• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریمتی گرجا دیوی 1929میں گنگا کے کنارے بنارس میں پیدا ہوئیں۔ کلا کی سہائتا میں سات دہائیاں بیت گئیں۔ بنارس گھرانے کی ٹھمری کو اپنا مقام دلانے میں گرجا دیوی نے وہی کام دکھایا جو استاد بسم اللہ خان مرحوم نے شہنائی کی سیوا میں کیا۔ یہ فنکار بنارس کے رتن تھے۔ وہی بنارس جسے آزادی کے نام پر ملنے والی زورآوری کی دھونس میں اب واراناسی کہنے لگے ہیں۔ ظالم لائل پور کو فیصل آباد اور بنارس کو واراناسی کہتے ہیں۔ یہ نہیں سوچتے کہ صبح بنارس، کاشی دوار اور گنگا کی موج پر پوسٹ کولونئیل رنگ و روغن چڑھانے سے ایک تہذیب کا ستیاناس ہو جائے گا۔ سنا ہے اب قذافی اسٹیڈیم کے دروازے پر عرب بہار کی پنیری لگانے کے منصوبے بن رہے ہیں۔ ایسی بھی کیا جلدی ہے۔ مہاراج کچھ دھیرج کریں۔ معدنی تیل کے سونے کا پانی اتر لے، برقی توانائی سے چلنے والی موٹر گاڑیاں چلن پکڑ لیں تو ایک ہی دفعہ میں رحیم یار خان کی شکار گاہوں اور بھگت سنگھ کے لائل پور کی بازیافت ہو جائے گی۔ صحرا نمائے عرب کی ریت میں دو نسلوں کا جو پسینہ جذب ہو گیا وہ تو اب واپس نہیں ملنے کا۔ ایک گیت ریشماں بی بی اور پرویز مہدی کا گایا ہوا، "میں جانا پردیس" باقی رہ جائے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ دبئی چلو نامی فلم کا ری میک "آ جاؤ افریقہ" کے ٹائٹل سے سینما اسکرین پر نظر آئے مگر صاحبان اس تن و توش کی ہیروئن کہاں سے ڈھونڈی جائے گی جو اسی کی دہائی میں ایک ہی بارش زدہ جھلک سے پوری اسکرین کو نہال کر دیتی تھی۔ واللہ کالم نویسی نہ ہوئی، میر باقر علی کی داستان گوئی ٹھہری۔ بات گرجا دیوی سے چلی تھی اور لحمیاتی کوہستانوں تک جا پہنچی۔ خدا خیر کرے، بی جے پی کی حکومت ہے۔ بھارت ورش پر پانڈے جی کا راج ہے۔ گاؤ رکھشا کے دن ہیں۔ خیر اسی میں ہے کہ واپس گرجا دیوی کے دوار سیس نوائیں۔
اٹھاسی برس کی گرجا دیوی سرسوتی ماتا جیسا سمپورن روپ لئے اسٹیج پر نمودار ہوتی ہیں تو نہایت عاجزی سے پوچھتی ہیں، آپ لوگ کیا سننا چاہیں گے جو میں گاؤں، ٹھمری، کجری، دادرا، ٹپا، چیٹی یا پھر ہوری…؟ ایسی مہان کلاکار اور ایسی نمرتا جیسے سبزی والا ٹھیلے پر رکھی نعمتیں گنوا رہا ہو۔ ہنر تو لکھنے والوں کا بھی کچھ مختلف نہیں لیکن ایسا ہے کہ ہماری زمیں پر انکسار کم ہوتا جا رہا ہے۔ قدیم مخطوطوں میں آیا ہے کہ زمیں پر عجز کم ہو جائے اور رعونت پھیل جائے تو ڈرنا چاہیے کہ یہ قحط الرجال، علم کے زوال اور فراست کی کمی کی نشانیاں ہیں۔ بدقسمتی سے ان دنوں ہمارے ہاں خوفزدہ ہونے کے اسباب بہت زیادہ ہو گئے ہیں۔ اب ابن انشا تو رہے نہیں کہ جن کا خط ہوائی ڈاک سے آتا تھا، اب تو دھات کے مختصر سے ڈبے پر دن بھر مراسلت کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ کچھ سچ، زیادہ قیاس آرائی اور اس سے بھی کچھ زیادہ آرزو کی حنا بندی۔ اور پھر شام کا گجر بجتے ہی وسیع حلقوم، بلند آہنگ اور بے درنگ زبان کے قتلے کرنے والے تجزیہ کاروں کا ایک ٹڈی دل شہر پر اتر آتا ہے۔ نامعلوم یہ معززین ٹیلی وژن تک یوں ارزاں رسائی سے پہلے کے زمانے میں کیا کرتے تھے۔ گفتگو سے تو کم ہی اشارہ ملتا ہے کہ کسی مفید شغل سے واسطہ رہا ہو گا۔ حالی کو شکوہ تھا کہ ان کی دکان پر رکھے نایاب مال سے اکثر گاہک بے خبر ہیں، یہاں حالات کی صورت کچھ مختلف پائی جاتی ہے۔ ایک تو یہ کہ مال نایاب نہیں، پامال ہے۔ یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا۔ اور دوسرے یہ کہ گاہک اب کچھ ایسے بے خبر بھی نہیں ہیں۔ اگر یہ قصہ محض مالی بے ضابطگی، بدعنوانی اور خورد برد کا ہوتا تو اصولی طور پر پوری قوم میں دیانت اور شفافیت کی سطح بہت بلند ہونی چاہئے تھی۔ کچھ اشارے لے لیجیے، ٹیکس دینے سے ہمیں گریز ہے، بجلی کے حصول کے لئے ہم نے غیر قانونی کنڈی ڈالنے کا فن لطیف دریافت کیا ہے، سڑک پر ٹریفک کے قانون کی پاسداری کو ہم اپنی شان سے فروتر سمجھتے ہیں۔ ہماری کاروباری دیانت تار عنکبوت سے آویزاں ہے۔ سیدھا نتیجہ یہ ہے کہ کسی زید، عمر، بکر کی مفروضہ بددیانتی پر یوں رگیں پھلا کر لام کاف کرنا انہیں زیب دیتا ہے جن کا عمومی شعار دیانت داری ہو۔ اس سے یہ مفہوم نکالنا درست نہیں ہو گا کہ ہم بدعنوانی کی عذر خواہی کر رہے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ یہ قتلام کا میلہ پانامہ یا کرپشن سے شروع نہیں ہوا۔ یہ ایک زرعی جھگڑا تھا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ فرقہ وارانہ عداوت کا رخ اختیار کر گیا ہے۔ ایک فریق کمزور ہے مگر تعداد میں زیادہ ہے۔ دوسرا فریق تعداد میں کم ہے مگر طاقت، رسوخ، روایت اور حسب نسب کے بوسیدہ شجروں کے بل پر زور آزمائی کرنا چاہتا ہے۔
کوئی پچاس برس پہلے بننے والی ایلزبتھ ٹیلر کی معروف فلم "Who is afraid of Virginia wolf?" کے ایک منظر میں جہاندیدہ ساس میاں بیوی کے جھگڑے کو سمجھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اور اپنے تجربے کی روشنی میں خواب گاہ کے بستر پر زور سے ہاتھ مار کے کہتی ہے، میاں بیوی میں اختلاف کی جڑیں بستر میں ہوتی ہیں۔ علم مسہری پر عبور کا دعویٰ تو خیر ہم نہیں کر سکتے لیکن یہ جانتے ہیں کہ صرف کرپشن کا کاف ہی نہیں، ہماری گردن میں کشمیر اور کابل کے دو اضافی کاف بھی آویزاں ہیں۔ اگر معاملہ صرف بدعنوانی کا ہے تو یوں لپک جھپک پارٹیاں تبدیل کرنے والے کس باکرہ گائے کے دودھ میں دھلے ہیں۔ جاوید ہاشمی نے یہ تو کہہ دیا کہ باسٹھ تریسٹھ کی کسوٹی پر کوئی پورا نہیں اترتا، کیا اچھا ہوتا اگر وہ یہ بھی فرما دیتے کہ آئین کی دفعات باسٹھ تریسٹھ اکیسویں صدی میں نظریہ ضرورت کی نئی شکل ہیں۔ دس برس تک جو کام آئین کی شق اٹھاون ٹو بی سے لیا گیا، اب اس کے لئے عدلیہ کے دروازے پر کمپا لگایا جاتا ہے۔ کاش ان سطور میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ محض لکھنے والے کا اختلال ذہنی ہو، مگر دقت یہ ہے کہ اس کھیل کے سب منظر اتنی مرتبہ دیکھے جا چکے ہیں کہ اب تو نوٹنکی کے اداکار کی خلعت ریشمی پر لگے پیوند بھی شمار ہو چکے ہیں۔ تماشہ گاہ کے باہر تختوں پر ہلکان ہوتی مجمع باز مخلوق کا بہتا ہوا پسینہ ایڑھیوں تک آن پہنچا ہے۔ مختصر یہ کہ یہ بساط نیک نیتی سے نہیں بچھائی گئی، اس کا مقصد قوم کی بیل گاڑی کو جانی پہچانی پگڈنڈی پر اتارنا ہے۔ ملک کے اندر انتشار پیدا کرنے کی صلاحیت رکھنے والی قوتیں ماضی کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہیں۔ معیشت اور پیداوار کا کوئی سنجیدہ ہدف کسی کے پیش نظر نہیں۔ بیرونی دنیا کبھی ہم سے خائف تھی، اب ہمیں نظرانداز کرنے پر کمر بستہ ہے۔ اگر ہم محض روایت پارینہ اور علت دیرینہ کی پاس داری میں قوم کی دستار سے فٹ بال کھیلنا چاہتے ہیں تو یہ محض کوتاہ بینی ہی نہیں، اندھیری رات میں اجنبی گلی میں گھس کر پرچھائیوں سے پولیس مقابلہ کرنے کی کوشش ہو گی۔ اس طرح کے مقابلے شاہراہ دستور پر کیے جائیں تو مرنے والوں کے پیروں میں بیڑیاں نہیں ہوتیں۔ برسات کے دن ہیں، میگھ دوت کا موسم ہے، آم کی شاخوں میں جھولا ڈالنے کی رت ہے۔ ہم عجب قسمت کے ہیٹے ہیں کہ پھانسی گھاٹ کا میلہ سجانے کی فکر میں ہیں۔

تازہ ترین