• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز گئے تو عمران بھی جائینگے، ن لیگ ہاتھ باندھ کر لڑی ،عاصمہ جہانگیر

Todays Print

کراچی(جنگ نیوز) وفاقی وزیر تجارت خرم دستگیر خان نے کہا ہے کہ کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ن لیگ متحد نظرآئی،سیاسی لیڈروں کو جلاوطن کیا گیا یا پھانسی دی گئی لیکن پاکستانی سیاست سے کوئی باہر نہیں کرسکا پیرکوصرف شریف خاندان کا ہی نہیں قانون کی حکمرانی کا بھی ٹرائل ہے۔

وہ جیو نیوز کے پروگرام ”نیا پاکستان طلعت حسین کے ساتھ“ میں میزبان طلعت حسین سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں پیپلز پارٹی کے رہنما نیئر حسین بخاری،صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن رشید اے رضوی،سابق صدر سپریم کور ٹ بار ایسوسی ایشن عاصمہ جہانگیر،نمائندہ خصوصی جیو نیوز آصف علی بھٹی اور پیپلز پارٹی کی رہنما ناز بلوچ سے بھی گفتگو کی گئی۔نیئر حسین بخاری نے کہا کہ ن لیگ میں توڑ پھوڑ نظر آرہی ہے، پاناما کیس میں ن لیگ کے قائد کا کردار بے داغ نظر نہیں آرہا ہے۔

رشید اے رضوی نے کہا کہ وکلاء ایسوسی ایشن نے وزیراعظم کے استعفے کیلئے دھرنے کی کال نہیں دی ہے، نواز شریف پاناما کیس میں اخلاقی اتھارٹی کھو چکے ہیں، وزیراعظم کو اخلاقی بنیادوں پراستعفیٰ دیدینا چاہئے۔عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ پاناما کیس میں 184/3کا دائرہ اختیار نہیں آتا ہے، نواز شریف جائیں گے تو عمران خان بھی جائیں گے، ن لیگ ہاتھ باندھ کر لڑتی رہی اور دوسری پارٹی پنجے مارتی رہی۔ناز بلوچ نے کہا کہ تحریک انصاف کا ہر کارکن ناراض ہے، عمران خان کو بارہا پارٹی مسائل سے آگاہ کیا۔ آصف علی بھٹی نے کہا کہ چوہدری نثار نے کابینہ اجلاس کئی ایسی باتیں کہیں جو ریکارڈ پر نہیں لائی جاسکتیں، حکومت چاہتی تھی چوہدری نثار کے اختلافات کی خبریں باہر نہ نکلیں۔

خرم دستگیر خان نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ اور پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں ن لیگ متحد نظرا ٓئی ہے، دو وزراء کے بیانات میں کچھ اوپر نیچے ہوا تو پارٹی میں اس کے شواہد سامنے نہیں آئے، چوہدری نثار کی وزیراعظم اور پارٹی سے وابستگی اور وفا داری میں کوئی شک نہیں ہے، چوہدری نثار نے وزیراعظم سے اظہار وفاداری کیلئے جذباتی جملہ کہا، وزراء کے درمیان اختلاف رائے ہوسکتا ہے لیکن نواز شریف کے سامنے وہ دونوں اکٹھے ہیں، عوام میں مقبول سیاسی لیڈروں کو عدالتی معاملات کے ذریعے ہٹانے کی کوششیں ناکام رہی ہیں، سیاسی لیڈروں کو جلاوطن کیا گیا یا پھانسی دی گئی لیکن پاکستانی سیاست سے کوئی باہر نہیں کرسکا۔ انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی رپورٹ صرف الزامات ہیں، کل صرف شریف خاندان کا ہی نہیں قانون کی حکمرانی کا بھی ٹرائل ہے، یہ بھی زیرآزمائش ہے کہ عدالت کو جن طریقوں سے اپنے فیصلوں تک پہنچنا ہے کیا وہ آئین و قانون کے مطابق تھے یا نہیں تھے، عدالت نے مضحکہ خیز درخواست کو دوبارہ سماعت کیلئے قبول کیا، وزیراعظم نے عدالت کے سامنے لیت و لعل کے بجائے خود کو اور اپنے خاندان کو احتساب کیلئے پیش کیا، عدالت نے بغیر کوئی فیصلہ کیے بارِ ثبوت ہمارے سر پر ڈال دیا، جے آئی ٹی نے سوالات کو فرد جرم سمجھ کر ان پر تحقیقات کی، سپریم کورٹ بغیر ذاتی رنجش اور میڈیا میں مچے شور کو لائے بغیر حقائق پر فیصلہ کرے کہ پاناما کیس آگے کس قانون کے تحت اور کیسے چلے گا، ہم عدالت کے سامنے پابجولاں پیش ہوچکے ہیں۔آصف علی بھٹی نے کہا کہ وزیراعظم نے کابینہ کے اجلاس میں چوہدری نثار کو بولنے سے نہیں روکا، چوہدری نثار نے اجلاس میں کھل کر اپنے دلی خیالات کا اظہار کیا، چوہدری نثار کو وزیراعظم سے مشاورتی عمل سے باہر نکالے جانے کا بہت زیادہ گلہ ہے جس کا شکوہ انہوں نے نہایت سخت الفاظ میں کیا۔

