• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم نوازشریف کی کشتی پاناما کے بھنور میں پھنسی ہوئی ہے۔تین سال قبل بلند ہونے والی استعفیٰ کی صدائیں پھر سنائی دے رہی ہیں۔نوازشریف بھرپور قانونی جنگ لڑنے کے موڈ میں ہیں اور مضبوط اعصاب کے مالک نوازشریف کسی بھی قیمت پر ہارنے کو تیار نہیں ۔انتخابی دھاندلی ہو یا پھر بھارت سے سفارتی تعلقات،ڈان لیکس کا معاملہ ہو یا پھر سول عسکری تعلقات میں کشیدگی ۔ہر مرتبہ ہدف نوازشریف کا استعفیٰ ہی رہا۔حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ نوازشریف کے استعفیٰ کی تھیوری کا مصنف ایک ہی ہے،جو ہر ناکامی کے بعد نئے پلان کو پرانے ایجنڈے سے ساتھ منظر عام پر لے آتا ہے۔نوازشریف اپنی تقاریر میں ان سازشوں کا خود بھی اظہار کرچکے ہیں۔اگر کچھ معاملات کا عینی شاہد نہ ہوتا تو کبھی بھی نوازشریف کی تقاریر کو سن کر سازشوں پر یقین نہ کرتا۔گزشتہ روز ملک کے ایک معروف بیوروکریٹ اچانک گھر آگئے۔پاناما کیس کا تذکرہ کرتے ہوئے کہنے لگے کہ آپ نے وزیراعظم کاکھل کر دفاع کیوں کیا ہے؟ اور جن حقائق پر آپ نے دو ماہ قبل تحفظات کا اظہار کیا تھا،حکمران جماعت بالآخر اسی نتیجے پر پہنچی ہے۔اس خاکسار نے موصوف بیوروکریٹ کو جواب دیا کہ ہم کبھی بھی نوازشریف کے حامی نہیں ہیں مگر نوازشریف کے خلاف جو سازشیں تیار کی جارہی ہیں ،اس کے مخالف ضرور ہیں۔آج کچھ معاملات کھل کر قارئین کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ اس خاکسار نے7جون کو اپنے کالم ـ"حسین نواز کی تصویر کس نے لیک کی" میں تحریر کیا تھا کہ
"کسی انٹیلی جنس ایجنسی کے نمائندے کوجے آئی ٹی میں شامل کرنے کے بجائے اپنی معاونت کے لئے رکھا جاتا اور جو بھی معلومات درکار ہوتیں ۔اس پر تحریری انداز میں ان اداروں سے معلومات حاصل کرلی جاتیں۔جب آج بعض اداروں کو ہر معاملے میں شریک کریں گے تو پھر کل ہر تعیناتی میں بھی وہ اپنا کردار ادا کریں گے۔کوشش تو ہونی چاہئےتھی کہ جمہوریت کے مسلسل دس سال مکمل ہونے پر مزید ایسے اقدامات کئے جاتے کہ ان اداروں کاسیاسی کردار کم سے کم ہوتا چلا جاتا مگر ہم نے اب تو ان کو آئینی و قانونی چھتری دینا شروع کردی ہے۔جس کے بہرحال بہت خوفناک اور دو رس نتائج ہونگے ۔ابھی تو معاملہ صرف نوازشریف کے بیٹے کا ہے مگر کل کسی کے خلاف کوئی تحقیقات ہونگی تو یہی لوگ آج دی گئی آئینی ڈھال کو جواز بنا کر اس کے خلاف چار ج شیٹ بنارہے ہونگے۔
سویلین بالادستی اور جمہوریت کی مضبوطی کے حوالے سے لکھے گئے کالمز کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہوتا کہ نوازشریف کا دفاع کیا جارہا ہے۔بدقسمتی سے جس موقع پر جمہوری حکومت کے خلاف سازشیں عروج پر ہیں ،حکومت مسلم لیگ ن کی ہے اور نوازشریف وزیراعظم ہیں۔اگر نوازشریف کے بجائے عمران خان یا آصف زرداری بھی پاکستان کے وزیراعظم ہوتے اور ان کے خلاف اسی قسم کی سازشیں کی جارہی ہوتیں تو میں ان کا بھی ایسے ہی دفاع کرتا۔ خفیہ قوتوں کی گزشتہ چارسالوں کے دوران مسلسل مداخلت اور جمہوریت کو کمزور کر نے کی کوششوں نے ہمیں نوازشریف کے دفاع پر مجبور کیا ہے۔اگر 2014میں دھرنا سیاست،انتخابی دھاندلی کے الزامات،ڈان لیکس اور اب پاناما کا معاملہ نہ ہوتا تو آج نوازشریف کمزور ترین وزیراعظم اور مسلم لیگ ن سیاسی طور پر مشکل صورتحال سے دوچار ہوتی۔