• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میری تو دعا ہے یہ اقتدار سے چپکے چمٹے رہیں لیکن ان سب کی گردنوں میں اتنے ڈھول لٹکا دیئے گئے ہیں کہ بجائے نہ بجیں گے۔محاورہ یہ ہے کہ گلے پڑا ڈھول بجانا پڑتا ہے لیکن بڑے سے بڑا فنکار بھی ایک وقت میں ایک ہی ڈھول بجا سکتا ہے جبکہ ان کی گردنوں میں تو ڈھولوں کے ہار لٹک رہے ہیں۔مجھے اس سے دلچسپی نہیں کہ ان کے ساتھ کیا ہورہا ہے اور کیا کچھ ہونےجارہا ہے۔ میں تو مسلسل یہ سوچ رہا ہوں کہ جب یہ سب کچھ قصۂ پارینہ ہو جائے گا تو ان کی زندگیاں کیسی ہوں گی؟ یہ اس دھرتی پہ کہاں اور کیسے حال زندہ ہوں گے؟ ان کے ایک بھونپونے سر عام اس ملک کےمعزز ترین لوگوں کو دھمکی دی تھی کہ ان پر اور ان کے بچوں پر پاکستان کی زمین تنگ کردی جائے گی لیکن کہانی تو کسی اور طرف جارہی ہے۔لندن میں ان پر آوازے کسے گئے، خانہ ٔ خدا میں بھی پاکستانیوں نے نفرت و حقارت کا اظہار کیا تو کل کلاں جب یہ ہر حوالہ سے اگر بالکل ’’فارغ‘‘ ہو جائیں گے تو اپنی تمام تر دولت کے باوجود گھروں سے باہر کیسے نکلیں گے اور اگر نکلیں گے تو بیرون ملک پاکستانی ان کے ساتھ سلوک کیسا کریں گے کہ پہلے تو صرف نواز شریف مشہور تھا، پاناما نے سار ےخاندان کی ’’شہرت‘‘ کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔ بچہ بچہ ماشا ء اللہ ’’سپرسٹار‘‘ ہونےکے سبب دور سے پہچانا جاتا ہے۔ دنیا میں جہاںجائیں گے ان کے پرستار انہیں ہاتھوں ہاتھ لیں گے۔ پرابلم یہ ہے کہ ایسے ہی ’’دیانتداروں‘‘ اور ’’پرہیزگاروں‘‘ کی وجہ سے بے شمار پاکستانی دنیا بھر میں حصول رزق کے لئے مارے مارے پھرتے ہیں۔ یہ پردیسی جب ان پاناما فیم پارسائوں کو دیکھیں گے تو انہیں کیسا کیسا ’’خراج تحسین‘‘ پیش نہ کریں گے۔ مجھے یاد ہے بینظیر بھٹو اور بیگم نصرت بھٹو کی کس بے رحمی و بے حیائی سے کردارکشی کی گئی تھی لیکن وہ سب تو ’’پمفلٹس‘‘ تک محدود تھا لیکن اب..... الامان الحفیظ الامان الحفیظ۔ سفاک سوشل میڈیا پر جو کچھ ہو رہا ہے، کسی قیامت سے کم نہیں۔ میں اس دھندے سے بہت دور ہوں۔ خوداپنی ’’فیس بک‘‘ نہیںدیکھتا۔ اتنا گیا گزرا اور جاہل ہوں کہ End، Sendکے علاوہ سیل فون کا استعمال نہیں جانتا۔ لوگ ضد کرکے جس فیملی کےساتھ ہو رہے سلوک کی جو جھلکیاں دکھاتے ہیں، خدا کی قسم میں منہ پھیر لیتا ہوں، دکھ ہوتاہے، گھن آتی ہے، کانپ اٹھتا ہوں۔ میرا بس چلے تو یہ سب کچھ حرف غلط کی طرح مٹا دوں لیکن بے بس ہوں اور اگر یہی مکافات ِ عمل ہے تو موت اس سزا کے مقابلہ پر بہت ہی معمولی سزا ہے۔ بچپن سے سنتے آئے کہ انسان جو بیجتا ہے وہی کاٹتا ہے۔ شاید یہ بدنصیب گھرانہ وہ کچھ کاٹ رہا ہے جو انہوں نے بیجا بھی نہ ہو۔ خاص طور پر حسن، حسین اور مریم کہ اب نہ سہی جب یہ وارداتیں ہوئیں تب تو معصوم بچے ہی تھے اور اگر ہاتھ صاف، دامن پاک ہے تب بھی یہ سب بچے ہی تھے جب دولت اثاثے ضربیں کھا رہےتھے بلکہ خرگوشوں کی شرح افزائش کو بھی شرما رہےتھے لیکن پھر وہی بات کہ نفرتوںاور محبتوں کی انتہائوں کا قصہ ہے تو یہاں بھی سر تسلیم خم ہے۔میری گزارش صرف اتنی ہے کہ اس نفرت اور محبت کو اس آئینی، قانونی، اخلاقی جنگ کو خالصتاً ’’مردانہ‘‘ رکھا جائے مائوں، بہنوں، بیٹیوں کاتقدس اور تکریم ہر قیمت پر ملحوظ خاطر رہے۔ ان لیگیوں سے ماضی میں بدصورتیوں بھری غلطیاں ہوئیں تو یہ کہاں لکھا ہے، یہ کہاں کی دانش مندی ہے کہ غلطی کا جواب غلطی اور بدصورتی کا جواب بدصورتی سے دیا جائے۔ کیا ’’بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں‘‘ والے کلچر کویوں ہی دفن کرنا ہے جیسے صدیوں پہلے جاہل عرب زندہ بیٹیوں کو زمینوں میں گاڑ دیا کرتے تھے؟مجھے جو کچھ دکھایا گیا اس کی چند جھلکیوں نے میرے اوسان خطا اور اعصاب شل کردیئے ہیں۔ مجھ سے لکھتے ہوئے ربط قائم رکھنا مشکل ہو رہاہے۔ قارئین گواہ ہیں کہ میں 23,22سال سے پیپلزپارٹی اور ن لیگ کو ایک ہی لاٹھی سے ہانک رہا ہوں اور یہ سلسلہ پیپلزپارٹی (بینظیر عہد) سے جاری ہے لیکن ان خواتین کی کردارکشی مجھے آج تک Hurtاورہانٹ کرتی ہے تو آج جو کچھ ان کےحریفوں کی خواتین کے ساتھ کیا جارہا ہے مجھے قبر تک ہانٹ اور Hurt کرتا رہےگا۔عجیب لوگ ہیں یہ بھی جو محاذ آرائی کو عروج پر لے جانے کے بعد محاذ آرائی سے بچنے کے مشورے دے رہے ہیں لیکن نڈھال ہاشمیوں اور چنڈال چوکڑیوں کی لگامیں اب بھی کھینچ لی جائیں تو شاید..... شاید اور ’’سوال گندم جواب چنا‘‘ والارویہ بھی تبدیل کرناپڑے گا ورنہ ’’پاناما‘‘ کے انڈے بچے گننا مشکل ہوجائے گا مثلاً آئی پی پیز کو 480ارب کی ادائیگی کا ہوشربا سکینڈل کہ 2013میں ان کمپنیوں کا سرکلر ڈیٹ 500 ارب تھا۔ حکومت نے آتےہی بنکوں سےقرضے لے کر ادائیگیاں شروع کردیں۔ اب FIA کے انکوائری افسر متحرک ہیں، تمام متعلقہ مواد طلب کرلیا گیا ہے، ادائیگیاں سب سے زیادہ اسے ہوئیں جو ’’برادران‘‘ کے بہت قریب ہے، چوہدری شوگر ملز ریکارڈ ٹمپرنگ فیم لیپ ٹاپ بھی ریکور ہوچکا، وزارت ِ خارجہ مخصوص ملکوں سے وزیراعظم کے رابطوں کے لئےسرگرم ہے، صدر نیشنل بنک سعید احمد نے برطانوی شہریت کااعتراف کرلیا ہے، یہ بھی ریکارڈ کاحصہ ہے کہ شریف فیملی نے 91ء سے منی لانڈرنگ کا سلسلہ شروع کیا، ’’اتفاق‘‘ کے ایک ملازم مختار کے نام پر بھی ایک اکائونٹ پکڑا جاچکا، کئی مقدمات جو دبا دیئے گئے تھے ان کے دوبارہ کھولنے کی سفارش بھی شریف فیملی کے لئے کوئی خیر کی خبر نہیں، اُدھر انڈین میڈیا متفکر کہ نواز کی رخصتی سے کشمیر کی آزادی قریب آ جائے گی، سانحہ ماڈل ٹائون کے مقتول بھی انصاف کے منتظر ہیں، گلف سٹیل سے متعلق سوال بھی جواب مانگتا ہے۔ وکی پیڈیا ’’کیلبری فونٹ‘‘ آرٹیکل میں ایڈیٹنگ بلاک کرچکا، جعلی دستاویزات جیسے خطرناک الزام کوبھی غلط ثابت کرنا ہوگا، جاوید کیانی بھی نواز شریف کے لئے جعلی اکائونٹس کھولنے کا اعتراف کرچکا، قریبی ترین فیملی کے بیانات تضادات کا شہکار ہیں، نیب میں نواز کے خلاف 9میگا اسکینڈلز پر 18سال سے تحقیقات جاری ہیں تو کس خوشی میں؟ نواز شریف سے JITمیں پوچھے گئے 14 سوالوں میں سے بیشتر کے جواب آئیں بائیں شائیں، ڈار صاحب شیخ النہیان کے مشیر رہے لیکن مراعات بتانے سے انکاری ہیں جو اس لئے ضروری ہیں کہ آمدنی کا موازنہ اثاثوں سے کیا جاسکے، صورتحال کی سنگینی سے دلبرداشتہ درجنوں ن لیگی ایم این ایز کی اِدھر اُدھر تاک جھانک اور یہ وہ ’’ماہرین‘‘ ہیں جو خطرے کو بروقت سونگھ لیتے ہیں، حسن نواز نے ساتوں سوالوں کا جواب ’’نہیں‘‘میں دیا، چیئرمین نیب کہتےہیں جب چارج سنبھالا شریف فیملی کے خلاف 21کیسز زیرالتواتھے، نوازشریف UAE میںقائم کمپنی سے تنخواہ وصولتے رہے اور آپ نے وزیراعظم پاکستان ہوتے ہوئے بھی ’’اقامہ‘‘ لیا، ترسیلات ِزر کے ثبوت پیش نہ کئے جاسکے، نئی آف شور کمپنیوںکی نشاندہی، خسارے میںچلنے والی کمپنیاں سونے کے انڈے دیتی رہیں، چاروں لندن فلیٹس 93ء میں ان کی ملکیت، نواز شریف ڈھائی گھنٹے تک سگے خالو کو نہ ’’پہچان‘‘ پائے، منی ٹریل کا وجود ہی نہیں جو بنیادی سوال ہے۔یہ تو ہیں اجمیر شریف والی دیگ سے کہیں بڑی دیگ سے چند دانے یعنی ’’دی ٹریپ‘‘کے ہیرو کی طرح اپنےہی بچھائے گئے ٹریپس میں سے کسی نہ کسی میں تو ہمارے منتخب جمہوری ہیرو نے پھنسنا ہی ہے تو کیوں نہ احتساب کی اس جنگ کو ہر قسم کی غلاظت سے پاک رکھتے ہوئے خواتین کی کردارکشی سے دور رکھا جائے..... اگر واقعی بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں؟

تازہ ترین