آصف علی بھٹی کا کہنا تھا کہ میرے پاس کابینہ اجلاس میں چوہدری نثار کے نالاں ہونے کی خبر ملی لیکن چار اہم وزراء نے کہا کہ ایسی کوئی بات نہیں ہے، میں نے چند ٹکر دیئے تو اس پر وزیرداخلہ کی طرف سے دس لائنوں کا ردعمل آیا، حکومت چاہتی تھی کہ چوہدری نثار کے اختلافات کی خبریں باہر نہ نکلیں، چوہدری نثار نے وہاں کئی ایسی باتیں کہیں جو ریکارڈ پر نہیں لائی جاسکتیں، چوہدری نثار کی طرف سے احسن اقبال اور ایک سینئر وزیر کے متعلق کہنا کہ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے معاملہ کو اس نہج پر پہنچایا بہت اہم بات ہے، چوہدری نثار کی باتوں کے دوران کسی وزیر کو بولنے کی ہمت نہیں ہوئی۔ آصف علی بھٹی نے کہا کہ چوہدری نثار سے متعلق مختلف اطلاعات سامنے آرہی ہیں، ایک اطلاع تو یہ ہے کہ چوہدری نثار کو کہیں سے تھپکی ملی اور یقین دلایا گیا ہے کہ انہیں کچھ ملنے جارہا ہے، یہ بات بھی سامنے آرہی ہے کہ وہ کسی پارٹی کو یا پی ٹی آئی کو جوائن کرنے جارہے ہیں، چوہدری نثار شاید سپریم کورٹ میں کل کی سماعت کا انتظار کررہے ہیں، چوہدری نثار کے پاس ایک یا دو آپشن ہی رہ گئے ہیں۔

نیئر حسین بخاری نے کہا کہ ن لیگ میں توڑ پھوڑ نظر آرہی ہے، سیاسی جماعتوں میں یہ پراسس ہوتا رہتا ہے، دو وزراء کی تضاد بیانی سے اختلافات کی خبروں کو تقویت ملتی ہے، نواز شریف قانونی طور پر لڑنا چاہتے ہیں تو ضرور لڑیں، کسی سیاسی لیڈر کی دیانتداری مشکوک ہوجائے تو وہ کمزور ہوجاتا ہے، نواز شریف اس مرحلہ پر کمزور ہوچکے ہیں، پاناما کیس میں عدالتوں میں کم ثبوت پیش کیے گئے باہر زیادہ شور شرابا کیا گیا، پاناما کیس میں ن لیگ کے قائد کا کردار بے داغ نظر نہیں آرہا ہے، پاناما کیس کا فیصلہ جلد از جلد آنا چاہئے۔

رشید اے رضوی نے کہا کہ وکلاء ایسوسی ایشن نے وزیراعظم کے استعفے کیلئے دھرنے کی کال نہیں دی ہے، پانچ ججوں میں سے دو پہلے ہی کہہ چکے وزیراعظم صادق اور امین نہیں ہیں، کسی وکیل کی کسی سیاستدان سے ذاتی پرخاش نہیں ہوتی ہے، وکلاء بار کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرتے ہیں، نواز شریف پاناما کیس میں اخلاقی اتھارٹی کھو چکے ہیں، وزیراعظم کو اخلاقی بنیادوں پراستعفیٰ دیدینا چاہئے۔