ہمارے اسکرپٹ رائٹرز شاید بھول جاتے ہیں کہ 20کروڑ عوام کی اکثریت درپردہ قوتوں کے سیاسی کردار کو ناپسند کرتی ہے۔جب نوازشریف کے خلاف اسکرپٹ لکھا جاتا ہےاور پورے ملک میں تاثر جاتا ہے کہ تنہا نوازشریف سویلین بالادستی کی جنگ لڑ رہا ہے تو نوازشریف کے مخالف مگر جمہوریت کے متوالے اس کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں۔سینئر وکیل رہنما عاصمہ جہانگیر کی مثال سب کے سامنے ہے۔وہ نہتی عورت جو جمہوریت اور قانون کی حکمرانی کے لئے ضیاء الحق جیسے آمر سے لڑ چکی ہے۔جس نے ہمیشہ مارشل لاحکومتوں کی مخالفت کی ہے۔جو آج بھی سرخیل ہے،سیاسی ،نظریاتی اور معاشرتی ہر حوالے سے مسلم لیگ ن کی مخالف ہے۔لیکن جب نوازشریف کو تنہا کیا جاتا ہے اور معاملہ سویلین بالادستی کا آتا ہے تو عاصمہ جہانگیر جیسی عورت بھی دائیں بازو کے حوالے سے اپنے سخت نظریات پس پشت ڈال کر کھڑی ہوجاتی ہے۔آج پورے ملک میں جس پاناما کا چرچا ہے۔اس خبر کا پاکستان میں کریڈٹ دی نیوز کے سینئر تحقیقاتی صحافی عمر چیمہ کو جاتا ہے۔عمر چیمہ آئی سی آئی جے کے پاکستان میں اہم نمائندے ہیں۔شریف فیملی اور پاکستان کے دیگر افراد کے حوالے سے تمام دستاویزات انہوں نے ہی تصدیق وترتیب دی ہیں۔ انہوں نے انتہائی دیانتداری اور لگن سے میرٹ کے مطابق تمام افراد کے نام اپنی خبر میں تحریر کئے۔اسی طرح سے احمد نورانی بھی دی نیوز کے سینئر صحافی ہیں۔حکمران جماعت کے خلاف ان کی بڑی خبریں گنوانا شروع کروں توکالمز کی سیریز لکھنی پڑے۔یہ سب لوگ شفافیت سے صحافت کرتے ہیں۔لیکن جب انہی صحافیوںکی جانب سے حکومت کے خلاف اسکینڈلز منظر عام پر لانے کے بعد حکمران جماعت سے تحقیقات کا آغاز ہوتاہےاور پھر سارے معاملات کو درپردہ قوتوں کے حوالے کردیاجاتا ہےتو پھر یہ لوگ بھی نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوجاتے ہیں ۔ان بالا ناموں میں سے کوئی بھی صحافی نوازشریف کا حامی نہیں ہے لیکن سویلین بالادستی اور جمہوریت کا داعی ضرور ہے۔جمہوریت کے روپ میں کوئی بھی شخص وہاں بیٹھاہو،اس کا دفاع کرنا جمہوریت کے متوالوں کی مجبوری ہے۔جمہوریت مخالف چالوں سے نوازشریف مضبوط ہوتے ہیں اور ان کا دفاع کرنے والوں میں اضافہ ہوتا ہے۔جیو جنگ گروپ کو دیکھ لیں۔اس کے بانی میر خلیل الرحمن مرحوم نے ملک میں مضبوط صحافی اقدار کی بنیاد رکھی۔یہ ادارہ مالی مفاد کو پس پشت ڈال کر ہمیشہ حکومتوں کے خلاف ڈٹا رہا،پرویز مشرف کی ایمرجنسی ہو یا پھر آصف علی زرداری کی کرپشن۔پابندیاں برداشت کیں مگر اصولوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔آج نوازشریف کے دفاع کرنے پر اشتہارات کا طعنہ دیا جاتا ہے۔اشتہارات اور وزارت اطلاعات کے فنڈز کی تحقیقات کا مطالبہ کرنے والے کاش پی پی پی کے بھی 5سال کی تحقیقات کرلیں۔اگر جیو جنگ گروپ مشرف یا زرداری کے حوالے سے اصولی موقف رکھ سکتا ہے تو نوازشریف کے حوالے سے بھی معیار مختلف نہیں ہے۔لیکن جب جمہوریت پر خطرات منڈلاتے ہیں اور یہ تاثر سرایت اختیار کرجاتا ہے کہ نوازشریف کی مخالفت سے جمہوریت کمزور ہوگی اور درپردہ قوتوں کی چال کامیاب ہوگی تو پھر چالوں کو ناکام بنانے کے لئے اس کا ساتھ دیا جاتا ہے۔آج نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے مسیحاؤں کو ضرور کہتے ہوںگے کہ
طوفان کررہا تھا میرے عزم کا طواف
دنیا سمجھ رہی تھی کہ کشتی بھنور میں ہے

تازہ ترین