• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میجر جنرل آصف غفور نے ’’لوڈڈ‘‘ سوالات نظرانداز کیے

Todays Print

اسلام آباد (طارق بٹ)سپریم کورٹ کی جانب سے شریف خاندان کے خلاف پاناما کیس میں جے آئی ٹی کی رپورٹ کے حوالے سے ہونےو الی سماعت سے ایک روز قبل پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور نے جے آئی ٹی رپورٹ کی تیاری میں پاک فوج کی جانب سے بہت زیادہ کردار ادا کرنے کے حوالے سے حد سے زیادہ ’’لوڈڈ‘‘ سوالات کو بار بار نظرانداز کیا۔

انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ’’فوج کا جے آئی ٹی میں براہ راست کردار نہیں تھا۔‘‘ان سے بہت زیادہ اور طویل سوالات کیے گئے جو ان تمام الزامات پر مبنی تھے جنہیں حکومتی رہنماؤں سے منسوب کیا جاتا ہے جبکہ ان کے جوابات بہت مختصر تھے۔پریس کانفرنس کا اہتمام ردالفساد کے تحت آپریشن خیبر فور شروع کرنے کا اعلان کرنے کیلئے کیا گیا تھا تاکہ خیبر ایجنسی میں دہشت گردوں کا صفایا کیا جاسکے۔

میجر جنرل آصف غفور نے جے آئی ٹی پر زیادہ تر سوالات کا جواب نہیں دیالیکن ان سے بار بار اسی موضوع پر سوالات کیے گئے۔ تاہم انہوں نے متجسس صحافیوں کی خواہش پر اور جو وہ چاہتے تھے، وہ جواب نہیں دیا جس سے بحران اور تنازع بھڑکے۔ وہ ایسے سوالات کا جواب دیتے ہوئے بہت محتاط رہے اور ایسے سوالات کے مختصر جواب دیے۔

جب ایک صحافی نے دعوی کیا کہ کہا جارہا ہے کہ فوج نے جے آئی ٹی کے ذریعے حکومت کے خلاف سازش کی تو انہوں نے فورا جواب دیا کہ یہ سوال جواب کا مستحق نہیں ہے۔ ایک غیر ملکی صحافی کے اس سوال کے جواب میں کہ کیا جے آئی ٹی کے پیچھے اصل قوت فوج کی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ پہلے ہی اس سوال کا جواب دے چکے ہیں۔ ایک اور بہت طویل سوال یہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ، فوج کا سیاستدان اکثر حوالہ کیوں دیتے ہیں۔ اس نام کا مطلب کیا ہے اور کیوں یہ الزام لگایا جارہا ہے کہ حکومت کے خلاف ایکشن لینے کے لئے فوجی سربراہ بہت مضبوط ہیں۔

میجر جنرل آصف غفور نے کہا کہ ’’سیاسی گفتگو سیاسی میدان کا دائرہ کار ہے۔‘‘ انہوں نے فوجی سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کے پیغام کا حوالہ دیا جو قبل ازیں انہوں نے پڑھا تھا اور جس میں کہا گیا کہ فوج امن استحکام اور حالات کو معمول پر لانے کیلئے کام کر رہی ہے۔ سوشل میڈیا پر فوج مخالف پروپگنڈے کے متعلق آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا کہ کوئی محب وطن پاکستانی یہ حرکت نہیں کرے گا اور صرف وہ عناصر جو بیرونی اثر میں ہیں وہ یہ کام کر رہے ہیں۔

ایک مرحلے پر ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے نمائندوں نے ایمانداری سے کام کیا۔ انہوں نے کہا کہ فوج کا جے آئی ٹی میں براہ راست کوئی کردار نہیں تھا اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کے نمائندے اس میں سپریم کورٹ کے حکم پر شامل کیے گئے تھے۔ انہوں نے معزز عدالت کی جانب سے آئین کی دفعہ 190کو لاگو کرنے کے حوالے سے سوال کو نظرانداز کردیا۔

امریکی جاسوس ریمنڈ ڈیوس کی رہائی سے متعلق ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ تمام ریاستی ادارے اس میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ ڈیوس کی کتاب کا مقصد دیگر ایسے کاموں کی طرح مقاصد حاصل کرنا تھا ۔

تازہ ترین