• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ناممکن کا لفظ لغت سے مٹا دینا چاہئے کیونکہ کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ دنیا میں ناممکن کوئی کام نہیں ہے۔ پاناما جے آئی ٹی نے کچھ ایسا ہی کیا جب اس نے ’’ناممکن ‘‘کو ممکن بنا دیا۔اس نے سپریم کورٹ کی طرف سے دیئے ہوئے 60دنوں کی مدت کے اندر وزیراعظم نوازشریف اور ان کی فیملی کے بزنس کے بارے میں رپورٹ تیار کر کے عدالت عظمیٰ میں پیش کردی۔ اس نے کئی سوالات کھڑے کر دیئے ہیں۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ٹیم کے 6ممبران کی کپیسٹی اور مہارت تھی کہ وہ 10جلدوں پر مشتمل اتنی ضخیم رپورٹ اتنے تھوڑے عرصے میں تیار کرلیتے ؟بظاہر جواب نفی میں ہے۔ 60دن تو 275صفحات جن پر صرف ایک جلد مشتمل ہے لکھنے میں ہی لگ سکتے ہیں۔ یقیناً یہ لکھتے ہوئے بڑی احتیاط سے کام لینا تھا کیونکہ اس کی عدالت میں اسکروٹنی ہونی ہے اور شریف فیملی کو اس کو بغور پڑھ کر اس پر اعتراضات اٹھانے ہیں۔ مزید یہ کہ وکلاء اور عام لوگوں کو بھی اس رپورٹ کا تنقیدی جائزہ لینا ہے۔باقی 9 جلدوں کا تیار کرنا اور اس میں شامل کئے جانے والے مواد کو اکٹھا کرنے کے لئے بھی کافی وقت درکار تھا۔سب کو معلوم ہے کہ کمیٹی نے درجنوں گواہوں کے بیانات بار بار قلمبند کئے جو کہ سینکڑوں گھنٹوں پر محیط تھے۔ ایسے انٹرویوز کی تیاری کے لئے بھی بہت وقت چاہئے تھا۔ اس کے علاوہ دوسرے ممالک کے ساتھ خط و کتابت بھی کی گئی۔ جے آئی ٹی نے بہت سے محکموں بشمول نیب،ایس ای سی پی، ایف بی آر، ا سٹیٹ بینک، ایف آئی اے بہت سے پاکستانی بینک اور دوسرے اداروں سے معلومات کے حصول کے لئے خط و کتابت کی۔مزید یہ کہ ان 2مہینوں میں جے آئی ٹی نے 3عبوری رپورٹیں بھی عدالت میں پیش کیں، مختلف محکموں کے خلاف الزامات سے بھر پور شکایات سے بھری درخواست بھی عدالت میں پیش کی اور حسین نواز کی تفتیشی کمرے سے فوٹو لیک کی تحقیقات کی اور اس کی رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی۔ان تمام حقائق اور ایکشنز کو سامنے رکھ کر ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ جے آئی ٹی کی پہاڑ نما اتنی بڑی رپورٹ 60دن میں تیار کرنا قطعی طور پر ممکن نہیں تھا۔ جب ایسا نہیں تھا تو پھر ان 6ممبران نے یہ معجزہ کیسے کر دکھایا ؟آثار یہی بتاتے ہیں کہ مختلف اداروں نے اس رپورٹ کی تیاری کے لئے مواد اکٹھا کرنے کا کام بہت عرصہ پہلے شروع کر دیا تھا اور جو اس میں ’’گیپس ‘‘ تھے ان کو ان 60دنوں میں پر کر لیا گیا۔جے آئی ٹی میں شامل کچھ اداروں جن کے نمائندے اس میں موجود تھے نے بہت پہلے ہی وزیراعظم کے خلاف یہ مواد اکٹھا کیا ہوا تھا۔شاید ہی کوئی کمیشن، جے آئی ٹی یا پولیس کی ٹیم ہو جس نے کبھی متعلقہ اداروں سے اپنی تفتیش مکمل کرنے کے لئے مزید وقت نہ مانگا ہو مگر پاناما جے آئی ٹی ایک ایسی کمیٹی تھی جس نے اس طرح کی کوئی درخواست عدالت سے نہیں کی۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ اس کے پاس بہت سا مواد پہلے ہی ’’ریڈی میڈ‘‘ دستیاب تھا۔
اس رپورٹ پر فیصلہ تو عدالت ِ عظمیٰ کا 3رکنی بینچ کرے گا مگر جو زبان اس میں استعمال کی گئی ہے اگر اس پر غور کریں تو شک ہوتا ہے کہ یہ ایک منصوبے کے تحت لکھی گئی ہے جس کا مقصد صرف اور صرف وزیراعظم کو ٹارگٹ کرنا اور ساتھ ساتھ ان کی توہین کرنا بھی تھا جبکہ جو بھی گواہان اس کے سامنے پیش ہوئے ان میں سے اکثر کے بارے میں توہین آمیز الفاظ استعمال کئے گئے ہیں یہاں تک کہ وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو بھی نہیں چھوڑا گیا۔ اس رپورٹ کا ایک ہی مقصد ہے کہ ہر حربہ استعمال کیا جائے تاکہ وزیراعظم سے جان چھوٹ سکے یعنی مائنس نوازشریف کے فارمولے پر عملدرآمد کیا جاسکے۔ ان سفارشات کا اصل مدعا یہ ہے کہ ہر صورت نوازشریف کو کسی عدالت سے سزا دلوائی جائے۔ ہر جگہ اس میں قابل توہین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں اور ایسی تجاویز دی گئیں ہیں جس سے نوازشریف عدالتی معاملات میں الجھ کر رہ جائیں اور مجبور ہوکر وہ اپنے عہدے سے مستعفی ہوجائیں۔ اس رپورٹ میں پرویز مشرف کا ایجنڈا جو انہوں نے اپنے دور اقتدار میں تیار کیا تھا بھی شامل کیا گیا ہے۔ ایک درجن سے زائد کیسز جو انہوں نے نوازشریف اور ان کی فیملی کے دوسرے ممبران کے خلاف بنائے تھے کے بارے میں کہا گیا ہے کہ ان کو ری اوپن کیا جائے۔ ان میں سے بہت سے مقدمات میں عدالتیں فیصلہ کر چکی ہیں اور یہ قصہ پارینہ ہو چکے ہیں مگر جے آئی ٹی چاہتی ہے کہ ان مردوں میں دوبارہ جان ڈال دی جائے۔ اگر ایسا ہو گیا تو پھر جب چاہیں کسی سیاست دان کے خلاف بھی دہائیوں پرانے مقدمات جن میں فیصلے ہو چکے ہیں یا دوسری وجوہات کی بنا پر بند ہو چکے ہیں کھولنے کا جواز مہیا ہو جائے گا صرف اس وجہ سے کہ یہ چہرہ پسند نہیں ہے اور اسے اس کی پالیسیوں کی وجہ سے سبق سکھانا ہے۔ ان کیسوں کے بارے میں ایسی سفارشات اور رپورٹ کے دوسرے حصوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ نوازشریف کے دوسرے ’’جرائم‘‘ کے علاوہ پرویز مشرف کے بارے میں ان کی پالیسی ہے۔ اگر اس طرح عدالت کے ذریعے نوازشریف کو نکالا گیا تو پھر آئندہ کوئی بھی وزیراعظم اس طرح کے طریقے سے محفوظ نہیں ہو گا اور ایک نیا سلسلہ شروع ہو جائے گا۔
اس وقت مختلف حربوں سے دبائو ڈالا جارہا ہے کہ نوازشریف اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں مگر وہ اور ان کی پارٹی حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہیں۔ ن لیگ کا جے آئی ٹی رپورٹ کو عمران نامہ کہنا نامناسب نہیں لگتا کیونکہ جو بھی الزامات، دعوے اور گپ شپ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان گزشتہ عام انتخابات کے بعد کرتے رہے ہیں وہ سب کے سب ان سفارشات میں شامل ہیں جس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کی ساری کمپین بھی اسی ایجنڈے کا حصہ تھی جس کی نشان دہی جے آئی ٹی کی رپورٹ میں ہوتی ہے۔ ہمارے نامی گرامی صحافی محمد احمد نورانی کے تازہ تحقیقاتی ماسٹر پیس نے جے آئی ٹی کی تمام سفارشات جن کی بنیاد 4’’بڑے انکشافات‘‘ پر ہے کو غلط ثابت کر دیا ہے جن میں ایک میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ مریم نواز بینیفشل مالک ثابت ہوگئی ہیں، نوازشریف کی ایک آف شور کمپنی مل گئی ہے اور گلف ا سٹیل کے بارے میں یو اے ای گورنمنٹ نے حکومت کے دعوے غلط ثابت کردیئے ہیں۔ اسی دوران جب جے آئی ٹی کی رپورٹ عدالت عظمیٰ میں پیش ہونے کے بعد سیاسی شور و غوغا عروج پر ہے تو سینئر سیاستدان جاوید ہاشمی بھی میدان میں کود پڑے اور کھری کھری باتیں کیں۔ ان کا بجا طور پر کہنا تھا کہ احتساب تو صرف سیاستدانوں کا ہوتا ہے، جب بھی قربانی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ صرف سیاستدان ہی دیتے ہیں، پرویز مشرف بھگوڑا تھا اور بھگوڑا ہے، کوئی جج، جرنیل اور سیاستدان صادق اور امین نہیں ہے اور صادق اور امین صرف حضرت محمدﷺ ہیں، جس جج کا نام پاناما میں آیا ہے اس کا نام کیوں نہیں لیا جاتا اور گاڈ فادر اور مافیا کہہ کر فیصلہ دے دیا گیا ہے۔ ان کایہ بھی کہنا تھاکہ نیا بینچ بنایا جائے۔ تاہم اسی موجودہ3رکنی بینچ نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ وہ جے آئی ٹی رپورٹ پر کارروائی کرے گا اور جو بھی مناسب ہو گا حکم جاری کرے گا۔ اگر شریف فیملی چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کو نیا بینچ بنانے کی درخواست دیتی ہے تو پھر وہ اس پر فیصلہ کریں گے۔جو تماشا جاری ہے وہ سب پاکستان، جمہوریت، سیاستدانوں اور سیاست کی تباہی کے لئے ہے اور آج جو اس رپورٹ پر بغلیں بجا رہے ہیں کل جب اس طرح کا سلوک ان سے ہو گا تو پھر روئیں گے۔

تازہ ترین