• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کےارکان پارلیمنٹ میں آؤٹ سائیڈرزہیں،افتخارچوہدری

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)سابق چیف جسٹس پاکستان افتخار محمد چوہدری نے جیو نیوز کے پروگرام ”جرگہ“ میں گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر میں سپریم کورٹ میں ہوتا تو نواز شریف کو نااہل قرار دے دیتا، نواز شریف کو دو جج نااہل قرار دے چکے، ایک بھی اور جج رائے خلاف دیدے تو وہ نااہل ہوجائیں گے.

آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی میں شامل کرنا اچنبھے کی بات نہیں،اس حوالے سے قانون موجود ہے،جے آئی ٹی سے حکومت کا نہیں سپریم کورٹ کا مطمئن ہونا ضروری ہے، آئین کے آرٹیکل 62/63کی دفعات ججوں کیلئے نہیں ارکان پارلیمنٹ کیلئے ہیں، بہت سارے ارکان پارلیمنٹ آرٹیکل 62/63پر پورے اترتے ہیں، مجھے سپریم کورٹ سے نکالنے میں کوئی ادارہ نہیں ایک باوردی شخص ملوث تھا، آج کی عدلیہ بھی میرے دور کی عدلیہ کی طرح متحرک و آزاد ہے، پرویز مشرف اتنا دلیر نہیں تھا جتنے وہ دعوے کرتا تھا، عمران خان جب تک مجھ پر لگائے جھوٹے الزامات واپس نہیں لیتا اس کی مخالفت کرتا رہوں گا، عمران خان کو گرفتار نہ کرنا موجودہ حکومت کی کمزوری ہے، اصغر خان کیس اس لئے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکا کیونکہ نواز شریف کرسی پر بیٹھا ہے، میری بحالی میں نواز شریف، عمران خان اور جنرل کیانی کا کوئی کردار نہیں تھا، آف شور کمپنیاں رکھنے والوں کے ساتھ وہی کچھ ہونا چاہئے جو نواز شریف کے ساتھ ہورہا ہے،تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ میں آؤٹ سائیڈرزہیں،ملک میں مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی سسٹم ڈی ریل ہوگا،نواز شریف پرانا وطیرہ چھوڑ کر آئین و قانون کے سامنے سر جھکادیں۔

میزبان سلیم صافی کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ اگر میں سپریم کورٹ میں ہوتا تو نواز شریف کو نااہل قرار دے دیتا، بنچ میں دو ججوں نے آئین و قانون کے مطابق اور دستیاب شواہد پر نواز شریف کیخلاف فیصلہ دیا میری رائے بھی ان سے مختلف نہ ہوتی، نواز شریف کو پاناما کیس میں اپنے دفاع کا بھرپور موقع ملا، بنچ نے دو ججوں کے فیصلے کے تسلسل میں جے آئی ٹی بنائی تھی، عدالت کے فیصلے کے پیرانمبر چار کے تحت بنچ نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کرسکتا ہے، سپریم کورٹ کو اسی پیرے کو سامنے رکھتے ہوئے خود نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ کرنا چاہئے، نواز شریف نے کاغذات نامزدگی میں ڈیکلریشن نہیں دی جس کیلئے ان کا باقاعدہ ٹرائل ہوگا، دہری شہریت اور جعلی ڈگریوں پر بہت سے لوگوں کے ایسے ٹرائل ہوچکے ہیں۔ سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ پاناما جے آئی ٹی کی حیثیت دوسری جے آئی ٹیز سے مختلف ہے کیونکہ اس کی نگرانی خود سپریم کورٹ کررہی ہے، سپریم کورٹ جے آئی ٹی رپورٹ کے بعد آرٹیکل 184/3 کے تحت کارروائی کرے گی، آئی ایس آئی کو جے آئی ٹی میں شامل کرنا اچنبھے کی بات نہیں اس حوالے سے قانون موجود ہے، آئی ایس آئی اور ایم آئی غیرملکی نہیں فوج کا حصہ ہیں۔

افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ جے آئی ٹی سے حکومت کا نہیں سپریم کورٹ کا مطمئن ہونا ضروری ہے، حکومت کا جے آئی ٹی یا تحقیقات سے کوئی تعلق نہیں ہے، یہ تحقیقات وزیراعظم اور ان کی فیملی کیخلاف ہیں، جے آئی ٹی کی تشکیل کے وقت اعتراض کیا جاتا تو اس کی کمپوزیشن تبدیل کیا جانا ممکن تھا، سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی پر اعتراضات جانچنے کے بعد انہیں کام جاری رکھنے کیلئے کہا، اس مرحلہ پر جے آئی ٹی پر اعتراض صرف وقت حاصل کرنے کیلئے تھا۔ افتخار محمد چوہدری کاکہنا تھا کہ میں نے ارسلان افتخار کیس کی جے آئی ٹی نہیں بنائی،میں اس بنچ کا حصہ ہی نہیں تھا، آئین کے آرٹیکل 62/63کی دفعات ججوں کیلئے نہیں ارکان پارلیمنٹ کیلئے ہیں، ججوں کی دیانتداری جانچنے کیلئے عدالتوں کے اپنے قوانین ہیں، جاوید ہاشمی شاید سمجھتے ہیں جج صاحبان الیکشن لڑنے جارہے ہیں اس لئے انہیں آرٹیکل 62/63 کے معیار پر اترنا چاہئے، آئین پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد کرنا چاہئے، بہت سارے ارکان پارلیمنٹ آرٹیکل 62/63 پر پورے اترتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ نواز شریف کو دو جج نااہل قرار دے چکے، ایک بھی اور جج رائے خلاف دیدے تو وہ نااہل ہوجائیں گے، نواز شریف پورا موقع ملنے کے باوجود خود کو صادق اور امین ثابت نہیں کرسکے، میری طالب علمانہ رائے کے مطابق نواز شریف اب نااہلی سے نہیں بچ سکیں گے، میری اصولوں پرا ٓج بھی عمران خان کی مخالفت ہے، عمران خان جب تک مجھ پر لگائے جھوٹے الزامات واپس نہیں لیتا اس کی مخالفت کرتا رہوں گا، عمران خان کیخلاف میرا ہتک عزت کا دعویٰ عدالت میں زیرالتواء ہے۔

سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ مجھے سپریم کورٹ سے نکالنے میں کوئی ادارہ نہیں ایک باوردی شخص ملوث تھا، وہ ادارہ کسی کیخلاف نہیں تھا ،وہ ایک فرد کا عمل تھا جو وردی میں ملک پر مسلط رہنا چاہتا تھا، آج کی عدلیہ بھی میرے دور کی عدلیہ کی طرح متحرک اور آزاد ہے، پرویز مشرف اتنا دلیر نہیں تھا جتنے وہ دعوے کرتا تھا، پرویز مشرف ٹرائل کا سامنا نہیں کرسکتا اس لئے جان چھڑا کر ملک سے بھاگ گیا، کسی قوت نے پرویز مشرف کا ساتھ نہیں دیا بلکہ ٹرائل کیلئے تعاون کیا، پرویز مشرف کو واپس لانے کیلئے درکار طریقہ کار اپنایا جارہا ہے۔

افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ عمران خان اور طاہر القادری کو گرفتار نہ کرنا موجودہ حکومت کی کمزوری ہے، حکومت لاکھوں روپے اشتہاروں پر خرچ کررہی ہے لیکن ایک آدمی کو گرفتار نہیں کرسکتی ہے، اصغر خان کیس اس لئے منطقی انجام تک نہیں پہنچا سکا کیونکہ نواز شریف کرسی پر بیٹھا ہوا ہے، اصغر خان کیس کے فیصلے پر عملدرآمد کیلئے پٹیشن دائر کی جانی چاہئے۔

سابق چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ میری بحالی میں نواز شریف، عمران خان اور جنرل کیانی کا کوئی کردار نہیں تھا، عدلیہ کی بحالی کیلئے وکلاء، سول سوسائٹی، طلباء، ورکرز اور خواتین نے قربانیاں دیں، جنرل کیانی کے اعتزاز احسن کو فون سے مارچ ختم نہیں ہوا تھا، اس وقت اٹھارہ کروڑ لوگ امڈ آئے تھے ایسے میں فوج کی ذمہ داری شروع ہوجاتی ہے، تین نومبر کو ایمرجنسی لگی تو نواز شریف ملک میں ہی نہیں تھے، اعتزاز احسن مجھ سے ناراض یا مایوس نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سانحہ بارہ مئی کیس ایم کیوا یم کے دباؤ کی وجہ سے تاخیر کا شکار ہوتا رہا، سانحہ بارہ مئی کیس کی سماعت جاری ہے اس کا فیصلہ ضرور ہوگا ، نواز شریف نے خود کو بچانے کیلئے اشتہارات پر کتنا پیسہ خرچ کیا، حکمران صرف اپنی اپنی پراجیکشن کررہے ہیں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے فیصلہ دیا تھا کہ آپ اپنے آپ کو پراجیکٹ نہیں کرسکتے ہیں۔

افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ آف شور کمپنیاں رکھنے والوں کے ساتھ وہی کچھ ہونا چاہئے جو نواز شریف کے ساتھ ہورہا ہے،عدلیہ پاناما کیس میں اس کیلئے ایک ماڈل سیٹ کردے گی جسے سب فالو کریں گے، ملک کا لوٹا ہوا مال واپس ملک میں لانا چاہئے، پاکستان میں اس وقت پلوٹوکریسی ہے، نواز شریف دولت کے بل بوتے پر حکومت میں آتے ہیں،ججوں کیخلاف بھی کارروائی ہوتی ہے، پی سی او کے سر پر 104ججز گھر گئے تھے، میرے بیٹے کو کسی نے نہیں بچایا اس پر فیصلہ آیا ہوا ہے، پاناما پیپرز میں لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج کا بھی نام آیا جس کیخلاف سپریم جیوڈیشل کونسل میں معاملہ زیرسماعت ہے۔

انہوں نے کہا کہ آئندہ انتخابات میں کوئٹہ سے الیکشن لڑوں گا، یہ درست نہیں کہ جنرلز جنرلز کو بچاتے ہیں، تحریک انصاف کے ممبران پارلیمنٹ میں آؤٹ سائیڈرزہیں ، اسپیکر قومی اسمبلی نے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کو رعایت دی جو درست نہیں تھی، چیف جسٹس سے گزارش ہے کہ وہ اراکین اسمبلی کے استعفوں کے معاملہ کو جلد نمٹائیں۔

افتخار محمد چوہدری کا کہنا تھا کہ اکتیس جولائی 2009ء کے فیصلے کے بعد ملک میں مارشل لاء کا کوئی خطرہ نہیں اور نہ ہی سسٹم ڈی ریل ہوگا،نواز شریف پرانا وطیرہ چھوڑ کر آئین و قانون کے سامنے سر جھکادیں۔

تازہ ترین