انہوں نے کہا کہ ملک کا ہر سیاستدان کسی نہ کسی دور میں اسٹیبلشمنٹ کا حصہ رہا ہے، جب انہیں مار پڑتی ہے تو اسٹیبلشمنٹ کیخلاف آواز اٹھاتے ہیں جب دوستی ہوجاتی ہے تو پھر اسی دھارے میں چل پڑتے ہیں، وزیراعظم نواز شریف کس مصلحت کے تحت خاموش ہیں، وہ سپریم کورٹ میں جاکر اعتراضات کیوں نہیں اٹھاتے ہیں۔رشید اے رضوی کا کہنا تھا کہ کوئی سیاسی جماعت صاف نہیں لیکن احتساب کا عمل کہیں سے تو شروع ہونا ہے، بار کونسلیں وکیلوں کیخلاف پروفیشنل مس کنڈکٹ کی پروسیڈنگز ایکٹو کریں۔

عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سیاسی پراسس سے گزرنے والے جانتے ہیں اگر آپ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بیٹھے ہیں تو پورا ملک کھاجائیں کوئی نہیں پوچھے گا لیکن اگر آپ اسٹیبلشمنٹ سے اختلاف کرتے ہیں تو آپ کا ایسا حشر ہوگا کہ آپ یاد کریں گے، ہم جیسے لوگوں کو ملک اور اسلام مخالف کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، ہماری بات ہمیشہ سچ نکلی اور ان لوگوں کی بات غلط نکلی جو ملک کے اصل حکمراں نہیں اور پیچھے سے حکمرانی کرنا جانتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاناما کیس میں 184/3 کا دائرہ اختیار نہیں آتا ہے، جے آئی ٹی کس قانون کے تحت بنائی گئی ، ایم آئی اور آئی ایس آئی کے نمائندے جے آئی ٹی میں کیوں شامل کیے گئے، وزیراعظم کی تبدیلی کا عمل آرام سے نہیں ہوگا، جنہوں نے یہ ڈرامہ رچایا وہ ابھی بھی بیٹھ کر ٹولیاں بنارہے ہوں گے، وہ اتنی آسانی سے ایک اور وزیراعظم دے کر اسے پپی دے کر گھر نہیں جائیں گے، نواز شریف کیخلاف نیب میں کیسز تھے ۔

عاصمہ جہانگیر کا کہنا تھا کہ پاناما کیس سیاسی کیس ہے، پچھلے زمانے میں ہر جج کسی وکیل کو بلا کر دوسرے جج کے خلاف پٹیشن کرواتا تھا، نواز شریف جائیں گے تو عمران خان بھی جائیں گے، ن لیگ ہاتھ باندھ کر لڑتی رہی اور دوسری پارٹی پنجے مارتی رہی، انہیں کافی دیر بعد احساس ہوا کہ ان کے ساتھ تو ہاتھ ہوگیا۔انہوں نے کہا کہ سب سے پہلے جرنیلوں کا پھر ججوں کا احتساب کیا جائے اس کے بعد دوسروں کی باری آئے، اگر احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی ہونا ہے تو یہ احتساب نہیں ہے، سیاسی خلا پیدا ہوا تو رائٹ ونگ کا کوئی انسان آسکتا ہے۔

پیپلز پارٹی کی رہنما ناز بلوچ نے کہا کہ عمران خان کے ارد گرد چار چار پارٹیوں سے کرپشن کر کے لوگ آگئے ہیں، وہ اس سوچ میں بھی ہیں کہ عمران خان کے بعد اگلی کس پارٹی کو جوائن کریں، تحریک انصاف کا ہر کارکن ناراض ہے، عمران خان کو تبدیلی لانے سے روکنے والے مجھے ادنیٰ کارکن کہیں تو مجھے کوئی اثر نہیں پڑتا ہے، میں تحریک انصاف کی ادنیٰ کارکن رہی ہوں کیونکہ میں انٹراپارٹی الیکشن میں مرکزی نائب صدر منتخب ہو کر آئی تھی، عمران خان کو بارہا پارٹی مسائل سے آگاہ کیا۔

تازہ ترین