• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اِن سے ملئے، شاداب صاحب، ایک کمپنی میں خریداری کے شعبے کے سربراہ ہیں، نائن ٹو فائیو کی جاب ہے، تنخواہ اچھی خاصی ہے، ضروریات مگر زیادہ ہیں، کمپنی کے خام مال سے لے کر کاپی پنسل تک ہر چیز چونکہ انہی کی مرضی سے خریدی جاتی ہے اور کسی بھی اسپلائیر کو اِن کے دستخطوں کے بغیر ادائیگی نہیں کی جا سکتی اس لئے ہر شخص شاداب صاحب کو شاد رکھتا ہے، اِن سے بنا کر رکھتا ہے، شاداب صاحب بھی کسی کا بل نہیں روکتے بشرطیکہ پانچ فیصد کا حصہ انہیں بل سے پہلے مل جائے، اِس پانچ فیصد کے بارے میں انہوں نے اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دی ہوئی ہے کہ یہ ایک طرح سے اُن کی غیر اعلانیہ تنخواہ ہے، اس دلیل سے ضمیر مطمئن ہو کر سو چکا ہے، البتہ کبھی کبھار جب ضمیر انگڑائی لے کر بیدار ہونے کی کوشش کرتا ہے تو وہ اسے یہ لوری دے کر دوبارہ سلا دیتے ہیں کہ ابھی کل رات ہی تو میں نے سوشل میڈیا پر کرپٹ مافیا کے خلاف گالیاں لکھی ہیں، یہی میرا فرض تھا سو میں نے پورا کر دیا۔ ضمیر بھی چونکہ کچھ بے غیرت ہو چکا ہے، اس لئے یہ تاویل سُن کر دوبارہ سو جاتا ہے۔
اِس نوجوان سے ملئے، اچھا پڑھا لکھا بچہ ہے، بی اے کر رکھا ہے، باہر جانے کے لئے پر تول رہا ہے، یہاں پاکستان میں اسے ڈھنگ کی نوکری نہیں ملی، اس کا ایک بڑا بھائی پہلے ہی یورپ میں مقیم ہے، نوکری تو بھائی کو بھی وہاں کوئی نہیں ملی سو وہ ٹیکسی چلاتا ہے اور روزانہ ایک مغلظات سے بھری ویڈیو اپنے چھوٹے بھائی کو بھیجتا ہے جو کبھی کبھار اسے سوشل میڈیا پر ڈال دیتا ہے۔ ایسی ویڈیوز کا خلاصہ یہ ہے کہ پاکستان تباہ ہو چکا ہے، یہاں کوئی میرٹ نہیں، یورپ کو دیکھو یہاں وزیراعظم عام آدمی کی طرح بس میں سفر کرتا ہے اور پاکستان میں حکمرانوں کی سواری شہنشاہوں کی طرح گزرتی ہے، یورپ میں کوئی کرپشن نہیں پاکستان میں کرپشن ہے، کب تک ہم ان کرپٹ سیاستدانوں کے ہاتھوں یرغمال بنے رہیں گے وغیرہ وغیرہ۔ ان ویڈیوز میں بڑے بھائی کا غصہ دیدنی ہوتا ہے، اس کی آنکھیں شعلے برسا رہی ہوتی ہیں، زبان سے انگارے نکل رہے ہوتے ہیں اور یوں لگتا ہے جیسے وہ اسکرین پھاڑ کر نکل آئے گا اور دو چار کو کاٹ ڈالے گا۔ چھوٹا بھائی البتہ جو ویڈیوز سوشل میڈیا پر اپ لوڈ نہیں کرتا اُن میں بڑا بھائی کسی ڈسکو میں لڑکیوں کے ساتھ بیٹھا کوئی شربت قسم کی چیز پی رہا ہوتا ہے یا پھر کسی دوسری ویڈیو میں اپنے بھائی کو یہ مشورہ دیتا ہے کہ کیسے جعلی بینک اسٹیٹمنٹ اور جعلی سرٹیفکیٹ بنوا کر امیگریشن کے لئے کاغذات مکمل کرنے ہیں تاکہ اِس کرپٹ ملک سے نجات پائی جا سکے۔ان سے ملئے، آپ ایک سینئر سرکاری افسر ہیں، ایمانداری کا دعویٰ ایسا تھا کہ دامن نچوڑیں اور فرشتے وضو کریں، دفتر میں مصلیٰ بچھا کر نماز ادا کرتے تھے، کوئی ملنے آتا تو پی اے کہتا صاحب وضو کر رہے ہیں، کچھ دیر بعد آتا تو بتایا جاتا کہ اب صاحب نماز پڑھ رہے ہیں، آدھے ملاقاتی تو وہیں گھائل ہو جاتے۔ البتہ شام کو گھر آنے والے ملاقاتی ذرا اور قسم کے ہوتے، کوئی بوتلوں کا تحفہ لاتا اور کہتا سر! کل ہی ایک کھیپ پکڑی ہے، امپورٹڈ ہے، آپ کو تو پتا ہے کہ میں نہیں پیتا، آپ بھی نہیں پیتے مگر سوچا کہ آپ کے کسی جاننے والے کے کام آ جائیں گی۔ کمال بے اعتنائی کے ساتھ وصول کر لی جاتی ہیں۔ کچھ ملاقاتی تحفے کی بجائے نقد میں یقین رکھتے سو اُن کے لئے بھی در کھل جاتا۔ لیکن پھر بدقسمتی سے نیب نے کوئی کیس بنا لیا، بڑی مشکل سے پلی بارگین کرکے جان چھوٹی۔ سنا ہے اب کینیڈا کی امیگریشن جیب میں ڈال کر نوکری کرتے ہیں اور ساتھ ساتھ اپنے بیچ کا بنایا ہوا ایک وٹس ایپ گروپ جوائن کر رکھا ہے جس میں کرپشن کے خلاف دل کھول کر مغلظات سے بھری پوسٹس بھیجتے ہیں گویا کرپشن کے خلاف جہاد کا بیڑہ انہوں نے اٹھا رکھا ہو۔ آخری خبریں آنے تک موصوف اس بات پر بھنگڑے ڈالتے نظر آئے کہ اب ملک سے کرپشن کا خاتمہ ہو جائے گا۔
