• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی دن ہوئے شانتی دیوی کی ای میل پاناما کے تناظر میں تھی۔ میرا خیال تھا کہ پاناما کا معاملہ کافی عرصہ تک ملکی سیاست کو خلفشار سے دوچار رکھے گا۔ مگر اعلیٰ عدالت نے جے آئی ٹی بنا کر معاملہ فہمی کا سوچا اور فریقین اس پر راضی ہوگئے اور جب جی آئی ٹی نے 60دن کی محنت اور مشقت کے بعد اپنی رپورٹ سپریم کورٹ کو جمع کروا دی اور اس کے بعد ہمارے تمام سیاست دان عوام کے درمیان آگئے۔
پاناما کا معاملہ ایک غیر سیاسی معاملہ تھا۔ ابتدائی طور پر وزیراعظم پاکستان میاں نواز شریف کا اس سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا۔ پہلی ابتدائی تحقیق کے لئے قومی اسمبلی کے ممبران کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ یہ معاملہ وزیراعظم کے کنبہ کےحوالہ سے ذاتی سا لگتا تھا، پھر جمہوریت کے علمبردار، اشرافیہ کے نمائندے، سپریم کورٹ سے فیصلہ کروانے پر راضی بھی ہوگئے۔ سابق چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کے زمانہ میں عدالت لگی۔ مگر فریقین کے عدم اعتماد کی وجہ سے وہ فیصلہ کے سلسلہ میں معذور ہی رہے اور انہوں نے یہ معاملہ آنے والے چیف کی مرضی اور منشا پر چھوڑ دیا۔
آج جب ہمارے سیاست دان اپنے گندے کپڑے عوام کے سامنے دھونے پر لگے ہوئے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے یہ سب کچھ سرعام کیوں کیا جارہا ہے۔ کافی دن پہلے کی بات ہے میں اور میرے مہربان سید انور قدوائی مرحوم ، مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ سید صاحب اتنی جلدی پردہ فرماجائیں گے مگر حکم ربی تھا، وہ چلے گئے اور ہم راستے میں ہیں۔
میں اور سید انور قدوائی سید سرفراز شاہ کے حوالے سے کتاب کے سلسلہ میں شاہ صاحب سے ملنے کے لئے گئے۔ اس وقت بھی میاں نواز شریف وزیراعظم پاکستان سیاسی مشکلات کا شکارتھے۔ کپتان عمران خان کا دھرنا عروج پرتھا۔ سید سرفراز شاہ صاحب کا کہنا تھا معاملہ فہمی کرنے والے میاں نواز شریف کے مشیر قوتِ فیصلہ سے محروم لگ رہے ہیں۔ ہم نے کتاب کے مندرجات پر بات کی اور اجازت لی۔ میں نے سیدانور قدوائی سے کہا آپ ایک عرصہ تک میاں نواز شریف اور خادم اعلیٰ کے بہت ہی قریب رہے ہیں، آپ اپنا کردار ادا کریں۔ سید انور قدوائی نے سرفراز شاہ صاحب کی طرف دیکھا اور کہنے لگے۔ میں نے وزیراعظم کے دفتر کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پہلی فرصت میں داتا دربار جائیں مگر وہ لگتا ہے کہ ابھی بہت مصروف ہیں۔ سرفراز شاہ صاحب خاموش رہے۔
