• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ ایک منفرد قسم کی تقریب تھی جس میں چند مالدار ہندوئوں نے مل کر سندھ کے مختلف علاقوں سے تعلق رکھنے والے نچلی ذات کے 65ہندو جوڑوں کی اجتماعی شادی کا اہتمام کیا تھا۔ یہ تقریب حیدر آباد شہر سے باہر ہٹڑی کے علاقے کے نزدیک ایک فیکٹری کی حدود میں منعقد کی گئی تھی۔ اس تقریب میں مجھے بھی مدعو کیا گیا تھا لہٰذا اس تقریب میں شرکت کرنے کا مجھے بھی اعزاز حاصل ہے۔ جی ہاں اس تقریب میں شرکت کو میں اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتا ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس سے پہلے سندھ میں پاکستان سے پہلے اور بعد میں بھی ہندو سیٹھ نچلی ذات کے ہندوئوں کے جوڑوں کی شادی کا اہتمام کرتے رہے ہیں مگر ان جوڑوں کی تعداد 8-10سے زیادہ نہیں ہوتی تھی۔ شاید ایسی تقریبات ہندوستان میں بھی ہوتی ہیں مگر میری اطلاعات کے مطابق وہاں بھی ہونے والی ایسی تقریبوں میں زیادہ سے زیادہ 20-10جوڑوں کی اجتماعی شادی کرائی جاتی تھی مگر ایک ہی تقریب میں65 غریب اور نچلی ذات کے ہندوئوں کی اجتماعی شادی کی تقریب یقیناً ایک غیر معمولی واقعہ ہے جس کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ یہاں ذہن میں یہ بھی سوال اٹھتا ہے کہ آخر ہم مالی طور پر خوشحال مسلمان مل کر غریب مسلمانوں کی اجتماعی شادی کی تقریب کا اہتما م کیوں نہیں کرتے؟ برائے مہربانی مجھے یہ کہنے دیجئے کہ شاید ہم مسلمانوں میں ابھی یہ شعور پیدا نہیں ہوا۔ اب ہم میں یہ شعور کیسے پیدا ہو گا جبکہ اب ہم کرپشن اور ایسے دیگر ہتھکنڈوں سے چند سالوں میں لکھ پتی اور کروڑ پتی بننا چاہتے ہیں میرے خیال میں یہ تقریب نہ صرف سندھ کے مالدار مگر پاکستان کے دیگر علاقوں اور حتیٰ کہ ہندوستان کے لئے بھی ایک اہم پیغام ہے۔ اب دیکھیں اس پیغام کے پس منظر میں ایسی قابل تعریف تقریبات کہاں کہاں ہوتی ہیں، میں نے کیوں کہ اس تقریب میں شرکت کی لہٰذا میں اس کی تفصیلات بعد میں پیش کرتا ہوں۔ اس مرحلے پر میں چاہتاہوں کہ ایک اور ایسی غیر معمولی تقریب جس کا اہتمام بھی ہندو برادری نے کیا تھا اس کا ذکر کرتا چلوں۔ رمضان شریف کے آخری عشرے میں حیدر آباد کے تقریباً 15-10ہندو ڈاکٹروں کی طرف سے اپنے مسلمان دوستوں کے اعزاز میں شہر کے ایک کلب میں افطار پارٹی کا اہتمام کیا گیا۔ میرا خیال ہے کہ یہ بھی ایک انتہائی اہم تقریب تھی، اس تقریب میں شرکت کرنے والے ہم کچھ دوستوں نے اس تقریب کو نہ فقط سندھ بلکہ پاکستان کے دیگر علاقوں کے مسلمانوں کے لئے ایک انتہائی اہم پیغام کہا۔ میرے خیال میں ایسی تقریب سندھ بھر میں تو ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان یکجہتی پیدا کرنے کا ایک اہم ذریعہ بن سکتی ہے، اب کچھ مسلمانوں کے درمیان یہ تجویز زیر بحث ہے کہ آئندہ ہندوئوں کے دھرمی دنوں مثلاً دیوالی وغیرہ کے موقع پر مسلمان گروپوں کی طرف سے بھی ہندو دوستوں کو استقبالیہ دیاجائے اگر یہ سلسلہ چل نکلتا ہے تو اس کے سندھ بھر میں مذہبی منافرت کافی حد تک دفن ہو سکتی ہے مگر یہ خود ہندوستان کے لئے بھی ایک پیغام تصور کیا جا رہا ہے۔ اب میں اس تقریب کی تفصیلات پیش کروں گا۔ ایک سینئر صحافی جنہوں نے بھی اس تقریب میں شرکت کی اور تقریب کی تفصیلی کوریج کی اور مجھے دعوت دینے والے سیٹھ ٹیکا مل نے ہمیں بتایا کہ ہم کوئی مالی طور پر خوشحال 25-20ہندوئوں نے 5-5لاکھ روپے کا چند جمع کر کے اس شاندار تقریب کا اہتمام کیا تھا۔ یہ تقریب جمعہ 7جون 2017ء کو منعقد ہوئی۔ انہوں نے بتایا کہ ان 65ہندو جوڑوں کی شادی کا اہتمام کیا گیا ہے جو نہ صرف انتہائی غریب تھے بلکہ ان کی شادی مطلوبہ رقم نہ ہونے کی وجہ سے کافی عرصہ سے رکی ہوئی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ فقط ان جوڑوں کی شادی کرائی گئی جو شادی کی لائق عمر کے تھے اور ساتھ ہی فقط ان جوڑوں کو شادی کے لئے منتخب کیا گیا تھا جن کے پاس این آئی سی تھا۔ بقول ان کے کچھ ایسے جوڑے بھی آئے جن میں سے کسی کی عمر ابھی شادی کے لائق نہیں تھی بلکہ کم تھی اور ان کو شادی کے لئے منتخب نہیں کیا گیا جن کے پاس شناختی کارڈ نہیں تھے۔ یہ بات بھی قابل تعریف تھی کہ اس تقریب میں سینکڑوں نہیں مگر چند ہزار افراد نے شرکت کی۔ ان میں وہ لوگ تھے جو شادی کرنے والے جوڑوں کے قریبی عزیز اور پڑوسی تھے۔ وہ بھی اتنے غریب تھے کہ وہ خود یہاں نہیں پہنچ سکتے تھے۔ لہٰذا ان کے اس تقریب میں شرکت کیلئے آنے والوں کو وہاں پہنچانے کا بندوبست بھی ان چند ہندو برادری کے مالدار لوگوں نے کیا تھا۔ یہ بات بھی قابل تعریف تھی کہ جو جوڑے آرہے تھے ان کو پہلے رجسٹر کیا جاتا تھا اور ان میں ہر ایک جوڑے کو ایک کمرہ دیا جاتا تھا تاکہ وہ دولہا اور دلہن بننے اور دولہے اور دلہن کا لباس پہن لیں۔ ان جوڑوں کے لئے تقریب میں بیٹھنے کے لئے ایک خاص جگہ مخصوص کی گئی تھی ان سارے مدعوئین کو کھانا بھی اعلیٰ معیار کا فراہم کیا گیا۔ اب میں تقریب کی مزید تفصیلات پیش کر رہا ہوں جن کے مطابق ان جوڑوں کی شادیاں بھی ہندو دھرم کے تحت کرائی گئیں۔ یہ تقریب آل ہندو کائونسل کے لبرل پینل کی طرف سے منعقد کی گئی جو 25-20مالدار ہندوئوں پر مشتمل ہے شادی کرنے والے جوڑوں میں نچلی ذات کے ہندو مثلاً اوڈ، بھیل، کولہی، باگڑی اور ٹھاکر شامل تھے۔ مختلف برادریوں کے ان ہندو جوڑوں کی ہندو دھرم کی رسموں کے مطابق شادی کرائی گئی، پنڈتوں نے ان جوڑوں کو اجتماعی طور پر پھیرے دلوائے۔ آل ہندو کائونسل کی طرف سے جوڑوں کو جہیز میں سلائی مشینیں، پنکھے، ڈنر سیٹ، مصنوعی جولری، برتنوں کے سیٹ، پانی کے کولر و دیگرسامان فراہم کیا گیا۔ ان جوڑوں کا تعلق خاص طور پر گھانگھرا موری، شیخ بھرکیو، ذیل پاک کالونی حیدر آباد، کنری، مٹھی، تھر، نوابشاہ اور دیگر علاقوں سے تھا۔
اجتماعی شادی کرنے کے لئے آنے والے جوڑوں نے صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ غربت کی وجہ سے وہ شادی نہیں کر پا رہے تھے ان کے شادی کے معاملات کئی ماہ اور سالوں سے طے ہو چکے تھے۔ انہوں نے اس بات کی تعریف کی کہ ہندو بیوپاریوں نے غریب ہندوئوں پر بڑا احسان کیا ہے۔ تقریب میں لبرل پینل کے سرپرست کشنہ مچند آڈوانی، سیٹھ ٹیکا مل مسلم لیگ (ن) کے منارٹی ونگ سے تعلق رکھنے والے کیئل داس کوہستانی، ڈاکٹر شام سندر آڈوانی، جینا نند کوہستانی، نوجوان رمیش گپتا، رمیش کمار، ڈاکٹر جسومل، سینیٹر لال مالہی، جئے پرکاش و دیگر نے تقریب سے خطاب بھی کیا۔ پی پی سینیٹر کٹھومل جیون نے سندھ حکومت کی طرف سے شادی کرنے والے جوڑے کو 10-10ہزار روپے دینے کااعلان کرتے ہوئے کہا کہ پی پی حکومت نے اقلیتی کوٹہ کے تحت ہندو بھائیوں کو نوکریاں دینے کابھی فیصلہ کیا ہے۔ سندر شام نے کہا کہ ان 65 جوڑوں کی شادی کسی بھی ادارے کی مدد کی بجائے ایک دوسر ے کی مدد کرنے کے اصول کے تحت کرائی گئی ہیں۔

تازہ ترین