اِن سے ملئے، پڑھے لکھے کاروباری ہیں، ملک میں کپڑوں کا ایک نیا برینڈ انہوں نے متعارف کروایا، فیشن کے طور پر داڑھی رکھی ہے، نظر کمزور نہیں مگر چشمہ لگاتے ہیں اور جس دن دھوپ نہ ہو اُس روز کالی عینک لگاتے ہیں، اپنے تئیں مدلل گفتگو کرتے ہیں اور اس کا ثبوت یہ ہے کہ انگریزی میں گالیاں دیتے ہیں، اپنی ہر بات میں وہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کو کم از کم چور کہتے ہیں، تاہم اپنے بارے میں اُن کا خیال یہ ہے کہ دس برس میں صفر سے ارب پتی ہونا کوئی مشکل نہیں بشرطیکہ بندہ اُن کی طرح قابل، محنتی اور اصولی ہو، اپنے آپ کو یہ تمام سرٹیفیکیٹ گاہے گاہے وہ خود ہی جاری کرتے رہتے ہیں۔ پچھلے دنوں موصوف کا کوئی ٹیکس کیس پھنس گیا تو روتے دھوتے آئے اور کہنے لگے یہ کہاں کا انصاف ہے کہ مجھ سے یہ پوچھا جائے کہ پانچ سال پہلے میں نے جو مشینری لگائی تھی اس کی خریداری کا ثبوت دو، تمہیں تو پتا ہے کہ نئی مشینری پر depreciationملتی ہے جو میں نے کلیم بھی کی تھی جبکہ اصل میں تو کراچی سے سیکنڈ ہینڈ منگوائی تھی، اب نئی مشینری کا ثبوت میں کہاں سے دوں، وہ بھی پانچ سال پرانا، بھلا یہ کہاں کا انصاف ہوا کہ اس ملک میں انسان بزنس بھی نہ کر سکے، پتا نہیں ان حکمرانوں (انگریزی گالیوں سمیت) سے کب جان چھوٹے گی۔ سنا ہے موصوف کی جان البتہ کسی کو دے دلا کر چھوٹ گئی ہے۔
یہ سب کون ہیں؟ کوئی آکسفورڈ سے پڑھا ہوا ہے، کوئی اعلیٰ افسر ہے، کوئی اے گریڈر ہے، کوئی منیجر ہے دو باتیں مگر سب میں مشترک ہیں۔ مغلظات بکنا اور..... خود کو پارسا کہنا۔ گالیوں کے بارے میں کوئی کیا تبصرہ کرے، جب تعلیم ان پڑھے لکھے جاہلوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکی تو یہ چار سطریں کیا بگاڑ لیں گی۔ گالیوں کی اصل وجہ غرور اور تکبر ہے۔ تکبر اِس بات کا کہ پڑھے لکھے ہم ہیں، ڈگریاں ہمارے پاس ہیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جسے ہم چاہیں وہ مسند حکمرانی پر نہ بیٹھے، یہ دو دو ٹکے کے جاہل ووٹر جنہیں سیاست دان ہمیشہ بیوقوف بنا لیتے ہیں، ان کی کیا اوقات کہ کہ ہماری برابری کریں، ہمارا اور اِن کمیوں کا کیا مقابلہ۔ مگر جب ان کا بس نہیں چلتا تو پھر بیچارے گالیاں دیتے ہیں۔ دوسری بات، خود کو پارسا یہ لوگ اسی صورت میں ثابت کر سکتے ہیں جب دوسرے کو چور کہیں۔ یہ لوگ وہ ہیں جنہوں نے خود کبھی ایمانداری سے کام نہیں کیا یا کم از کم بغیر نفع یا ذاتی مفاد کے کوئی کام کرنے کی انہیں عادت نہیں سو اِن کا ذہن یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ کوئی شخص محض اپنے نظریے کی خاطر بھی جمہوری نظام کا دفاع کر سکتا ہے۔ اج جب یہ لوگ کسی شخص کو اپنے نظریے پہ جما ہوا دیکھتے ہیں تو تلملا اٹھتے ہیں (کیونکہ ان کا اپنا کوئی نظریہ نہیں) اور چاہتے ہیں کہ اپنے منہ پر کالک کی جمی ہوئی تہیں معاشرے کے اُجلے لوگوں کے منہ پر بھی مل دی جائیں تاکہ اِن کی طرح باقی لوگ بھی منافق ہی نظر آئیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اخلاقیات کے ہجے تک نہیں آتے مگر اخلاقیات پر لیکچر دینا اِن کا محبوب مشغلہ ہے۔ اِن کے ہاں اخلاقی اسٹاک مارکیٹ کی مندی کی کوئی حد نہیں۔

تازہ ترین