• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہم لوگ جو خود کو پڑھا لکھا سمجھتے تھے۔ ترقی پسند تحریک کو پنجاب، یوپی اور حیدر آباد دکن تک محدود سمجھتے تھے۔ خدا بھلا کرے ڈاکٹر شاہ محمد مری کا کہ جنھوں نے ’’لٹ خانہ‘‘ کے عنوان سے عبداللہ جمال دینی کے تاریخی کالموں کو مرتب کرتے ہوئے، ہم جیسے جاہلوں کو بتایا کہ 1935ء ہی سے دیہاتوں سے نکلنے والے نوجوان کیسے چھوٹے سے کمرے میں اکٹھے ہو کر بیٹھتے تھے۔ کوئی زمین پر سوتا تھا تو کوئی چار پائی پر اور کوئی تخت پر، بہرحال ہاتھ میں کتاب ہوتی تھی۔ روسی انقلاب کے متعلق کتابوں کے علاوہ گورکی، ٹالسٹائی کی کتابیں پڑھنے لگے کہ اس زمانے میں دو چار روپے میں کتاب مل جایا کرتی تھی۔ بلوچستان کا یہ وہ زمانہ ہے کہ وہاں اخبار نکالنا تو کجا، اخبار پڑھنا بھی گناہ تھا۔ عبداللہ جمال دینی کے بقول، عنقا صاحب، نظامانی صاحب، اسلم اچکزئی، یہ سب لوگ یوسف عزیز کے ہمراہ، کمیونسٹ تحریک کو ہوا دے رہے تھے بلکہ نوجوانوں میں کتاب پڑھنے کی عادت بھی ڈال رہے تھے۔ پڑھتے ہوئے غوث بخش بزنجو، سوبھوگیان چندانی، خیر بخش مری، ڈاکٹر خدائیداد، سائیں کمال شیرانی، یہ وہ سینئرز تھے کہ جن کے سامنے نوجوان گل خاں نصیر، نادر قمبرانی، ابراہیم جویو نے ادب کی سمت رجوع کیا۔
بقول جمالدینی صاحب، اس زمانے میں 20روپے تنخواہ پہ، یہ سب لوگ ملازم ہوئے اور 5روپے کرائے پر، ایک اڈہ بنایا، جہاں سب دوست جمع ہوکر، انگریزوں کے برصغیر سے جانے کے حوالے سے بات چیت کیا کرتے تھے۔ انگریز خان آف قلات کے ساتھ سازباز کرنے اور اپنے ماتحت رکھنے کی کوششیں کرتے رہے، جبکہ خان آف قلات نے انگریزوں کے تحفظ میں رہنے کو قابل عزت نہ جانا اور قائداعظم کے ساتھ گفت و شنید کو اول جانا۔ یہ سب نوجوان، کچھ کام بھی کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے اپنے اپنے چند روپوں کو ملاکر ایک اسٹیشنری کی دکان کھول لی کہ بیٹھنے اور کتابیں پڑھنے کے لئے نوجوانوں کو راغب کرسکیں۔ مینگل زئی قبیلہ ہو کہ عام مستری، پوسٹ مین کہ حبیب اللہ مینگل قبیلہ کہ سنجرانی بلوچ، ان کے آباو اجداد، مال مویشی کی دیکھ بھال کے علاوہ بہتر زندگی کی تلاش میں پوچھتے پاچھتے کبھی ہماری اسٹیشنری کی دکان پر کبھی لٹ خانہ پہنچ جاتے، پڑھے لکھے لوگوں سے ملنے کے شوق میں وہاں پہنچ جاتے، کتابیں پڑھنے لگتے، بحث و مباحثہ سنتے، سب لوگ مل کر صفائی ہو کہ چائے بنانی مل کر کرتے، جو کچھ روکھا، سوکھا میسر ہوتا، چائے کے ساتھ کھا کر مطمئن رہتے۔
