• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی ایوان نمائندگان میں جمعہ کو آئندہ مالی سال کے لیے کثرت رائے سے منظور کیے گئے 696 ارب ڈالر کی خطیر رقم کے دفاعی پالیسی بل میںپاکستان کی امداد پر پابندیوں میںا ضافے کی تجویز پیش کی گئی ہے جبکہ اس سے ایک روز پہلے کانگریس کے ایک پینل نے بھی اسٹیٹ اینڈ فارن آپریشنز کے نام سے منظور کیے گئے ایک بل میں پاکستان کی سول اور ملٹری امداد پر پابندیاں سخت کیے جانے کی تجویز دی ہے۔ پینل کی جانب سے یہ بل ایوان میں ووٹنگ کے لیے بھیج دیا گیا ہے۔ان بلوں میں پاکستان کی امداد کو افغانستان میں امریکی اور مقامی افواج سے برسرپیکار حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے مختلف گروپوں کے خلاف کارروائی سے مشروط کیا گیا ہے ۔ مزید افسوسناک بات یہ ہے کہ اس فہرست میں بھارتی مقبوضہ کشمیر میں حق خود ارادی کے لیے جدوجہد کرنے والی کئی تنظیموں کے نام بھی شامل ہیں ۔اس سے واضح ہے کہ کشمیر کے بارے میں بھی امریکہ کی پالیسی بدل رہی ہے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں کے برعکس موجودہ امریکی انتظامیہ اب کشمیریوں کی جدوجہد کو بھارت کی بولی بولتے ہوئے دہشت گردی قرار دینے پر تلی ہوئی ہے۔ یہ صورتحال اگرچہ ان شاروں کے عین مطابق ہے جن کا اظہار ٹرمپ انتظامیہ اپنی آمد کے بعد ہی سے کرتی چلی آرہی ہے اور جس کا ایک بھرپور مظاہرہ گزشتہ دنوں پاکستان اور افغانستان کا دورہ کرنے والے امریکی سینیٹروں کے وفد کے سربراہ اور امریکی سینیٹ کی مسلح افواج کمیٹی کے چیئرمین جان مک کین نے اسلام آباد سے کابل پہنچ کر ان الفاظ میں کیا تھا کہ پاکستان نے حقانی نیٹ ورک اور طالبان کے خلاف مطلوبہ کارروائی نہ کی تو امریکہ کو بحیثیت قوم پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی پڑے گی۔تاہم پاکستانی قوم کیلئے یہ امر بجاطور پر باعث تشویش ہے کہ ملک میں جاری سیاسی افراتفری کے سبب ذمہ داران حکومت اور سیاسی جماعتوں کے قائدین پاکستان کے ساتھ امریکی رویئے میں تبدیلی اور ملک کو درپیش دیگر سنگین چیلنجوں سے بظاہر مکمل طور پر لاتعلق نظرآتے ہیں۔ وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کی ساری توجہ اپنے منصب اور حکومت کو بچانے پر صرف ہورہی ہے جبکہ اپوزیشن کی ساری توانائیاں وزیر اعظم کو منصب سے ہٹانے کیلئے وقف ہیں۔تمام فریقوں کی جانب سے تندو تیز بیانات کی جنگ جاری ہے جس سے سیاسی قیادت ہی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کے درمیان بھی شدید اختلافات اور تفریق کا تاثر ابھرتا ہے۔حالانکہ بدلتی امریکی پالیسی کے سبب پاکستان کیلئے بھارت اور افغانستان دونوں کی جانب سے خطرات بڑھ رہے ہیں۔ بھارتی قیادت کشمیر کے مسئلے سے نمٹنے کیلئے پاکستان کو جنگ میں الجھانے کی منصوبہ بندی کرتی نظر آرہی ہے اور اس مقصد کیلئے امریکہ ہی نہیں اسرائیل تک کا بھرپور تعاون حاصل کرنے کیلئے ہر ممکن اقدام کررہی ہے جبکہ پاکستان میں وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف پاناما لیکس کے حوالے سے جاری عدالتی عمل کے دوران سیاسی طاقتوں کی شدید محاذ آرائی نے ملک میں سیاسی عدم استحکام کا خطرہ پیدا کردیا ہے ، اس کے نہایت منفی اثرات قومی معیشت پر بھی مرتب ہورہے ہیں اور طویل مدت کے بعد معاشی بحالی کا جو عمل شروع ہوا تھا وہ ترقی معکوس میں بدلتا دکھائی دے رہا ہے۔ اس صورت حال میں قومی مفادکاتقاضا ہے کہ حکومت اور اپوزیشن سمیت ملک کی پوری سیاسی قیادت عدالت کا کام عدالت پر چھوڑ کر ملک کو درپیش سنگین تر ہوتے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے سرجوڑ کر بیٹھے اور عسکری قیادت کے تعاون اور مشاورت سے مسائل کا حل تلاش کرے۔ امریکہ افغانستان میں طالبان کو شکست دینے کیلئے اگرچہ پاکستان سے کارروائی کا طالب ہے لیکن ٹرمپ انتظامیہ کے اعلانات کے مطابق قیام امن کیلئے اس کے نزدیک آج بھی مذاکرات ہی آخری چارہ کار ہیں۔لہٰذا وائٹ ہاؤس افغانستان میں بہرصورت پاکستان کے تعاون کا ضرورت مند ہے اور پاکستان کیلئے آج بھی اس صورت حال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کے مواقع برقرار ہیں۔ لیکن اس کیلئے پاکستان کے سیاسی قائدین کا وقتی ذاتی اور جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکرقومی مفادات کو ترجیح دینا ضروری ہے۔

تازہ ترین