتخاب لڑنا چاہے تو اس بنیاد پر اسے چیلنج کیا جا سکتا ہے کہ انہیں فلاں مقدمے میں سزا ہو چکی ہے۔ یہ سب ان دو دفعات میں لکھا ہوا ہے، اور بس ا تنا ہی لکھا ہوا ہے۔
میری تشویش کی ایک اور بھی وجہ ہے۔ حسین نقی صاحب اور ان کے ہم خیال پاکستان کے نصاب میں تبدیلی کے خواہاں ہیں۔ ان کے کچھ مطالبات جائز بھی ہوں گے۔ لیکن ان کی کوئی بنیاد ہونی چاہئے۔ اگر معاملہ یہی ہے کہ آئین کی دو دفعات کی توجیح اور تشریح وہ اپنی خواہشات اور رائے کے مطابق کریں گے، اور اپنی توجیحات کو درست مان کر اسی حوالے سے مطالبہ بھی کریں گے، توان کے دوسرے مطالبات پر بھی زیادہ توجہ سے غور کرنا پڑے گا۔ ان کی حالیہ بات سے تو یوں لگا۔ اور میں ایک بار پھر یاد دلادوں، وہ میرے بہت پرانے دوست ہیں، ممکن ہے بزرگ بھی ہوں، کہ جب وہ اپنی رائے کااظہار کرتے ہیں تو شاید ہی کبھی حقائق کا جائزہ لیتے ہوں۔ فرض کریں نصاب میں تبدیلی واقعی ہونی چاہئے، تو کیا یہ کام ان لوگوں پر چھوڑا جا سکتا ہے جو حقائق کا جائزہ ہی نہیں لیتے؟ یہ نہیں ہو سکتا۔ نصاب کا معاملہ ایک بہت سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس میں تبدیلی کر کے ہی ہندوستان میں انگریز نے اپنے قدم جمائے تھے۔ اس پر زیادہ توجہ نہ دے کر ہم نے آدھا ملک گنوادیا۔ اب بھی وقت گیا نہیں، گو جا رہا ہے، کبھی تیز اور کبھی آہستہ، ہاتھ سے نکلا جارہا ہے، اس لئے اس طرف بھرپور توجہ کی ضرورت ہے۔ نصاب تبدیل کریں، قومی ضروریات اور تقاضوں کے مطابق۔ مگر یہ دیکھ لیں کہ کن لوگوں کو یہ ذمہ داری سونپی جا رہی ہے۔ یونہی، ازراہ تفنن، ہمارے یہاں، کچھ کتابیںانگریزی اسکولوں میں چھوٹے بچوں کو پڑھائی جا رہی ہیں۔ ان میں سے ایک میںکئی سو برس پہلے پیدا ہونے والے ایک مسلمان دانشور کے بارے میں لکھا ہے کہ انہوں نے دیگر ملکوں کے علاوہ سعودی عرب کا بھی دورہ کیا تھا۔ کسی نے آج تک اس پر اعتراض کیا نہ کتاب چھابنے والوں کو بتایا کہ 1932سے پہلے سعودی عرب کا کوئی وجود نہیں تھا۔ ایسی کتابیں اگر لکھنی ہیں تو استعفا میرا بہ حسرت و یاس۔

تازہ ترین