اب تعلیم کا سلسلہ نوشکی اور ضلع چاغی تک پھیل گیا۔ گل خاں نصیر ہوں کہ عطاءاللہ مینگل کہ غوث بخش بزنجو ان سے ملنے اور باتیں کرنے کے لئے مختلف علاقوں کے لوگ، اپنے اپنے علاقے میں عملی سیاست میں آنے کے لئے پر تول رہے تھے۔ سامنے تھا کہ انگریز دوسری جنگ عظیم میں شکست کھانے کے بعد، برصغیر کو دو ملکوں کی شکل میں تقسیم کر کے، اپنے وطن واپس جاچکے تھے۔ دنیا بھر میں عوام، محنت کش اور روشن خیال لوگوں میں سویت یونین کی حمایت کا بہت چرچا تھا اور لوگوں کو یقین تھا کہ سماج کے تمام مسائل کا حل، سوشلزم ہی ہے۔ تقسیم کے بعد، انڈیا نے تو خود کو سویت روس سے وابستہ کر رکھا تھا مگر پاکستان نے امریکہ کا دم چھلا بننے پر اکتفا کیا۔ جاگیرداروں کی گرفت بڑھتی گئی۔ کمیونسٹ پارٹی بین کر دی گئی۔ تحریر و تقریر پر پابندیاں عائد ہوئیں۔ پاکستان پر فیوڈلزم، بیورو کریسی نے حکومت شروع کر دی۔ زیادہ تر آزاد خیال لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا۔ گل خاں نصیر ہوں کہ بزنجو صاحب، سب کو داخل زنداں کیا گیا۔ ایسا انقلاب سارے ملک میں آیا کہ جہالت اور پس ماندگی ہی بڑھتی گئی۔ دوسری طرف کابل ادبی مرکز بن گیا۔ پشتو ادبی ٹوانہ سے بڑی ادبی شخصیات منسلک تھیں۔ ادھر اسکندر مرزا نے خان آف قلات کے شاہی محل جس میں قائداعظم اور محترمہ فاطمہ جناح قیام پذیر رہے تھے۔ وہاں قلات کی چاروں ریاستوں، یعنی مکران، خاران، لسبیلہ اور قلات کو اسٹیٹ یونین کی شکل دے کر، خان صاحب کو اسی محل میں گرفتار کرلیا گیا۔ بعد ازاں، ایوب خان نے قبضہ کرلیا۔ قائداعظم کے جمہوری ارادوں پر پانی پھیر دیا۔
مجھ جیسا ہر شخص لٹ خانہ، پڑھنے کے بعد نہ صرف ہمارے استاد عبداللہ جمالدینی کا شکر گزار ہے، بلکہ ڈاکٹر شاہ محمد مری کا بھی کہ وہ اپنی ڈاکٹری کے علاوہ بلوچستان کے حریت پسندوں کے بارے میں ’’عشاق کے قافلے‘‘ کے عنوان سے بہت سی کتابیں لکھ چکے ہیں اور خاص کر ’’لٹ خانہ‘‘ میں ترقی پسندی سے وابستہ بیشتر اشخاص کا حوالہ بھی دیا ہے، جن کی خدمات سے ہم لوگ ناواقف تھے۔ آج بھی ہم جیسے لوگ کوئٹہ یا تربت جاتے ہیں تو تمام استاد اور نوجوان، جاگیرداری کے خلاف بولتے اور لکھتے نظر آتے ہیں۔ یہ ہمارے ملک کے سیاست دان کسی وقت بھی ریفرنڈم کروا لیں۔ تاہم لوگ جس میں نوجوانوں کے علاوہ، مجھ جیسے بزرگ بھی جاگیرداری کے خلاف ووٹ دیں گے۔ مگر وہ کیوں کریں گے۔ وہ تو ٹکٹ دیتے ہوئے، پارٹی فنڈز کے لئے لاکھوں مانگتے ہیں۔ امیدوار کروڑوں خرچ کرتا ہے۔ وہ تو صرف بھٹو صاحب کے دن تھے کہ غریب امیدوار بھی زیادہ سے زیادہ ووٹ حاصل کرلیتے تھے۔ نہ اب ایسی کوئی پارٹی رہی اور نہ اب ایسے لیڈر۔ یہ بھی سوچ میرے اندر سے نکل نہیں رہی کہ بلوچستان میں بھی ڈاکٹر مالک کے علاوہ اور کوئی لیڈر نہیں جو فیض صاحب یا مظہر علی خان جیسے دانشوروں کے ملک کی باگ ڈور سنبھال سکے۔

تازہ ترین