عمران خان کا دھرنا بہت دن چلا۔ پھر دھرنا ناکام تو نہیں ہوا مگر معاملہ ٹل گیا۔ آج جب ایک دفعہ پھر ہماری سیاست خلفشار کا شکار ہے میری ملاقات ڈاکٹر نور اعوان سے ہوئی جو داتا دربار کے معاملات کے آفیسر خاص ہیں۔ ان سے پوچھا کیا میاں نواز شریف نے حالیہ دنوں میں داتا دربار حاضری دی۔ پہلے تو ڈاکٹر نور اعوان خاموش رہے۔پھر کہنے لگے۔ ہاں میاں نواز شریف بہت دنوں سےنہیں آئے مگر ان کو آنا چاہئے تھا۔ پھر ہماری گفتگو روحانی معاملات اور کشف کے حوالہ سے ہونے لگی۔ پھر انہوں نے عجیب بات بتائی۔ جب فرنگی نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا اور تحریک پاکستان چل رہی تھی تو دو بڑے روحانی بزرگ بھی اس معاملہ میں تقسیم تھے۔ دہلی کے خواجہ تقسیم پر راضی نہ تھےمگر گنج بخش پاکستان کے وجود پر راضی تھے اور رب نے مسلمانوں کو اپنا وطن بنانے کا موقع دیا۔
اب کیسا وقت آگیا ہے۔ ساری دنیا میں ہماری جے آئی ٹی کی دھوم ہے۔ ہماری پرانی ہمدم شانتی دیوی تک پریشان ہے۔ جب ابتدا میں پاناما لیکس کا ذکر ہوا اور پاکستان میں بھی دھوم مچی، ہماری اسمبلی اور جمہوریت جوش میں آئی۔ راز و نیاز ہوئے ، عوام حیران تھے اور حیران ہیں کہ جمہوریت بہترین انتقام ہے مگر یہ انتقام کس سے لیا جارہا ہے؟ میاںصاحب آپ کو لڑنے کے لئے عدالت میں جانےکی ضرورت تہیں بلکہ عدالت میں آپ وکیلوں کے علاوہ اپنے متوالوں کوپیش کریں۔ آپ کو اس وقت عوام میں آنے کی ضرورت ہے۔ ترقی کے سفر میں چین آپ کی مدد کر رہا ہے وہ بھی ان حالات میں یکسوئی سے کام نہیں کرسکتے۔
میاں صاحب آپ جے آئی ٹی کے آسیب سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ہمارے ہاں کس کا دامن صاف ہے؟ اس جنگ میں کسی کو کچھ ملنے کا نہیں اور آپ جن پر بھروسہ کرنےکا سوچ رہے ہیں وہ بھی قابل اعتبار نہیں۔ پاکستان کےوزیراعظم سے زیادہ اہم مسلم لیگ کی لیڈری ہے۔ آپ کی خاموشی عوام کو مایوس کر رہی ہے۔ آپ وزیراعظم کا عہدہ اپنے لئے لازم نہ خیال کریں۔ اگر آپ کو جمہور اور جمہوریت پر یقین ہے تو یہ وقت قربانی کا ہے صرف من کی آواز کو فوقیت دیں۔ آئے دن آپ کا کوئی متوالا آپ کے لئے بزرگوں کی دعائوں کا ٹوکرا، نظربد کا تعویذ کسی نامعلوم بزرگ کا وظیفہ بیان کرنے میں آپ کے اسٹاف کو پریشان کرتا رہتا ہے۔ سب سے پہلے آپ اپنے مہربانوں کو حکم جاری کریں کہ وہ وزیراعظم پاکستان کے حوالے سے کوئی سیاسی اور سماجی بیان جاری نہیں کریں گے۔ آپ اپنا دفاع صرف اورصرف خاموشی سے کریں۔ عدالت کا کوئی فیصلہ آپ کو متاثر کرتا بھی ہے توقبول کریں۔ آپ کے ترقی کے سفر کے لئے جمہوریت کا پرچارضروری نہیں۔ جمہور کو ترقی کے لئے اصول اور قانون کی ضرورت ہے۔
آپ نے مفت میں ہمارے سابقہ صدر آصف علی زرداری کو ناراض کردیا ہے۔ زرداری صاحب نے بھی بابوں سے بڑا لگائو لگایا مگر اب کی بار تمام بابے بے کار ہوگئے۔ جناب وزیراعظم آپ کے پاس آخری موقع ہے اپنی صفائی دینے کا اور دوسروں کو معاف کرنے کا۔ آپ سب کو معاف کریں اور اپنا معاملہ اپنے رب پر چھوڑ دیں۔ جو کچھ آپ کے ارد گرد ہے وہ صاحب ِ کلام شاعر صادق نسیم نے کچھ ایسے لکھا تھا؎
کیسا یہ گھر ہے جس کے مکینوں کا ہر نفس
دھڑکا سا ایک لرزش دیوار و در کار ہے
کیسا یہ آسمان ہے کہ جس کی فضائوں میں
اک خوف سا شکستگی بال و پر ہے
حاوی ہیں بلند صدائیں دلیل پر
صادق ہمارا دور عجب شورش کا ہے
وقت کم ہے مسند چھوڑیں، من کی مانیں

تازہ ترین